Gilgit Baltistan Ka Bhutto (2)
گلگت بلتستان کا بھٹو (2)

پاکستان کے سابق وزیراعظم لاڑکانہ سندھ میں پیدا ہوئے ان کے والد گرامی سر شاہنواز بھٹو مشیر اعلٰی حکومت بمبئی اور جوناگڑھ کی ریاست میں ممبر ایوان تھے پاکستان میں آپ کو قائد عوام یعنی عوام کا رہبر اور بابائے آئین پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ آپ پاکستان کی تاریخ کے مقبول ترین وزیراعظم تھے انہوں نے ملک کو ایک ایسا قانون دیا جس کے تحت آئین کی بدولت اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرتی ہیں۔ یہ آئین عوام کی امنگوں کا ترجمان ہے یہی وجہ ہے کہ بھٹو کومٹانے والوں کا کوئی نام لیوا نہیں لیکن بھٹو کے ہزاروں کی تعداد میں کارکن موجود ہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے۔ شہید ذوالفقارعلی بھٹو عالمی لیڈر تھے ذوالفقارعلی بھٹو نے پاکستان کی عوام کا وقار دنیا میں بلند کیا۔ قارئین یہ تھا پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کے حوالے سے مختصر تعارف لیکن آج ہم اپنے یہ کالم گلگت بلتستان کے بھٹو پر لکھنے کی ٹھان لی ہے اور ان کے چاہنے والوں کے باربار اسرار پرگلگت بلتستان کے بھٹو کو صفحہ قرطاس پر تحریر میں لارہا ہوں امید ہے قارئین کو پسند کرینگے۔
یوں تو بندہ ناچیز کوئی سیاسی بندہ نہیں ہے اور نہ مجھے سیاست سے کوئی دلچسپی اور نہ سیاسی علم لیکن میں سیاست سے اس وقت آشنا ہوچکا ہوں کہ جب یہاں ایک عظیم انسان جو یہاں کے نہ صرف سیاست بلکہ وہ علم و ادب شاعری صحافت وکالت بلکہ وہ بہترین مقرر و خطبات میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ علم و ادب کے حوالے سے پورے اہل ذوق رکھنے والے ان سے آشنا تھے بلکہ یہاں کے سبھی لوگ ان کی شاعری خوبصوت گفتگو وکالت خطابت خوب پسند کرتے تھے۔ انہوں نے 1986 میں اپنی شاعری کی اولین کتاب بہ نام رنگ شفق منظرعام پرلائے جو آج کل مارکیٹ میں نایاب ہے۔ وہ کتاب گلگت بلتستان میں ایسی مقبول ہوی جس میں شامل تمام اشعار آج تک لوگوں کے زبان زد عام ہے۔ ہر علمی وادبی محافل میں ان کے کلام جو اس کتاب میں موجود ہے سنایا جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ پجپن میں میرے نانا ابو جان کے پاس اس کتاب کی ایک کاپی موجود تھی جس کی ٹائٹل پر یہ شعر لکھا ہوا تھا جو اب بھی میرے ذہن میں اسی طرح موجود ہے۔۔
رنگ شفق کو دیکھ کے سب لوگ دنگ ہیں
کیا آسمان پہ میری تمنا کی رنگ ہیں
اس کتاب کو دوبارہ چھاپنے کیلئے میں نے باربار اپنے گزشتہ کالمز میں ان کے لواحقین خصوصاً ان کے چھوٹے بھائی جناب سید امجد علی زیدی جو اس وقت گلگت بلتستان اسمبلی کے اسپیکر بھی ہیں سے گزارش کی تھی میں اب بھی اس مضمون کی وساطت سے دوبارہ ان سے گزارش کرتا ہوں کہ سید اسد زیدی کے رنگ شفق کتاب کو دوبارہ شائع کرکے علم وادب پر ایک بار پھر احسان ضرور کجیئے۔
قارئین کرام میرے آج کا مضمون گلگت بلتستان کے بھٹو ہے جبکہ میں نے یہاں رنگ شفق کتاب کے حوالے سے جو باتیں لکھ دی ہیں جوکہ ان کی شعروشاعری اور خوبصوت باتوں پر مختصر تبصرہ کرناتھا سو کرلیا۔
آئیے ہم گلگت بلتستان کے بھٹو کے بارے میں آپ قارئین کو بتاتا چلوں کہ اسد زیدی شہید گلگت بلتستان کے مایہ ناز سیاستدان تھے انہوں نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز 1987 سے کیا اس سے پہلے وہ گلگت بلتستان کے انتظامی امور میں اہم عہدوں پر فائز رہے۔ اس دوران ان کے دل میں عوام حدمت کرنے کا جذبہ پیدا ہوا تو سرکاری عہدوں کو خیر باد کہہ کر عوامی فلاح کے جذبہ لیکر سیاسی میدان میں اترے۔ 1987 کی الیکشن میں وہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے اسی دوران انہوں نے گلگت بلتستان کے لئے میگا پراجکیٹس منظور کروائے۔
گلگت بلتستان اسمبلی میں قانون سازی میں ان کا بڑا کردار ہے اس کے علاوہ سدپارہ ڈیم سمت گلگت بلتستان کیلئے نئے سیٹ آپ بنانے میں بھی ان کا اہم کردار رہا ہے۔ اس وقت غریب عوام اب بھی ان کی ان خدمات کو یاد کر رہے ہیں۔ غریب پروری میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا دن بھر وہ غریب عوام کے مسئلے مسائل حل کیلئے مختلف محکموں کے آفسران کے دفتر کی چکر لگاتے رہتے تھے اور وہاں سے جب کام نہیں ہوتے تب تک وہ دھڑے لگا کر رہتے تھے اور غریب کا کام کرکے اس بندے کو کو مطمئن کرکے آتے تھے۔
یہ کالم گلگت بلتستان کا بھٹو کے نام سے لکھ رہا ہوں کیونکہ ایسے لیڈر کا ہم قدر نہ کرے تو کس کا کریں گے اس لئے کہتے ہیں کہ ہر الیکشن جیتنے والا لیڈر نہیں بن سکتا اور ہر اسمبلی میں جانے والا بھٹو بن نہیں سکتا۔ اسد زیدی شہید گلگت بلتستان کا واحد لیڈر تھا جنہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی لمحات یہاں کے غریب عوام کیلئے صرف کر رکھی تھی لیکن ہماری اور گلگت بلتستان کی عوام کی بدقسمتی سے ناعاقبت دہشتگردوں نے ان کے مشن کو ختم کرنے کیلئے اور ہم سے ہمارا لیڈر چھین لیا لیکن ہمارے دلوں سے گلگت بلتستان کی عوام کے دلوں سے کیسے چھین سکتے ہیں۔ اسی لئے کہا ہے نا کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے۔ آخر میں اللہ رب العزت سے دلی دعا ہے کہ اللہ گلگت بلتستان کا بھٹو اسد زیدی کی درجات بلند کرے۔

