Mehangai Relief Tiger Force?
مہنگائی ریلیف ٹائیگرفورس؟
کسی جنگل میں ایک لومڑی کی حکمرانی تھی۔ وہ سارا دن جنگل میں ویلی گھومتی پھرتی۔ بادشاہ ہونے کے ناتے جب بھی کوئی جانور اپنی یا جنگل کے بارے میں کوئی بری خبر اس کے پاس لے کر آتا تو وہ یہ کہہ کر اسے رفع کردیتی کہ "تمھیں دکھائی نہیں دیتا میں سارا دن جنگل کے چکر لگا دیتی ہوں میری نظر جنگل کے جانوروں کے ہر فعل و عمل پہ رہتی ہے" تو وہ جانور یہ سن کر مان لیتا کہ یہ تو ٹھیک کہہ رہی ہے سارا دن جنگل میں گھومتی پھرتی ہے۔ جنگل میں جو بھی ہوتا اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی تھی۔ اسے کسی کے مسائل سے کوئی واسطہ نہیں تھا بس اپنی بادشاہی کے دبدبے میں مگن تھی۔ ایک دن جنگل میں خون خوار بھیڑئے داخل ہوئے اور انھوں نے بہت سے جانوروں کو مار ڈالا۔ دوسری طرف سے بندروں نے جنگل پر ہلہ بول دیا اور جنگل کے چین و سکون اور شادابی کو برباد کردیا۔ جب لومڑی کو اس سب کی خبر ہوئی تواس نے جنگل کی رکھوالی کے لئے گیدڑوں کا ایک دستہ تیار کیا اورانھیں یہ ذمہ داری سونپی کہ اگر کوئی جنگل میں بے آرامی پیدا کرے یا کوئی جانور کسی دوسرے جانور کو تنگ کرے تو تم لوگ مجھے بروقت خبردار کرنا تاکہ میں اس کے خلاف فوری طور پر کارروائی کر سکوں۔
وقت گزرتا گیا لیکن سب کچھ ویسے کا ویسا چلتا رہا۔ ادھر گیدڑ جب کسی جانور سے جواب طلبی کرتے تو وہ اس پر جھپٹ لیتے کہ تم کون ہو؟ تمھاری اوقات کیا ہے ہم سے جواب طلبی کرنے کا؟ جب بھی کوئی گیدڑ لومڑی کے پاس شکایت لے کر جا تا کہ جنگل کا کوئی بھی جانور ہماری بات نہیں سنتے، ہمارا مذاق اڑاتے رہتے ہیں تو لومڑی یہ کہہ کر بات کو ٹال دیتی کہ کوئی بات نہیں ایک دن سب ٹھیک ہو جائے گا آپ لوگ بس ہمت نا ہاریں اور پیچھے نا ہٹیں۔ کیا خاک ٹھیک ہوجاتے حالات قربانی جانوروں کی دی جاتی تھی۔ لومڑی اور اس کے رکھوالے تو مزے سے تھے۔ مسائل تھے تو صرف جانوروں کو۔
آخر کار جب لومڑی کو پتہ چلا کہ نا ہی حکمرانی میرے بس کی بات ہے اور نا ہی جنگل کی رکھوالی گیدڑوں کا کام ہے تو اس نے اسی رات بھاگ جانے میں غنیمت سمجھی اور اسی رات جنگل سے بھاگ گئی۔
پاکستان کا نظام آج کل بھی اس طرح کا ہے۔ بڑھتی مہنگائی، بے روز گاری، بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی وغیرہ تو سر چڑھ کر بولتے ہیں۔ ان بد اعمالیوں اور بد فعلیوں کی روک تھام کے بجائے وزراء، وزیر اعظم صاحب اور دیگر سیاسی رہنماؤں کامحض ایک ہی مشغلہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ٹی وی شوز اور سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف کیچڑ اچھالنا اور ایک دوسرے کا مذاق اڑانا۔ آج کا سب سے اہم اور دل دہلا دینے والا مسئلہ جو ہے وہ مہنگائی کا ہے۔ اس دور میں غریب غریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے اور امیروں کے پاس جو بھی جمع پونجی تھی وہ انھوں نے خرچ کر کے ختم کیا ہے۔ مہنگائی دن بہ دن بڑھتی چلی جا رہی ہے اور اشیائے خور و نوش تو عوام کی پہنچ سے کافی دور نکل گیا ہے۔ ایسے میں حکومت کو جو کرنا چاہیئے وہ نہیں کرتے بلکہ اس کا متبادل راستہ ڈھونڈ کر چھٹکارا حاصل کرتے ہیں۔ مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب حکومت بھی اس سے بے زار ہو چکی ہے۔ کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں لیکن نتیجہ صفر نکلتا ہے۔ کمر توڑ مہنگائی نے ہر طرف ہلہ مچایا ہوا ہے۔ وزیر اعظم صاحب تو اتنے جوشیلے ہیں کہ جب بھی کوئی اقدام لینا ہوتا ہے تو وہ بناء سوچ و سمجھ کے اپنا حتمی فیصلہ سناتا ہے۔
حال ہی میں ایک ایسا ہی نا روا فیصلہ سنایا جا چکا ہے۔ تین چار روز قبل جب اپوزیشن نے مہنگائی کے خلاف اپنا نعرہ بلند کیا تو وزیر اعظم صاحب نے اپنا مؤقف پیش کرتے ہوئے اپنا فیصلہ کرونا ریلیف ٹائیگر فورس کے سپرد کردیا۔ کیا ضرورت تھی اس امر کی؟ وزراء کیا کر رہے ہیں؟ متعلقہ ادارے کیا کر رہے ہیں ؟ کیا یہ مناسب ہے کہ اب ٹائیگر فورس گلی گلی جا کر اشیاء کورد و نوش کا جائزہ لیں؟ اس امر کے تو دو مطالب سامنے آتے ہیں۔ ایک یہ کہ حکومت نے ان اشیاء کی قیمتیں واضح کی ہیں لیکن تجار حضرات حکومت کی قیمتوں کو نہیں مانتے اور خود اپنی مرضی کی قیمتیں لگا دیتے ہیں یا دوسرا یہ کہ حکومتی وزراء اتنے نا اہل اور سست و کاہلی کے شکار ہیں کہ انھیں قیمتیں دیکھنے کا وقت ہی نہیں ملتا اور انھیں عوامی مسائل سے کوئی سروکار نہیں۔
سب سے زیادہ قابل غور بات یہ ہے کہ اگر کوئی ٹائیگر فورس کا بندہ کسی ایسے دکاندار کے پاس جاتا ہے اور قیمت معلوم کرتا ہے جس کا تعلق کسی دوسری سیاسی پارٹی سے ہو تو کیا وہ اسے خوش اخلاقی سے بتا دے گا۔ یا اگر ٹائیگر فورس کا ایسا بندہ جو سیاسی تعصب کی بناء پر دوسری پارٹی سے تعلق رکھنے والے دکاندار کے خلاف بار بار کارروائی کرتا ہے۔ ایسے حالات میں پھر کیا ہوگا؟ ہمارا معاشرہ ایک بگڑا ہوا سیاسی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا معاشرہ ہے، جہاں ہم اپنے سیاسی لیڈر کےلئے جو پارلیمینٹ میں اپنے حریف سے گفت و شنید کی حالت میں قہقہے لگاتا ہے اس کےلئے جان دینے سے دریغ نہیں کرتے ایسے معاملات کو خوش اسلوبی سے حل کریں گے۔ ہر گز نہیں۔
اللہ خیر کرے ورنہ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ اب سیاسی جنگ نے چہرہ بدل کر عوام کو آپس میں دست و گریبان کرانے کی منصوبہ بندی کرائی جا چکی ہے۔