Jamshed Khan Dukhi
جمشید خان دکھی
گزر تو جائے گی تیرے بغیر بھی لیکن
بہت اداس بہت بے قرار گزرے گی
گلگت بلتستان کے ممتاز دانشور شاعر و ادیب لکھاری میں اور مخلتف خوبیوں کے مالک جمشید خان دکھی کو حق مغفرت کرے۔ ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن علاقے میں شعر و سخن اور گلگت بلتستان میں امن و امان کی فضا برقرار رکھنے میں ان کی گرانقدر خدمات اور شعر و ادب سے شغف رکھنے والوں سے ان کی والہانہ محبت ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے گی، جمشید خان دکھی کی وفات نے گلگت بلتستان کے علمی و ادبی چمن کو سوگوار کردیا اور ان کی وفات پر ہر شعبہ ہائے زندگی خصوصاََ علم و ادب سے محبت کرنے والے احباب نے دکھ کا اظہار کیا۔
گلگت بلتستان کے تمام علمی و ادبی تنظیموں نے ان کی وفات پر ان سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے ان کی علمی و ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے ادبی محافل سجائی گئیں ان محافل اور سیمینارز میں گلگت بلتستان بھر کے ان کے چاہنے والوں نے نہ صرف شرکت کی بلکہ ان کی ادبی خدمات کو شعر و شاعری کی صورت میں خراج عقیدت بھی پیش کی محفل میں شرکت کرنے والے شعرا اور لکھاری حضرات نے اپنے قلم اور جذبات کے ذریعے گلگت بلتستان کے امن برقرار رکھنے والا شاعر دکھی صاحب کی انتھک کوششوں، محنتوں کو خوب سراہا۔
گلگت بلتستان کے معروف ادبی تنظیم (حاذ) جس کی بنیاد بھی خود دکھی صاحب نے رکھی تھی کے زیر اہتمام دکھی صاحب کی خدمات کو سراہتے ہوئے ایک عظیم الشان محفل سجائی ادبی تنظیم (حاذ) کے تمام اراکین جس میں جناب عبدالخالق تاج، غلام عباس نسیم، محمد امین ضیا، ظفر وقار تاج، نیاز نیازی کے علاوہ اور بھی ان سے خلوص و محبت رکھنے والوں نے گرمجوشی سے شرکت کی۔ انہوں نے دکھی صاحب کی فن و شخصیت اور ان کی شاعری پر خوب تبصرے کئے ساتھ ہی شاعری کے علاوہ مقالہ بھی پیش کیے۔
بندہ ناچیز کو بھی گلگت سے ہمارے قلمی دوست جناب نیاز نیازی نے فون پر اس محفل میں شرکت کی دعوت دی۔ بندہ حقیر کو اس خوبصورت محفل میں شرکت کا بہت زیادہ شوق تھا کیونکہ ہمارے استادالشعرا جناب جمشید دکھی صاحب کے لیے جو محبت ہمارے دل میں ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن ذاتی مصروفیات کی وجہ سے شرکت کر نہ سکا جس کا ارمان ضرور ہے، اللہ تعالٰی نے زندگی دی تو آئندہ ضرور ان کی دوسری برسی کی تقریب میں شرکت کروں گا کیونکہ مرحوم دکھی صاحب کا ظرف کمال تھا۔
مجھ جیسے ادنیٰ ادبی طالبعلم کا خاص خیال رکھتے تھے میرے ٹوٹے پھوٹے اشعار کی نوک پلک درست کرتے رہتے تھے اس وجہ سے بندہ ناچیز کو لکھنے اور پڑھنے کی تھوڑی بہت سوجھ بوجھ پیدا ہوئی۔ اس حوالے سے بندہ ناچیز اس سے پہلے بھی اپنے آرٹیکل میں ذکر کر چکا ہوں جو متعدد اخبارات میں بھی چھپ چکے ہیں۔ آج اس مضمون کو لکھنے کا مقصد استادالشعرا جناب دکھی صاحب مرحوم کی علمی و ادبی خدمات کا محض ذکر کرنا ہے تاکہ ان کا تھوڑا سا حق بھی ادا ہو سکے۔
جمشید دکھی نے ہمیشہ اپنی شاعری کے ذریعے حقیقی طور پر گلگت بلتستان میں امن و امان کو قائم رکھنے کے لئے حقیقی طور پر نمائندگی کرتے ہوئے ہمیشہ علاقے کے مسائل کو بہترین انداز میں پیش کرتے رہے۔ ان کی بہترین شاعری کی وجہ سے پورے گلگت بلتستان میں بڑی قدر و منزلت تھی۔ جمشید دکھی ایک محب وطن پاکستانی تھے انہوں نے ہر موقع پر نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پاکستان کی سر بلندی کو اولیت دی۔
یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب دکھی صاحب کینسر جیسی موذی بیماری میں مبتلا تھے تو راقم نے ان کو کال کرکے ان کی خیریت دریافت کی تو انہوں نے کہا یار ناصر شمیم اب میری زندگی کے آخری ایام آ چکے ہیں۔ اسلام آباد سے ڈاکٹر صاحبان نے مجھے اپنے بچوں کے ساتھ زندگی گزارنے کی ہدایات جاری کی ہوئی ہیں بس یہی سنا تھا۔ راقم بہت پریشان ہو کر ان کو تسلی دینے لگا اور دعائیں بھی دی۔ دکھی صاحب نے راقم سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے آخری ایک قطعہ میرے نام کہہ ڈالا جو نذر قارئین کرتا ہوں۔
ادب تہذیب کی اور علم و فن کی
کرے موج ادب خدمت سخن کی
بہاریں ہوں سدا قائم دعا ہے
خداوندا! یہ ناصر کے چمن کی
یوں تو دکھی صاحب نے اس سے پہلے بھی محبت کا اظہار کرتے ہوئے مجھے اور میرے بیٹے مصور عباس پہ بھی قطعہ تحریر کیا لیکن یہ ان کا آخری قطعہ جو انہوں نے میرے ساتھ ہمدردی کا ثبوت دیتےہوئے میری زندگی کیلئے روشن راستہ دکھا گیا جو کہ میرے لئے ایک نصحت بھی ہے اور دعا بھی ہے۔ انہوں نے یہ قطعہ فون پر سنایا جو کہ میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں ہے اور میں ایک خوش قسمت انسان بھی ہوں جن کے لئے دکھی صاحب جیسے بڑے شاعر نے اپنی محبت کا اظہار اشعار کی صورت میں پیش کئے۔
ان کی ادبی خدمات کی روشنی میں گزشتہ دنوں گورنمنٹ آف پاکستان نے 23 مارچ کے موقع پر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ایوارڈ ان کے صاحبزادے میرے قابل قدر دوست گرامی قدر جناب فیضان دکھی نے گورنر گلگت بلتستان جناب سید مہدی شاہ سے وصول کیا اس موقع پر ان کے گھر والے خصوصاََ فیضان خان دکھی، ذیشان دکھی، سفیان دکھی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ آخر میں دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے استادالشعرا جناب جمشید خان دکھی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ درجات عنایت فرمائے۔