Pakistan Ki Qeemat
پاکستان کی قیمت
دنیا میں کسی قوم کے لئے اس سے بڑی اور خوشی کی بات اور کیا ہوگی کہ دنیا کے نقشے پر ان کانام نمودار ہونا اور پھر ہمیشہ کے لئے برقرار رہنا، لیکن سب سے بڑی افسوس کی بات یہ ہے کہ جو لوگ آزادی کے لئے خود کو، اپنے اہل و عیال کو اور اپنی جائداد قربان کر دیتے ہیں وہ یہ نہیں جانتے کہ آزادی کس لئے حاصل کی جاتی ہے اور کیوں کی جاتی ہے۔ وہ تو بھولے بسرے لوگ ہوتے ہیں ان کو محض قربانی کے بکرے بنا کر پیش کئے جاتاہے اور جو لیڈران صاحبان ہوتے ہیں وہ ان کے پیچھے آرام سے کرسیوں پر بیٹھ کر صرف تماشا دیکھتے ہیں اور آخر میں بنی بنائی سلطنت پر آکر آرام سے پہلے سے تیار کردہ حویلیوں میں داخل ہوکر انتہائی عالی شان صوفوں پر براجمان ہوتے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد انگریز انتہائی تھک چکے تھے ا ور انھوں نے فیصلہ کیا تھا کہ جن ممالک پر ہم غاصبانہ مسلط ہوئے ہیں اب وقت آگیا ہے کہ ان کو اپنے حال پر چھوڑ دینا چاہیئے مطلب آزادی دینی چاہیئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جن ممالک پر ہم حکمرانی کر چکے ہیں اب وہ ذہنی غلام بن چکے ہیں اور ترقی کے نام سے کوسوں دور ہیں۔ اسی بناء پر کئی ممالک معرض وجود میں آئے جن میں سے دو بڑے نام سامنے آئے " پاکستان اور انڈیا " آج تک دونوں ممالک کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے انگریزوں کو بھگایا ہے لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ انگریز وں نے جان بوجھ کر یہاں سے کوچ کیا کیونکہ انھوں نے ہندوستان کو کھنڈر بنا کے چھوڑا تھا۔ اصل لڑائی تو ہندؤں اور مسلمانوں کے بیچ تھی۔ انگریز تو چلے گئے لیکن ہندؤں اور مسلمانوں کے بیچ عدوات اور نفرت کی ایسی بیج بو دی کہ قیامت تک ختم نہیں ہو سکتی۔
جو لوگ ہندوستان سے پاکستان آئے اور جو لوگ پاکستان سے ہندوستان گئے وہ بے چارے بڑی ذلت اور رسوائی سے دوچار ہوئے تھے۔ اس کے برعکس جن لوگوں نے ان لوگوں کو آزادی کا چسکا دیا تھا وہ ان کے پیچھے عالی شان گاڑیوں اور ریل گاڑیوں کے درجہ اول بگیوں میں بیٹھ کر انتہائی آرام سے ایک حویلی سے دوسری حویلی منتقل ہوگئے۔ خوار و ذلیل ہوئے کون؟ شرمندگی کا سامنا کس کو کرنا پڑا؟ تاریخ اٹھا کر دیکھیں کبھی کوئی چوھدری، کوئی وڈیرا یا کوئی سرمایہ دار بے گھر اور خوار و ذلیل ہوا ہو۔ ہوا ہے تو صرف غریب، بوڑھا، عالم دین، بچے اور عورتیں۔
برصغیر کے مسلمانوں نے پاکستان حاصل کرنے کی کیا قیمت ادا کی ہے؟ برصغیر کی تقسیم کے نتیجے میں کروڑوں مسلمان بے گھر ہوئے۔ 15 لاکھ مسلمان قتل ہوئے۔ تقریباََ 90 ہزار مسلمان عورتیں بے آبرو ہوئیں۔ مشرقی پنجاب میں کئی مقامات پرجوان عورتوں کے سامنے ان کے بھائی، باپ، شوہر اور بچے قتل کئے گئے اور اس کے فوراََ بعد ان کی اجتماعی آبرو ریزی کی گئی۔ (بحوالہ کتاب: تو صاحب منزل ہے کہ بھٹکا ہوا راہی) صفحہ45۔)
سوال یہ ہے کہ کیا ہماری قیادت کو اندازہ تھا کہ مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کے ساتھ یہ سب ہوگا؟ اگر اندازہ نہیں تھا تو اس سے زیادہ بے بصیرت قیادت ہو ہی نہیں سکتی تھی اور اگر اندازہ تھا تو اس نے مسلمانوں کو اس آفت سے بچانے کے لئے کوئی تدبیر کیوں نہ کی؟ ایسی صورت میں تسلیم کرنا پڑے گا اس سے زیادہ نا اہل، خود غرض ار بے حمیت قیادت کوئی ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ پاکستان کے لئے جو قیمت ادا کی گئی ہے، اس قیمت پر اگر پورا کرۃ ارض بھی پاکستان بن رہا ہوتا تو ایک غیرت منگ مسلمان اسے قبول نہیں کر سکتا تھا۔ کاش اس قیادت کو کٹہرے میں کھڑا کر کے پوچھاجاتا۔
کیا یہی شاہکار ہے تیرے ہنر کا
برصغیر کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے1947 میں ہی یہ پیش گوئی کر دی تھی کہ مشرقی اور مغربی پاکستان زیادہ سے زیادہ 25 سال اکٹھے رہ سکیں گے۔ جبکہ ہم نے 25بھی پورے نہیں ہونے دئے اور 1971 میں ایک بد ترین شکست کے بعد مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا۔ باتیں اور حقائق بہت ہیں لیکن یہاں ہم کھل کر بتا نہیں سکتے وجہ آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی۔
اسی لئے حقیقت جان کر جئیں اور کسی کو بھی پاکستان کا وارث سمجھ کر غلطی نا کریں کیونکہ یہ ہم سب کا ملک ہے۔ ہم سب اس کے باشندے ہیں۔ جنھوں نے ہمارے لئے قربانیاں دیں ہیں ان کو خراج تحسین پیش کریں۔ پاکستا ن کسی ایک خاندان اور کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہے یہ ہم سب کا ملک ہے۔ یقین کریں جن کو ہم اس ملک کے رکھوالے اور خیر خواہ سمجھتے ہیں اللہ نہ کرے اگر ایسی صورت حال آجائے تو سب سے پہلے یہ لوگ ہمیں اکیلا تن وتنہا چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ بیرون ممالک میں ان سانپوں نے ہمارا پیسہ لے کر خود کو settleکر دیا ہے۔ نہ ہماری فکر ہے کسی کو اور نا ہی اس ملک کا۔ اس ملک کو آزاد کرانے میں کسی بھی بڑے سیاست دان یا بڑی شخصیت کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ آج جو یہ سرمایہ دار بڑی بڑی حویلیوں میں بیٹھے ہیں یہ وہ نہیں ہیں جنھوں نے قربانی دی ہیں بلکہ یہ سب وہ حرام خور ہیں جنھوں نے انگریزوں سے وفاداری کرے مسلمانوں اور ہندوءو ں کو قربانی کی بھینٹ چڑھایا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے انگریزوں کے تلوے چاٹ کر یہ بڑی بڑی حویلیاں اور جائیدادیں حاصل کیں ہیں۔
سلام پیش کرتا ہوں ان گمنام اور عظیم عام لوگون کو جنھوں نے ہماری آزادی اور مستقبل کے لئے خود کو، اپنے اہل و عیال کو قربان کر کے ہمارے لئے خود کو قربان کر دیا ہے۔بقول شاعر
ہم نے خیرات میں یہ پھول نہیں پائے ہیں
خونِ دل صَرف کیا ہے تو بہار آئی ہے