Bhulata Lakh Hoon Lekin Barabar Aate Hain
بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر آتے ہیں

گزشتہ دنوں میرا ایک کالم بعنوان "میں نے اپنی زندگی میں ایسے نایاب لوگوں کو کھویا" روزنامہ سلام گلگت بلتستان میں شائع ہوا۔ اس مضمون میں میں نے ان چاہنے والی اہم شخصیات کا ذکر کیا تھا جو بے وقت ہم سے بچھڑ گئے اور جن کے ساتھ گزرے حسین لمحات آج بھی یادوں میں تازہ ہیں۔ یہ کالم ہمارے بزرگ اور گلگت بلتستان کے نامور سیاسی و ادبی شخصیت، جناب الحاج فدا محمد ناشاد صاحب کی نظر سے بھی گزرا۔ انہوں نے مجھے ایک شکایتی پیغام بھیجا جس میں لکھا: "ماشاءاللہ! لیکن آپ نے اس موقع پر ہمارے استاد، مخلص دوست اور ساتھی حشمت کمال الہامی کو بھول کر کمال کردیا۔ وہ عالمِ فاضل اور شاعرِ اہلبیت اطہار تھے۔ اللہ انہیں معصومینؑ کے ساتھ جنت الفردوس میں فیض عطا کرے، آمین!"
واقعی ناشاد صاحب کی یہ شکایت بجا تھی، کیونکہ اس کالم میں پروفیسر حشمت علی کمال الہامی مرحوم کا ذکر نہ ہونا میرے لیے کم ظرفی کے مترادف تھا۔ یہ نہ صرف علم و ادب سے ناانصافی تھی بلکہ ہماری ذاتی دوستی کے ساتھ بھی زیادتی تھی۔ میں ناشاد صاحب کا بے حد شکر گزار ہوں کہ وہ وقتاً فوقتاً میری تحریروں کو پڑھتے ہیں، ان میں کمی بیشی اور غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور اصلاح فرماتے ہیں۔
پروفیسر حشمت علی کمال الہامی جیسی معتبر علمی و ادبی شخصیت اس دور میں کم ہی نصیب ہوتی ہے۔ ان کی شخصیت پر لکھنا میرے بس کی بات نہیں، لیکن اپنے اس مضمون میں مختصراً ان کا ذکر کرکے میں اپنی تحریر کو مزید معیاری بنانے کی کوشش کر رہا ہوں حشمت کمال الہامی گلگت بلتستان کے ادبی افق کا ایک روشن ستارہ تھے۔ ادبی محفلیں ان کے بغیر نامکمل سمجھی جاتی ہیں۔ ان کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہے۔ شاید ہی کوئی طالب علم ایسا ہو جس نے ان سے فیض نہ پایا ہو۔ گلگت بلتستان کے بیشتر لکھنے والے اپنی تحریریں، شاعری، مقالے اور فیچر انہی کو دکھائے بغیر شائع کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ ان کے بے شمار شاگرد آج پورے پاکستان میں اہم عہدوں پر فائز ہیں، جو ان کی علمی محنت اور اخلاص کا زندہ ثبوت ہے مجھے بھی ان کی صحبت نے ادب سے شغف بخشا۔
سال 2018 میں میں نے ان کی فن و شخصیت، شاعری اور علمی و ادبی خدمات پر موجِ ادب کا "کمال الہامی نمبر" شائع کیا۔ یہ خصوصی شمارہ نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پورے پاکستان میں اہلِ قلم نے بھرپور پذیرائی بخشی۔ ملک بھر سے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں نے نہ صرف تعریف کی بلکہ کتاب منگوانے کے لیے فون اور خطوط بھیجے۔ یہ رسالہ چند ہی دنوں میں ختم ہوگیا اور آج بھی بہت سے لوگ اس کی فرمائش کرتے ہیں۔ یہ سب جناب حشمت کمال الہامی مرحوم کے لیے اہلِ علم و ادب کی محبت اور خلوص کا واضح ثبوت ہے۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر زندگی نے مہلت دی تو اس کتاب کو دوبارہ شائع کروں گا تاکہ دنیاے ادب کی یہ خواہش پوری ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین۔
اسی طرح، اس کالم میں ایک اور شخصیت کا ذکر رہ گیا تھا اور وہ ہیں گلگت بلتستان کے معروف شاعر و ادیب جناب جمشید خان دُکھی۔ دکھی صاحب ایک عظیم شاعر اور استاد تھے۔ میرا بھی ان سے ادبی و علمی تعلق رہا۔ اگر ان کی علمی و ادبی خدمات پر تفصیل سے لکھا جائے تو شاید کئی رجسٹر درکار ہوں، کیونکہ ان کی خدمات کی فہرست بہت طویل ہے۔ یہاں میں ان کے لیے صرف دعائے مغفرت کے ساتھ ذکرِ خیر کرتا ہوں آخر میں دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان تمام مرحومین کے درجات بلند کرے اور انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔

