Kutton Ki Basti (2)
کتوں کی بستی (2)
جب صبح ہوئی اور سردار اپنی گھاٹی سے نکلا تو دیکھا کہ سب کتے اس کے انتظار میں کھڑے تھے۔ اس نے ایک نگاہ سب پہ ڈالی اور پھر ان بڑے کتوں کی طرف دیکھا۔ وہ اپنی گھاٹی سے نیچے آیا اور کتوں کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ ایک بڑا کتا آگے آیا اور سب کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہنے لگا کہ کل کے حادثے کو دیکھ کر ہم نے ایک نیا منصوبہ بنایا ہے ہم یہاں قانون بنائیں گے جس کے تحت ہر کسی کو یہاں رہنا ہوگا۔ اس قوانین کی اطلاق کے لئے اور ان کو بروئے کار لانے کے لئے سردار صاحب آپ لوگوں سے کچھ کہیں گے اور ان قوانین کے بارے میں تم سب کو بتائے گا۔ اس کے بعد وہ کتا ایک طرف کھڑا ہوگیا اور سردار آگے کو آیا۔
سردار نے ایک بار پھر سب پہ نگا ڈالنی چاہی تو اس نے دیکھا کہ سب سے پہلی قطار میں سب سے آگے وہی کل والے متاثرہ بچے(puppies) اور ان کی ماں کھڑی تھی۔ سردار کو اندازہ ہوگیا کہ قانون بنانے اور اس کی اطلاق کرنے میں پہل ہمیشہ وہ لوگ کرتے ہیں جو متاثر ہوئے ہوں۔ اسی طرح آزادی میں بھی وہی لوگ شامل ہوتے ہیں اور قربانی دیتے ہیں جسے غلامی نے جھنجھوڑ دیا ہو۔ سردار نے قوانین کے بارے میں بتاتے ہوئے اور ان سب کو قانون کے بارے سمجھانے کے لئے اپنی تقریر کا آغاز کیا۔
ساتھیوں! کل آپ سب نے دیکھا کہ کالے نے ان یتیم بچوں پر ظالمانہ حملہ کیا وہ ان کو موت کے گھاٹ اتار دیتا اگر صحیح وقت پر میں نہیں پہنچتا۔ اسی طرح سردار نے تمام قتل و غارت، چوری ڈکیتی، غیر قانونی کاموں کے بارے میں سب کو سمجھایا اور بتایا کہ آج ہم کچھ قوانین اور اداروں کی اجراء کریں گے۔ سب سے پہلے ہم پولیس کا محکمہ بنائیں گے۔ پولیس کا کام یہ ہوگا کہ وہ معاشرے میں چوری ڈکیتی اور بے امنی کو ختم کرےگا۔ دوسرا ہم عدلیہ بنائیں گے۔ عدالت میں جج بیٹھے گا جج کا کام ہوگا کہ وہ عوام کے بیچ انصاف کے فیصلے کریگا۔ پولیس جب کسی ملزم کو پکڑے گا تو وہ عدالت کو لے جائیگا عدالت میں بیٹھا شخص یعنی جج اس کے خلاف فیصلہ سنائے گا جسے سب کو خوش دلی سے ماننا پڑے گا۔
سردار نے باری باری تمام قوانین کو سنا یا پھر سب کی طرف متوجہ ہو کر بلند آواز پوچھا کہ اگر کسی کو اعتراض ہو تو وہ ہاتھ کھڑا کر سکتا ہے۔ کسی کو کوئی اعتراض نہ تھا۔ سب بہت خوش ہوئے اور خاص کر وہ کتے بہت زیادہ خوش تھے جو بے بس، لاچار اور کمزور تھے۔ سردار نے ایک نظر کالے کتے پر ڈالی جو ایک طرف کھڑا سردار کو غصے سے گھور رہا تھا۔ سردار نے بھاشن ختم کی تو سب کتے اپنی اپنی ٹھکانوں کی طرف چلے گئے۔ سردار کچھ دیر وہیں پر ساکت کھڑا کچھ سوچ رہا تھا لیکن جلد ہی اس نے سر اٹھا کر ایک لمبی آہ بھری اور اپنی گھاٹی کی طرف روانہ ہوئے۔
وقت گزرتا گیا۔ سرداربسترِ مرگ پہ پڑا اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا۔ سب کتے اس کے گرد جمع تھے کوئی رورہا تھا تو کوئی پریشان تھا۔ سردار نے سب کو اپنی طرف متوجہ کر کے کہا کہ "آج تک میں نے آپ لوگوں کے لئے جو کیا اس کا بدلہ کبھی نہیں مانگا اور نا ہی آپ لوگوں پر کوئی آنچ آنے دی ہے۔ میرا مقصد صرف یہ تھا کہ ہم لوگ آزادی اور بناء کسی خوف کے آرام سے زندگی بسر کریں، مجھ سے جو بنتا تھا میں نے کیا اب آگے آپ لوگوں کا کام ہے کہ کس طرح زندگی گزارنی ہے تم لوگوں کو۔ مجھ سے وعدہ کو کہ تم لوگ کبھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں بنوگے۔ کبھی ایک دوسرے پر ظلم نہیں کروگے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میرے بنائے ہوئے قانون کی کبھی خلاف ورزی نہیں کروگے"۔
سب نے یک زبان ہو کر سردار کی بات سے اتفاق کا اظہار کیا۔ وہ سب آپس میں چہ میگوئیاں کر رہے تھے کہ اچانک ایک آواز ابھری "سردار چلے گئے، سردار چلے گئے" اس آواز نے سب اپنی طرف متوجہ کیا۔ سب نے اس کی طرف دیکھا۔ کچھ دیر بستی میں ساکت طاری چھائی رہی پھر ہر طرف سے چیخ پکار اور واویلے شروع ہوگئے۔ ہر طرف غم کا سماں تھا کوئی رورہا تھا تو کوئی اپنی جگہ پر دم سادھے بیٹھا سب کو حیرانگی سے دیکھ رہا تھا۔ سردار کی موت نے ایسا ماحول برپا کر رکھا تھا کہ گو قیامت ہو۔ ہر طرف گہما گہمی!
سردار کو دفنائے ہوئے آج دوسرا دن تھا لیکن کسی کے دل سے سردار کا غم نہیں نکل رہا تھا۔ ہر سو ماتم کا سماں تھا۔ کتے سوگ منا رہے تھے۔ ہر طرف خاموشی تھی۔ اور ہوتی بھی کیوں نہ۔ کیونکہ وہ سردار اصلی معنوں میں سردار تھا۔ اس نے اپنی پوری زندگی ان لوگوں کےلئے قربان کی تھی۔ اپنی زندگی کی پرواہ کئے بغیر اس نے کتوں کے لئے جنگل کے جانوروں سے بغاوت کی تھی۔ وہ اصل معنوں میں ایک لیڈر تھا۔ اس نے ان لوگوں کو آزادی دی تھی۔ ان کو پُر سکون ماحول دیا تھا۔ ان کی تحفظ کےلئے قانون بنائے تھے۔ آج وہ کتوں کے لئے صرف اپنی وصیت اور قانون چھوڑ کے گیا تھا۔
ہونے کو کون ٹال سکتا ہے؟ اس کے ساتھ جو ہوا کل وہ ہمارے ساتھ بھی ہوگا۔ سب کو ایک دن مرنا ہے۔ فرق صرف اتنا ہوگا کہ وہ تم سب کی نظروں میں ہیرو بن کے رہا تھا اور مرا ہے اور میں ایک وِلن بن کے رہوں گا اور مروں گا۔ یہ اس کالے کتے کی آواز تھی جس میں غصّہ تھا۔ سب کتے اس کی طرف دیکھنے لگے وہ اس گھاٹی پر کھڑا تھا جہاں سردار رہا کرتا تھا۔ آج اس کی جگہ کالے نے لی تھی۔ ایک کتا آگے بڑھا اور کالے سے مخاطب ہو کر بولا "اس جگہ سے نیچے اترو وہ جگہ تمھاری نہیں ہے۔ وہ سردار کی جگہ تھی۔ آج کے بعد وہاں کوئی نہیں جائے گا کیونکہ وہ ایک پاک اور عظیم لیڈر کی جگہ تھی۔ کالے نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ تم لوگون کا لیڈر گیا ہے آج سے یہ جگہ بھی میری ہے اور یہاں کا سردار بھی میں ہی ہوں گا۔ اس اعلان نے سب کو حیران کردیا کیونکہ وہ سب جانتے تھے کہ کالا ایک قبیح کتا ہے وہ سردار جیسا کبھی نہیں ہے۔ ایک طرف سردار کی موت کا سوگ ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ دوسری مصیبت سر پر آن پہنچی۔ کالے کا مقابلہ کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ وہ بہت طاقت ور تھا اسی لئے سب نے اس کا فیصلہ جلدی مان لیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کالے اور بھی مضبوط ہوتا چلا جارہا تھا کیونکہ اس کا مقابلہ کرنے والا یہاں جو تھا وہ خاک میں ملا ہوا تھا اور زندوں میں اس کا مقابلہ کرنے والا کوئی نہ تھا۔ ظالم کی طاقت کا بڑا سبب یہ ہوتا ہے کہ کوئی اس کے خلاف آواز نہیں اٹھا تا اور نا ہی کوئی اس کے خلاف کھڑا ہوتا۔ اگر تمام کتوں کا اتفاق ہوتا تو پہلے ہی روز وہ کالے کو منہ کے بل گراتے لیکن کالے بھی جانتا تھا کہ ان کتوں میں اتفاق نہیں ہے یہ بس ایک دوسرے کی بربادی کو دیکھتے ہیں۔ اور اس کمزوری کو کالے نے اپنا طاقت بنایا تھا۔ سردار کا بنایا ہوا ایک ایک قانون مٹی میں ملتا چلا جا رہا تھا کیونکہ کالے نے پولیس والوں کو ہٹا کر اپنی مرضی کے باہر سے لائے ہوئے کتے رکھے تھے۔
عدالت کے جج کو بر طرف کرکے اپنی مرضی کے جج کو بٹھایا تھا۔ ایک مرتبہ باہر سے آئے ہوئے کتے نے وہاں کی ایک کُتیا سے زبردستی ریپ کیا، جب سارے کتے پولیس کے پاس چلے گئے تو پولیس نے کہا کہ تم سب باہر نکلو مجھے اس کُتیا سے اکیلے میں بیان لینا ہے۔ جب کتے باہر نکلے تو اس پولیس نے اس متاثرہ کُتیا سے بیان لینے کے بہانے اس کے ساتھ بد فعلی کی۔ کتوں کو پتہ چلا تو وہ زبردستی اندر گھس کر کُتیا کی بچی کچی عزت بچا لی اور سیدھا عدالت میں انصاف مانگنے چلے گئے۔ لیکن وہاں بھی ویسا ہی ہوا جہاں تھانے مین پولیس نے جو حرکت کی تھی۔ وہ سب مایوس لوٹ کر واپس آگئے۔ اگلی صبح اس کُتیا کی لاش بیچ چوراہے پر ملی۔ اب وہ کس سے پوچھے!
قانون تب بازار میں کوڑیوں کے دام بکتا ہے جب اس کے رکھوالے خود اس کو کچلتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ پچھلے دنوں ایسے ہی واقعات پاکستان میں رونما ہوئے تھے۔ اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے کیونکہ قانون نافذ کرنے والے خود قانون کو ردی کی ٹوکری میں پھینکتے ہیں۔ جب تک انقلاب نہیں آئے گا ایسا ہی چلتا رہے گا۔ غریب کو قانون اور قانون کے رکھوالے مارتے رہیں گے اور سرمایہ دار قانون کو جیب رکھے گھومتے پھریں گے۔ چھوٹی چھوٹی بچیوں کے ساتھ بد فعلی کی جارہی ہیں۔
آخر کب تک ایسا چلتا رہے گا؟ کب تک ہم اپنی بچیوں کو ان وحشی درندوں سے دور رکھیں گے۔ بہت دیکھ لیا ہم نے قانون کو اور بہت کارکردگی دیکھ لی قانون کے محافظوں کی۔ اٹھو! نکلو! ایک ہو جاءو جب قانون ان کو کچھ نہیں کہتا تو ہ میں کیا کہے گا۔ قانون سرمایہ داروں کےلئے ایک رکیل ہے جو ہر روز ان کے کوٹھوں میں سرِعام ناچتا ہے۔