Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nasir Abbas Shamim
  4. Gilgit Baltistan Ka Bhutto

Gilgit Baltistan Ka Bhutto

گلگت بلتستان کا بھٹو

پاکستان کے سابق وزیراعظم لاڑکانہ سندھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد گرامی سر شاہنواز بھٹو مشیر اعلٰی حکومت بمبئی اور چوناگڑھ کی ریاست میں ممبر ایوان تھے۔ پاکستان میں آپ کو قائد عوام یعنی عوام کا رہبر اور بابائے آئین پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ آپ پاکستان کی تاریخ کے مقبول ترین وزیراعظم تھے انہوں نے ملک کو ایک ایسا قانون دیا جس کے تحت آئین کی بدولت اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرتی ہیں۔ یہ آئین عوام کی امنگوں کا ترجمان ہے یہی وجہ ہے کہ بھٹو کو مٹانے والوں کا کوئی نام لیوا نہیں۔

لیکن بھٹو کے ہزاروں کی تعدا میں کارکن موجود ہیں اسی لیے کہتے ہیں کہ کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو عالمی لیڈر تھے، ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کی عوام کا وقار دنیا میں بلند کیا۔ قارئین یہ تھا پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے مختصر تعارف لیکن آج ہم اپنے یہ کالم گلگت بلتستان کے بھٹو پر لکھنے کی ٹھان لی ہے اور ان کے چاہنے والوں کے بار بار اسرار پر گلگت بلتستان کے بھٹو کو صفحہ قرطاس پر تحریر میں لا رہا ہوں امید ہے قارئین پسند کرینگے۔

یوں تو بندہ ناچیز کوئی سیاسی بندہ نہیں ہے اور نہ مجھے سیاست سے کوئی دلچسپی اور نہ سیاسی علم لیکن میں سیاست سے اس وقت آشنا ہو چکا ہوں کہ جب یہاں ایک عظیم انسان جو یہاں کے نہ صرف سیاست بلکہ وہ علم و ادب، شاعری، صحافت و کالت بلکہ وہ بہترین مقرر و خطبات میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ علم و ادب کے حوالے سے پورے اہل ذوق رکھنے والے ان سے آشنا تھے بلکہ یہاں کے سبھی لوگ ان کی شاعری، خوبصوت گفتگو، وکالت، خطابت خوب پسند کرتے تھے۔

انہوں نے 1986 میں اپنی شاعری کی اولین کتاب بہ نام رنگ شفق منظر عام پر لائے جو آج کل مارکیٹ میں نایاب ہے۔ وہ کتاب گلگت بلتستان میں ایسی مقبول ہوئی جس میں شامل تمام اشعار آج تک لوگوں کی زبان زد عام ہے۔ ہر علمی و ادبی محافل میں ان کا کلام جو اس کتاب میں موجود ہے سنایا جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں میرے نانا ابو جان کے پاس اس کتاب کی ایک کاپی موجود تھی جس کے ٹائٹل پر یہ شعر لکھا ہوا تھا جو اب بھی میرے ذہن میں اسی طرح موجود ہے۔

رنگ شفق کو دیکھ کے سب لوگ دنگ ہیں

کیا آسمان پہ میری تمنا کے رنگ ہیں

اس کتاب کو دوبارہ چھاپنے کیلئے میں نے بار بار اپنے گزشتہ کالمز میں ان کے لواحقین خصوصاً ان کے چھوٹے بھائی جناب سید امجد علی زیدی جو اس وقت گلگت بلتستان اسمبلی کے اسپیکر بھی ہیں سے گزارش کی تھی میں اب بھی اس مضمون کی وساطت سے دوبارہ ان سے گزارش کرتا ہوں کہ سید اسد زیدی کے رنگ شفق کتاب کو دوبارہ شائع کر کے علم و ادب پر ایک بار پھر احسان ضرور کجیئے۔

قارئین کرام میرا آج کا مضمون گلگت بلتستان کا بھٹو ہے جبکہ میں نے یہاں رنگ شفق کتاب کے حوالے سے جو باتیں لکھ دی ہیں جو کہ ان کی شعر و شاعری اور خوبصورت باتوں پر مختصر تبصرہ کرنا تھا سو کر لیا۔ آئیے ہم گلگت بلتستان کے بھٹو کے بارے میں آپ قارئین کو بتاتا چلوں کہ اسد زیدی شہید گلگت بلتستان کے مایہ ناز سیاستدان تھے انہوں نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز 1987 سے کیا اس سے پہلے وہ گلگت بلتستان کے انتظامی امور میں اہم عہدوں پر فائز رہے۔

اس دوران ان کے دل میں عوام خدمت کرنے کا جذبہ پیدا ہوا تو سرکاری عہدوں کو خیر باد کہہ کر عوامی فلاح کا جذبہ لیکر سیاسی میدان میں اترے۔ 1987 کے الیکشن میں وہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے اسی دوران انہوں نے گلگت بلتستان کے لئے میگا پراجیکٹس منظور کروائے۔ گلگت بلتستان اسمبلی میں قانون سازی میں ان کا بڑا کردار ہے اس کے علاوہ سد پارہ ڈیم سمیت گلگت بلتستان کیلئے نئے سیٹ اپ بنانے میں بھی ان کا اہم کردار رہا ہے۔

اس وقت غریب عوام اب بھی ان کی ان خدمات کو یاد کر رہے ہیں۔ غریب پروری میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا دن بھر وہ غریب عوام کے مسئلے مسائل حل کیلئے مختلف محکموں کے افسران کے دفتر کے چکر لگاتے رہتے تھے اور وہاں سے جب کام نہیں ہوتے تب تک وہ دھڑے لگا کر رہتے تھے اور غریب کا کام کر کے اس بندے کو مطمئن کر کے آتے تھے۔ یہ کالم گلگت بلتستان کا بھٹو کے نام سے لکھ رہا ہوں کیونکہ ایسے لیڈر کی ہم قدر نہ کریں تو کس کی کریں گے؟

اس لئے کہتے ہیں کہ ہر الیکشن جیتنے والا لیڈر نہیں بن سکتا اور ہر اسمبلی میں جانے والا بھٹو بن نہیں سکتا۔ اسد زیدی شہید گلگت بلتستان کا واحد لیڈر تھا جنہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی لمحات یہاں کے غریب عوام کیلئے صرف کر رکھے تھے لیکن ہماری اور گلگت بلتستان کی عوام کی بدقسمتی سے ناعاقبت دہشتگردوں نے ان کے مشن کو ختم کرنے کیلئے ہم سے ہمارا لیڈر چھین لیا لیکن ہمارے دلوں سے گلگت بلتستان کی عوام کے دلوں سے کیسے چھین سکتے ہیں اسی لئے کہا ہے نہ کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے۔

آخر میں اللہ ربّ العزت سے دلی دعا ہے کہ اللہ گلگت بلتستان کا بھٹو اسد زیدی کے درجات بلند کرے۔

Check Also

Roos, Nuclear Doctrine Aur Teesri Aalmi Jang

By Muhammad Aamir Iqbal