Khiraj e Aqeedat Hashmat Ali Kamal Ilhami
خراجِ عقیدت حشمت علی کمال الہامی

کمال کردی ہے ناصر شمیم نے کاوش
رہے گی تا بہ ابد اس کتاب کی تابش
ادیب و شاعر و عالم نے اور مفکرنے
بنا دیا اسے مل کر خزینۂ دانش
یہ قطعہ جناب الحاج فدا محمد ناشاد کا ہے، جو اُنہوں نے راقم الحروف کے زیر ادارت شائع ہونے والے ادبی مجلے "سہ ماہی موجِ ادب (کمال الہامی نمبر)" کے لیے تحریر فرمایا۔ یہ نمبر 2018 میں اُس وقت شائع کیا گیا تھا جب استادِ محترم، شاعر، مفکر، ادیب اور گلگت بلتستان کے روشن چراغ پروفیسر حشمت علی کمال الہامی صاحب حیات تھے۔
یوں تو دنیا میں بہت سے ادبی شمارے اور نمبر چھپتے رہے ہیں، لیکن کسی صاحبِ علم و فن کی حیات میں اُن کے فن و شخصیت پر مکمل نمبر شائع ہونا ایک تاریخی واقعہ تھا۔ یہ سعادت ربِ کریم نے مجھے عطا کی، جو میرے لیے اعزاز بھی ہے اور امانت بھی۔
اسی شمارے کے ایک اور صفحے پر جناب ناشاد صاحب یوں رقم طراز ہیں:
ایک آئینہ ہے یہ موجِ ادب
اس کے مضمون نگار ہیں نامی
یہ ہے ناصر شمیم کی کاوش
نذرِ حشمت کمال الہامی
اس کے بدلے میں ناصر کا
کل ہی لاکھوں بانڈ انعامی
ہے یہ ناشاد کی دعا سب کا
ربِ کعبہ رہے سدا حامی
پروفیسر حشمت علی کمال الہامی کا تعلق اسکردو کے نواحی گاؤں کوار دو سے تھا۔ وہ بچپن ہی سے علم و ادب اور شعر و سخن کے دلدادہ تھے۔ ان کا مزاج علمی، طبعیت متوازن اور ذوقِ مطالعہ نہایت گہرا تھا۔ گلگت بلتستان میں علم و دانش کے جس چراغ نے ایک پوری نسل کو منور کیا، وہ یقیناََ کمال الہامی کی ذات تھی۔
راقم کو ہمیشہ ان کی شفقت اور محبت کا سایہ حاصل رہا۔ وہ ادب کے نوآموز طالب علموں سے ہمیشہ نرمی سے پیش آتے، ان کی حوصلہ افزائی کرتے اور اپنے تجربات سے نوازتے۔ علم و ادب کی بات ہو یا غزل و نظم کا ذکر، وہ ہر محفل کی جان ہوتے۔
آج جب کہ اُن کی وفات کو پانچ سال گزر چکے ہیں، دل پھر سے ان کی یاد میں ڈوبا ہوا ہے۔ ان کی برسی کے موقع پر یہ سطریں اُنہیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے لکھی جا رہی ہیں۔
آخر میں، اُن کے کلام سے چند اشعار جو اُن کی فکری گہرائی اور تخلیقی وسعت کا آئینہ دار ہیں:
دنیائے حادثات کا کیا اعتبار ہے
انسان کی حیات کا کیا اعتبار ہے
کھلتے ہیں پھول، گاتے ہیں بلبل بہار میں
لیکن کسی کی بات کا کیا اعتبار ہے
ماہِ کمال کا بھی مقدر ہے جب غروب
تو چودہویں کی رات کا کیا اعتبار ہے
دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت پروفیسر حشمت علی کمال الہامی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق دے۔

