1.  Home/
  2. Blog/
  3. Nasar Iqbal Azad/
  4. Saudi Arab Modernism Ki Raah Par

Saudi Arab Modernism Ki Raah Par

سعودی عرب ماڈرن ازم کی راہ پر

سعودی عرب جزیرہ نما عرب کے بیشتر علاقوں پر قائم ہے۔ اپنی تاریخ کے حوالے سےدنیا کی قدیم ترین تہذیب کا گہوارہ مانا جاتا ہے۔ جزیرہ نمائے عرب کا محل وقوع سٹریٹیجک نوعیت کا ہے۔ یہ تین بڑے براعظموں کے درمیان واقع ہے اور کرہ ارض کے نصف شمالی میں آباد ہے۔

سعودی عرب کی بادشاہی،آل سعود خاندان کے تحت ایک مطلق بادشاہت ہے، جس نے 1932 سے سعودی عرب پر حکومت کی۔ موجودہ رہنما شاہ سلمان ہیں۔ عثمانی سلطنت سے آزادی کے بعد اس ملک کا ساتواں حکمران ہے۔ انھوں نے جنوری 2015 میں عبد اللہ کی وفات کے بعد سلمان کے سوتیلے بھائی شاہ عبداللہ کی جگہ لی۔

سعودی عرب کا کوئی با قاعدہ تحریری آئین نہیں ہے، حالانکہ بادشاہ قرآن پاک کا پابند ہے اور شریعت قانون انتخابات اور سیاسی جماعتیں ممنوع ہیں، لہذا سعودی سیاست بڑے سعودی شاہی خاندان میں مختلف دھڑوں کے گرد گھومتی ہے۔ یہاں ایک اندازے کے مطابق 7 ہزار شہزادے ہیں، لیکن سب سے قدیم نسل نوجوانوں سے کہیں زیادہ سیاسی طاقت حاصل کرتی ہے۔ شہزادے حکومت کی تمام اہم وزارتوں کے سربراہ ہیں۔

اکتوبر 1973 کو ایک بار پھر عرب اسرائیل جنگ شروع ہو گئی جس میں شام اور مصر نے عرب اتحادیوں کے ساتھ مل کر حملہ کیا۔ اس جنگ کے دوران امریکہ اور کچھ دیگر ممالک نے عرب جارحیت کی مذمت کی اور اسرائیل کا ساتھ دیا۔ اکتوبر 1973 کو شاہ فیصل نے جوابی ردعمل میں ایک ایسا فیصلہ کیا جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ انھوں نے عرب ممالک کی جانب اسرائیلی اتحادیوں کےلیے تیل کی ترسیل پہ پابندی عائد کر دی جس سے دنیا میں تیل کی قیمتیں چار گنا بڑھ گئیں۔

یہ ایک کارآمد ہتھیار تھا جس کا بہترین استعمال کیا گیا۔ اس کے بعد امریکہ نے ایسا پلان ترتیب دیا کہ تیل کے لحاظ سے عرب ممالک پہ انحصار ختم کیا جائے۔ ویسے بھی خود سعودی عرب میں تیل نکالنے والی کمپنی امریکی تھی۔ مارچ 1938 میں اس کمپنی کا نام کیلیفورنیا اریبیئن سٹینڈرڈ آئل کمپنی رکھا گیا جو بعد میں عربیئن امیریکن آئل کمپنی یعنی آرامکو بن گیا۔ خود امریکہ اپنے ملک میں اس سے بھی قریب ایک صدی قبل تیل دریافت کر چکا تھا۔ کرنل ایڈورڈ ڈریک نے امریکہ کی ریاست پینسلونیا میں 27 اگست 1859 کو تیل کے ذخائر دریافت کیے جو صرف 12 میٹر گہرائی پر تھے۔

یہ ویژن کی بات ہوتی ہے کہ امریکہ تیل میں خودمختاری کی جانب گامزن ہو گیا جب سعودی عرب نے اپنی نوے فیصد معیشت کا دارومدار تیل پہ رکھا۔ بدلتے وقت کے لحاظ سے نئے سٹیپ نہ اٹھانا ہمیشہ نقصان دہ ہوتا ہے۔ آج سعودی عرب کے پاس تیل بطور ہتھیار نہیں رہا۔ اگر مزید کچھ سالوں تک اس کی معیشت کا دارومدار تیل پہ رہا تو اکانومی کریش کر جائے گی۔ آج امریکہ روزانہ سعودی عرب سے بیس لاکھ بیرل زیادہ تیل پیدا کرتا ہے۔

سعودی عرب کی تیل پہ اجارہ داری ختم ہو چکی ہے۔ سب سے زیادہ خام تیل کے ذخائر لاطینی امریکہ کے ملک وینیزویلا کے پاس ہیں۔ امریکہ کے پاس دنیا کا سب سے بڑا ایمرجنسی تیل کا ذخیرہ ہے۔ 640 ملین سے زائد بیرلز کی شکل میں ٹیکساس اور لوئیزیانا کی ریاستوں میں نمک کے غاروں میں ذخیرہ کیا گیا۔ ایسے میں سعودی عرب اب تیزی سے معیشت کے دوسرے ذرائع ڈھونڈ رہا ہے۔ اس کےلیے سعودی ویژن 2030 شروع کیا گیا ہے۔

سعودی ویژن 2030 کے مطابق 2030 تک سعودی عرب کوعصری تقاضوں سے لیس کرنا ہے تا کہ دنیا کے مقابلے میں اپنا آزاد وجوث برقرار رکھا جا سکے۔ معیشت میں پیداواریت اور سرمایہ کاری کے ذریعے نئی توانائی شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ غیرملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے آزاد پالیسیاں متعارف کرائی جارہی ہیں، خواتین کو بااختیاربنانے اور اقتصادی شہروں کی بحالی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ غیر ملکی سیاحوں کو راغب کرنے کےلیے کلب، شراب خانے، موسیقی، تھیٹر، سینما، بیچ وغیرہ جیسی تمام سہولیات کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔

عورت کو آزاد کیا جا رہا ہے تا کہ وہ خودمختار ہو کر ملکی معیشت میں اپنا کردار ادا کرے۔ اس پہ الباکستانیوں کو ہمیشہ کی طرح مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ پوری دنیا کو ہمارے حساب سے چلنا چاہیے۔ سعودی عرب کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ وہ اپنے ملک کی ترقی کےلیے لانگ ٹرم پلاننگ کر رہے ہیں۔ مالی ترقی ہی دنیا میں بقا کی ضامن ہے۔

وہ یہ بات سمجھ چکے ہیں۔ دوسروں پہ تنقید کرنے کے بجائے اپنی فکر کریں۔ عورت کی خودمختاری، موسیقی، رقص اور لٹریچر سے نفرت ابنارمل انسان کرتے ہیں۔ آپ کے نزدیک یہ فحاشی ہو گی لیکن نارمل انسانوں کے نزدیک نہیں ہے۔

Check Also

Magar Aik Maa Nahi Manti

By Azhar Hussain Azmi