Pakistan Fahashi Ki Raah Par Gamzan
پاکستان فحاشی کی راہ پر گامزن
ہمارے ملک میں فحاشی اور بے راہ روی کو جس طرح گزشتہ چند برسوں میں عروج اور پذیرائی ملی ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ اب ہمارے اقدار کی پاسبانی کرنے کے لئے عمر رسیدہ افراد سے لے کر نوجوانوں تک میں سے کوئی تیار نہیں۔ اس سلسلے میں ایک علمی جائزہ لینا ضروی ہے، تا کہ آنے والے وقت میں ہ میں در پیش مسائل کا احاطہ کیا جا سکے اور ساتھ ہی درست سمت کا تعین بھی۔ آپ سوشل میڈیا فلیٹ فارم کا جائزہ لیں، مثلاََ: فیس بک یا ٹک ٹاک تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایک ہی وقت میں صارف کو دینی، فحش اور بے وقعت تفریح کا سامان مہیا کیا جارہا ہے۔
بات پاکستانی ڈراموں کی کریں تو ایک کردار، ایک ڈرامے میں خدا کی تلاش میں دنیا بھلائے بیٹھا ہے، تو دوسری جانب اپنی سالی سے عشق فرما رہا ہے۔ ریپ کے واقعات تو اس قدر عام ہوگئے ہیں کہ لگتا ہے ہمارے یہاں کوئی عورت یا بچہ محفوظ نہیں۔ شادی کے بعد تو ایک دو محبوب رکھنا بھی اب عام بات بن چکی ہے۔ بند کمروں میں شراب نوشی اور عریانی کی محافل بھی بہت حد تک بڑھ چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس سب کا انجام کیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ سب اس ملک میں ہو رہا ہے جو اسلام کے نام پر بنا ہے۔
اسلام میں پہلے پہل پردے کا حکم نہیں تھا تو مرد و عورت سب مل جل کر رہتے، کھلِ عام گھومتے، چہرے پر نقاب یا حجاب نہیں ہوتا تھا، لیکن جب پردے کا حکم ہوا تو دنیا کی پاکباز عورتوں نے دنیا کے پاک دامن مردوں سے پردہ کیا۔ پردے کا اگر اسلام میں اتنی اہمیٹ نہ ہوتی تو حضرت عائشہ نے حالت ِ نزع میں یہ کیوں کہا تھا کہ" میرا جنازہ رات کی تاریکی میں اٹھا لینا تاکہ نا محرم کی نظر میرے جنازے پر نا لگے" اس کو بھی چھوڑ دیں، یہ سوچیں کہ اگر پردے کا اسلام میں کوئی تاثر نہیں تو اللہ تعالیٰ پردے کا حکم کرتا ہی کیوں . اسی لئے پردہ اسلام میں جائز ہے اور عورتوں پر فرض ہے۔
ہمارے ملک میں آج کل ایک نئی چیز متعارف ہوئی ہے جسے روشن خیالوں نے " عورت آزادی مارچ " کا نام دیا ہے۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں ان مرد و حضرات سے جو اس غلیظ تحریک کا حصہ ہے کہ ان کی کون سی حق تلفی ہوئی ہے؟ ان کو کس نے قید کر کے رکھا ہوا ہے۔اس کے سوا ان کو اور کتنی آزادی چاہیئے کہ وہ ایک اسلامی ملک میں ننگے سر کھلے عام گھوم رہی ہیں اور سڑکوں پر اپنی جسم کا نمائش کرتی پھرتی ہیں، اگر ان خواتین پر گھر کی جانب سے کوئی قید و بند ہوتی تو کیا یہ اتنی جراَت کرکے سڑکوں پر کھلے عام مجرے کرتیں . ہر گز نہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ عورتیں ایسی عورتیں ہیں جن کا یا تو کوئی بھی نہیں ہے اور اگر ہے تو وہ مشرقی رنگ و ثقافت میں ڈھل چکے ہیں اور ان کی نظروں پر بے حیائی اور بے شرمی کی ایسی پٹی باندھی جا چکی ہے جس سے انھیں اپنی عورتوں کے ننگے جسم اور کھلے عام مجرے دکھائی نہیں دیتے۔
عورت مارچ میں نکلی ہوئی عورتوں کا پس منظر کیاہے، کیا آپ لوگ جانتے ہیں ۔ آ ئیں ! پڑھ لیجئے، اگر میں نے غلط لکھا ہو تو پھرمجھ پر مقدمہ چلا سکتے ہیں آپ، لیکن پڑھنے کے بعد سوچئیے گا ضرور۔ عورت آزادی مارچ میں زیادہ تر وہ عورتیں ہیں جو اپنی جسموں کو اس تحریک کے ذریعے دکھانا چاہتی ہیں اور ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ زیادہ تر لوگ ان سے رابطے میں رہ کر ان کو جسمانی تسکین دے سکے۔ یہ عورتیں تو بھری جوانی میں آزادی چاہتی ہیں لیکن جب بڑھاپے کا شکار ہو جاتی ہیں تو یقین جانیئے یہ عورتیں پھر گلی گلی اور گھر گھر جا کر بھیک مانگتی ہیں اور کہتی پھرتی ہیں کہ کاش! اگر وقت پر شادی کر لیتی تو آج شوہر ہوتا یا بیٹا ہوتا تو آج اس بڑھاپے میں سہارا بنتے۔ پھر اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ آزادی چاہتے ہوئے ہم نے اپنی زندگی بربادرکر رکھی ہے۔ لیکن پھر وقت گزر چکا ہوتا ہے اور وقت بڑی ظالم شے ہے ایک بار گزر گیا پھر لوٹ کر دوبارہ نہیں آتا۔
سلطان صلاح الدین ایوبی نے بالکل صحیح فرمایا تھا کہ " اگر کسی ملک کو بغیر ہتھیار اور لڑائی کے شکست دینی ہو تو اس کے جوانوں میں فحاشی پھیلاءو" مغربی تہذیب اور رسم و رواج کا جتنا اثر ہمارے معاشرے پر ہوا ہے شاید کسی اور چیز کا ہوا ہو ہمارے مذہب کا بھی نہیں۔ دو دن پہلے لاہور کی یونیورسٹی کے واقعات تو کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ آج کل اس میں کیا ہو رہا ہے۔ ایک درس گاہ میں ایسی واحیات کا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم کتنے مہذب اور پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ سر عام مجرے، لڑکے لڑکیوں کا ایک دوسرے سے بے خوف چمٹنا، انتہائی باریک لباس پہن کر مارچ کرنا کس مہذب شہری کو زیب دیتا ہے، لیکن ہماری خواتین کو بس باہر نکلنے کا اور اپنی جسموں کی نمائش کرنے کا بہانہ چاہیئے ہوتا ہے۔
ایسی صورت میں اور کچھ نہیں کہا جا سکتا بس جون ایلیا کا ایک شعر یاد آتا ہے کہ:
میری ہر بات بے اثر ہی رہی
نقص ہے کچھ میری بیان میں کیا
خامشی کہہ رہی ہے کان میں کیا
آرہا ہے میرے گمان میں کیا