Main Ne Apni Zindagi Mein Aise Nayab Logon Ko Khoya
میں نے اپنی زندگی میں ایسے نایاب لوگوں کو کھویا

اچھا دوست ایک اچھا رہنما ہوتا ہے۔ جب اچھا دوست یا رہنما بے وقت بچھڑ جائے تو زندگی بے مقصد سی لگنے لگتی ہے۔ جب وہ زندہ تھے تو اپنی زندگی کو بہت خوبصورت سمجھا جاتا تھا، لیکن جب یہ احباب اور چاہنے والے ایک ایک کرکے جدا ہوتے گئے تو اس کے بعد یہی خوبصورت زندگی بہت اداس ہونے لگی 2006 میں میری پیاری نانی محترمہ رقیہ وزیر وفات پا گئیں۔ وہ میری ماں کی حیثیت سے میری پرورش کرتی رہیں اور میرا بے پناہ خیال رکھتی تھیں۔ ان کے دنیا سے جانے کے بعد زندگی میں ایسے دکھ ملے جو بیان سے باہر ہیں۔ آج ہم ان کے حق میں صرف دعا ہی کرسکتے ہیں۔ اللہ حق مغفرت کرے، آمین۔
اس سے پہلے سن 2002 میں مہدی آباد کے خوبرو نوجوان اور میرے بہترین دوست علی محمد، جو اسسٹنٹ لائف میں ایک اہم عہدے پر فائز تھے، ہم سے جدا ہوگئے۔ وہ ایک قیمتی انسان تھے، ان کی زندگی دوسروں سے بالکل الگ تھی۔ ہمیشہ لوگوں کا خیال رکھتے، کوئی بیمار ہوتا تو اپنی گاڑی میں اسکردو ہسپتال لے جاتے اور علاج کا بھی انتظام کرتے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی لوگوں کی خدمت کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ 1997 میں جب بندہ ناچیز موٹر سائیکل حادثے میں شدید زخمی ہوا تو انہوں نے میری بیماری کے دوران بے حد مدد کی۔ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اچھے لوگوں کو جلد اپنے پاس بلا لیتا ہے۔ اللہ ان کی مغفرت کرے۔
2012 میں میرے پیارے نانا جان، "مصنف ارمغانِ بلتستان" ماسٹر محمد تقی بھی انتقال کرگئے۔ ان کے جانے کے بعد اہلِ علاقہ ایک علمی و ادبی شخصیت سے محروم ہوگئے۔ نانا جان علاقے میں سیاسی، سماجی اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور بے لوث خدمت کرتے تھے۔ وہ ایک بہترین معلم اور میرے علم و ادب، شعر و شاعری کے استاد بھی تھے۔ میں جب بھی شاعری یا اخبارات کے لیے کالم لکھتا تو ان کو دکھاتا، وہ اس کی نوک پلک درست کرتے۔ لیکن 7 اپریل 2012 کو وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ وہ دکھ آج بھی تازہ ہے۔ اللہ ان کی بھی مغفرت فرمائے۔
2009 کے اپریل میں گلگت بلتستان کے مایہ ناز سیاستدان سید اسد زیدی صاحب پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ وہ میرے والد کے قریبی دوست اور سیاسی ساتھی تھے، اسی وجہ سے وہ مجھے بھی بیٹے کی طرح چاہتے تھے۔ اپنی تقریبات اور سیاسی جلسوں میں ہمیشہ ساتھ رکھتے، اسکردو یا گلگت جاتے تو مجھے بھی ساتھ لے جاتے۔ ان کی خوبصورت باتیں سن کر دلی خوشی محسوس ہوتی تھی۔ وہ جس موضوع پر بات کرتے تھے گویا اسی موضوع کے خالق ہوں۔ ان کی شہادت کے بعد ہم اہلِ علاقہ ایک انمول ہیرے سے محروم ہوگئے۔ ان کی یادوں کو اگر تحریر میں لایا جائے تو کئی کتابیں بن سکتی ہیں۔ جب بھی ان پر کچھ لکھنے لگتا ہوں تو آنکھوں سے آنسو نکل کر کاغذ پر گرنے لگتے ہیں اور قلم رک جاتا ہے۔
اللہ نے انہیں شہادت کے اعلیٰ درجے پر فائز فرمایا، جوارِ آئمہ میں جگہ عطا کرےاس کے علاوہ اور بھی کئی شخصیات میرے دل کے قریب تھیں۔ جن میں نمایاں طور پر آغا سید جعفر شاہ آف لاہور ہیں، جن کی محبت آج بھی دل میں زندہ ہے اسکردو کے معروف سماجی شخصیت اور مدرس محمد ابراہیم تبسم، جنہیں مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے، 2016 میں ہم سے ایسے جدا ہوئے جیسے جسم سے روح جدا ہو۔ اسکردو بلتستان کے لیے ان کی بے شمار خدمات تھیں۔ جب بھی علاقائی مسائل پیدا ہوتے وہ سب سے پہلے آ کر ان کا حل تلاش کرتے۔ میرے ساتھ بھی ان کا تعلق رشتہ داروں جیسا تھا۔ میری بدقسمتی کہ وہ بھی اس دنیا سے جلد رخصت ہوگئے۔ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيُهِ رَاجِعونَ۔
میرے بچپن کے دوست اور "کے ٹو اخبار" کے مالک جناب راجہ حسین جان مقپون (عرف راجہ کے ٹو) بھی میرے بہت قریب تھے۔ اخبار کے ابتدائی دنوں سے بندہ ناچیز ان کے رفقا میں شامل تھا۔ وہ میرے ذریعے کئی کام اخبار کے حوالے سے کرواتے تھے۔ لیکن افسوس کہ 26 فروری 2012 کو کار حادثے میں شیخ پورہ کے مقام پر جاں بحق ہوگئے اور ہم ان کی محبت سے محروم ہوگئے اسی طرح میرے استاد اور محسن سید مہدی عرف بوا مہدی نقارہ اخبار والے بھی اب ہمارے درمیان نہیں۔ وہ میرے صحافتی استاد تھے۔ پورے پاکستان میں ان کے شاگرد ہزاروں کی تعداد میں ہیں، مگر میرے ساتھ ان کا تعلق باپ بیٹے جیسا تھا۔ انہوں نے میری تحریر اور لکھنے کے شوق کو دیکھتے ہوئے مجھے اپنے ساتھ رکھا اور صحافت کا سلیقہ سکھایا۔
ایک بار گلگت بلتستان کے اس وقت کے چیف سیکریٹری، جو بوا مہدی کے دوست تھے، سے میری نوکری کے لیے سفارش بھی کی۔ ان کے کہنے پر مجھے 2001 میں قراقرم کوآپریٹو بینک میں عارضی طور پر بھرتی کیا گیا، لیکن میرا نصیب کہیں اور تھا، اس لیے وہ نوکری نہ کرسکا۔ اگست 2018 میں بوا مہدی بھی ہم سے جدا ہوگئے۔ اللہ ان کی بھی مغفرت کرے۔
حال ہی میں میرے پیارے ماموں ماسٹر حمایت حسین بھی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ وہ نہایت نیک سیرت اور غریب پرور انسان تھے۔ ان کی محبت کا ذکر کروں تو صفحات کم پڑ جائیں گے۔ ان کی جدائی نے مجھے اتنا اداس کر دیا ہے کہ بیان سے باہر ہے یہ تحریر لکھنے کا مقصد اپنی زندگی کے ان دکھوں کو قارئین تک پہنچانا ہے، کیونکہ میں نے اپنی زندگی میں ایسے نایاب لوگوں کو کھویا ہے آخر میں میں خالقِ کائنات کے حضور دعاگو ہوں کہ ہمارے یہ گوہرِ نایاب مرحومین کی قبروں کو جنت کا باغ قرار دے۔

