1.  Home/
  2. Blog/
  3. Nasar Iqbal Azad/
  4. Kutton Ki Basti (1)

Kutton Ki Basti (1)

کتوں کی بستی (1)

کسی دور دراز علاقے میں ایک گاؤں تھا جو بالکل ویران، سنسان اور انسانوں اور حیوانوں سے بالکل خالی تھا۔ گاؤں سے کچھ میل دور ایک گھنا جنگل تھا جس میں ہر قسم کے جانور آباد تھے۔ شیر، ہاتھی، ہرن، زیبرا، جنگلی گھوڑے، جنگلی بیل، کتے، ریچھ حتیٰ کہ ہر قسم کا جانوراس جنگل میں پایا جاتا تھا۔ جب جانور کو بھوک لگتی ہے تو وہ اپنی بھوک مٹانے کےلئے اپنے سے کمزور اور چھوٹے جانور کا شکار کرتا ہے۔

اس جنگل میں بھی کچھ ایسا ہی ماحول تھا۔ جب کسی جانور کو بھوک لگتا تو وہ شکار کی تلاش میں نکلتا اور جب اسے کوئی شکار نہ ملتا تو وہ با آسانی کسی کتے کو اپنا شکار بنا لیتا۔ کیونکہ اس جنگل میں کتوں کی تعداد دوسرے جانوروں سے قدرے زیادہ تھی۔ دن میں تقریباََ چار، پانچ کتے کسی جانور کے شکار ہو جاتے تھے۔ ان کتوں میں ایک ادھیڑ عمر کا کتا تھا جو باقی کتوں سے تھوڑا ہوشیار اور دانا تھا۔ وہ کتوں کی جھنڈ کا سردار تھا۔ وہ ہمیشہ کتوں سے کہتا تھا کہ جنگل میں گھومتے پھرنے کے دوران اپنے آس پاس تھوڑا خیال رکھا کریں کیونکہ جنگل میں ہماری نسل ختم ہونے والی ہے۔ لیکن کتے اس کی بات سنتے ہی کہاں تھے وہ ہمیشہ اپنی من مانی کیا کرتے تھے۔

سردار کتا ایک دن چٹان نما پتھر پر چڑھ کر ایک نظر کتوں پر دوڑائی تو اس نے مشاہدہ کیا کہ آدھے سے زیادہ کتے جانوروں کے شکار ہو چکے ہیں۔ وہ بہت دکھی ہوا اور بہت افسوس کرنے لگا اور کتوں کی بقاء کے لئے بہت فکر مند ہوا۔ دو تین دن اس نے بہت فکر مندی میں گزارے آخر کار اس نے فیصلہ کرتے ہوئے تمام کتوں کو بلایا اور سب سے مخاطب ہوا کہ ہماری تعداد اس جنگل میں باقی تمام جانوروں سے زیادہ تھی لیکن آج ہم مٹھی بھر کے رہ گئے ہیں۔ اگر ہم نے آج کچھ نہیں کیا تو کچھ دن بعد اس جنگل سے ہمارا نام و نشان ختم ہو جائے گا۔ کتے اپنے سردار کی باتیں بڑے آرام اور پوری توجہ سے سن رہے تھے۔ جب سردار نے اپنا بھاشن ختم کیا تو ایک کتا سردار سے مخاطب ہوا کہ آپ نے جو باتیں کہیں وہ تو بجا ہیں لیکن ہم اپنی بقاء کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟

سردار نے اسے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میرے دماغ میں منصوبہ ہے میں پیش کرتا ہوں آپ سب بھی اس کے بارے میں سوچیں۔ سردار نے کہا کہ اس جنگل سے کچھ میل دور ایک گاؤں ہے جو بالکل خالی پڑا ہوا ہے، سنسان اور ویران ہے۔ اس میں نہ کوئی انسان آباد ہے اور نہ کوئی دوسرا مخلوق۔ میں نے سوچا ہے کہ ان جانوروں سے چھٹکارا ہم تب حاصل کر سکتے ہیں جب ہم یہ جنگل چھوڑ کر اس گاؤں میں آباد ہوجائیں گے۔ تمام کتوں نے سردار سے حامی بھر لی۔ سب نے سردار کی ہاں میں ہاں ملائی۔ سردار بہت خوش ہوا سب کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہم ایک دو دن میں یہاں سے جائیں گے اور پھر مڑ کر اس جنگل کی طرف بھی نہیں دیکھیں گے۔

دو دن بعد تمام کتے ٹولیوں کی شکل میں دو دو، تین تین ہو کر جنگل سے نکل گئے۔ سردار کتا سب سے آگے تھا اور باقی کتے اس کے نقشِ قدم پر اس کے پیچھے پیچھے جارہے تھے۔ کئی گھنٹوں کی مسافت طے کرنے کے بعد آخر کار کتے اپنے سردار کی رہنمائی میں گاؤں میں داخل ہوگئے۔ دوپہر کی سخت گرمی تھی۔ کتے تھک گئے تھے۔ کچھ کتوں نے کچھ پوچھے بغیر کسی درخت کے سائے میں لیٹ کر آرام کرنے لگے اور کچھ پتھروں کے سائے میں بیٹھ کر آرام کرنے لگے۔ سردار نے ایک نگاہ سب پہ ڈالی تو ذرا سا مسکرا دئے۔ سردار چڑھ کر ایک اونچی گھاٹی میں بیٹھ گیا۔ سردار نے اپنے لئے ایک اونچی جگہ منتخب کر لی تھی جہاں سے با آسانی نیچے تمام گاؤں کا نظارہ کیا جاسکتا تھا۔ اور ساتھ ساتھ سب پر نظر بھی رکھا جا سکتا تھا۔ سردار نے گھاٹی سے ایک بار پھر نگاہ سب پہ ڈالی اور اپنا سر آگے کے دونوں پیروں پر رکھ کر سو گیا۔

سہ پہر کو سردار کی آنکھ کانوں میں پڑتے ہوئے شور سے کھل گئی۔ اس نے سر اٹھا کر نیچے دیکھا تو سب کتے آپس میں کھیل رہے تھے۔ کچھ دوڑ رہے تھے تو کچھ ایک دوسرے کو زمین پر لٹا کر کھیل رہے تھے۔ سردار ہلکا سا مسکرا کر نیچے گاؤں میں اتر گیا۔ کتے سردار کو دیکھتے ہی خاموش ہوگئے۔ اپنا کھیل کود چھوڑ کر سردار کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ سب خاموش تھے سردار نے ایک نگاہ سب پہ ڈالی اور پھر سب سے مخاطب ہو کر بولا "میرے پیارے ساتھیوں! آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے اور غلامی ایک لعنت ہے۔ کل تک ہم غلام تھے اور آج ہم آزاد ہیں۔ ہم سب اُس جنگل میں پیدا ہوئے۔ کئیوں نے اپنی جوانی اس جنگل میں گزاری اور کئیوں نے بچپن وہیں گزارا۔ کوئی بچپن میں کسی جانور کا شکار ہوا تو کسی نے اپنی جوانی قربان کی۔ آج تک ہم نے ڈرڈر کے زندگی گزاری ہے۔ لیکن آج ہم آزاد ہیں ہ میں کسی چیز کا ڈر نہیں ہے ہم جیسے بھی جینا چاہتے ہیں جی سکتے ہیں لیکن ایک بات کا خیال ہم سب کو رکھنا ہوگا کہ ہمیں اِس گاؤں سے دور نہیں جانا چاہئے۔ آج سے یہ گاؤں ہمارا ہے اور ہم اس گاؤں کے۔

سردار نے پُر جوش تقریر کرتے ہوئے کتوں کو آزادی کی اہمیت بتا دی اور سب کو بتا یا کہ ہم سب اس گاؤں میں اتفاق سے رہیں گے۔ سب کتے پُر جوش انداز میں تقریر سن رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ سردار کی حوصلہ افزائی اور شکریہ بھی ادا کر رہے تھے۔ تقریر ختم ہوئی تو سب اِدھر اُدھر چلے گئے اور سردار بھی اپنی گھاٹی کی طرف چلا گیا۔

دن پہ دن، مہینوں پہ مہینے اور سال پہ سال گزرتے چلے گئے۔ ایک دن سردار کتا بے خبری کے عالم میں سو یا ہوا تھا کہ اچانک شور ہوا، بچاو بچاو سردار کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ ایک کالا بڑا سا کتا ہے جس نے چھوٹے بچوں (puppies) کو اپنے پنجوں میں دبوچا ہوا ہے۔ بچے جان بچانے کی بھیک مانگ رہے ہیں اور کالا کتا اس پر اور بھی اپنا پنجہ مضبوط کر رہا ہے۔ سردار نے دیکھتے ہی ایک لمبی چھلانگ لگا کر سیدھا کالے کتے کے سامنے کھڑا ہوگیا۔

کالے کتے نے اسے دیکھتے ہی اپنا پنجہ بچوں کی گردن پر اور مضبوط کر دیا۔ سردار نے ایک زوردار چھلانگ لگائی اور کالے کتے کو بچوں سے دور پھینک دیا۔ کالا کتاغصے سے بھونکتا ہوا دور جا کر کھڑا ہوگیا۔ سردار نے بچوں کو اٹھا کر ایک طرف رکھا اور جا کر کالے کتے کے سامنے کھڑا ہوگیا اور اس سے پوچھا کہ تم یہ کیا کر رہے تھے؟ وہ بچے تھے اگر اس کی جان چلی جاتی تو کتنا بڑا ظلم ہوتا؟ میں جانتا ہوں کہ اس کے باپ نے تمھیں لوگوں کے سامنے ذلیل کیا تھا لیکن تم بدلہ اس سے لیتے اس میں ان بچوں کا کیا قصور ہے؟

لیکن تم نے بھی تو اچھا نہیں کیا تھا تم نے بھی سرِ راہ ان بچوں کی ماں کو ہاتھ ڈالا تھا۔ آج ان بچوں کا باپ نہیں رہا تو تم اُس کا بدلہ ان معصوموں سے لے رہے ہو۔ تمھارا کوئی ضمیر نہیں ہے؟ کیا تم اب تین بچوں کے باپ نہیں ہو؟ ہم سب کو ان یتیم بچوں کا خیال رکھنا ہوگا۔ تم ان کے محافظ بننے کے بجائے خود ان پر حملہ آور ہو رہے ہو۔ پھر سردار دوسرے کتوں کی طرف منہ کر کے بولا کہ تم بھی عجیب لوگ ہو۔ یہ تو کالیا اپنا ساتھی ہے اور میں بھی وقت پر پہنچ گیا کل کو اگر کوئی باہر سے آکر کسی پر حملہ کرے تو تم لوگ بھی اسی طرح اس کا تماشا کرتے رہوگے۔ سردار نے سب کو خوب سنائی اور پھر دُکھی حالت میں اپنی گھاٹی کی طرف روانہ ہوگئے۔ تمام کتے شرمندگی کی عالم میں ساکت کھڑے تھے۔

شام کو سردار نے ایک میٹنگ بلائی۔ بڑے بڑے کتے اس کے سامنے آکر بیٹھ گئے۔ سردار نے دُکھ بھری آہ بھری اور پھر ان سے مخاطب ہو کر بولے "آج جو ہوا ہے اس کی وجہ سے میرے اندر ایک خوف نے جنم لیا ہے۔ مجھے فکر لاحق ہوگئی ہے کہ ان سب کا کیا ہوگا؟ ہم نے جانوروں سے آزادی اس لئے حاصل کی تھی کہ ہم اور ہمارے بچے اپنی زندگی آرام اور بغیر کسی خوف وخطر کے گزار سکے لیکن آج جو ہوا مجھے صاف نظر آ رہا ہے کہ اس سے بغاوت کی لہر نے جنم لیا ہے۔ ہم، ہم نہ رہیں گے اور نا یہ گاؤں ہمارا رہے گا۔

ہمارا تو وقت ختم ہونے والا ہے زیادہ نہیں جئیں گے لیکن ہمارے بچے کل پھر ذلالت کی زندگی جئیں گے۔ مجھے خوف آنا شروع ہو گیا ہے۔ لیکن میں نے ایک منصوبہ بنایا ہے۔ میں نے سوچا ہے کہ ہم یہاں قانون بنائیں گے۔ جس کے تحت سب کو رہنا ہوگا۔ سب آئے ہوئے کتوں نے یک زبان ہو کر سردار سے پوچھا کہ قانون کیا ہوتا ہے؟ سردار نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا کہ ہم پولیس کا محکمہ بنائیں گے پولیس کا کام ہوتا ہے کہ وہ معاشرے میں امن و امان کو قائم رکھتا ہے۔ بد امنی کو دور کرتا ہے۔ لڑائی جھگڑوں کو ختم کرتا ہے اور آپس میں محبتوں کو جنم دیتاہے۔

اسی طرح سردار نے تمام محکموں کی کارکردگی کو تفصیل سے بیان کیا تو سب بہت خوش ہوئے اور سب نے سردار کی بات سے اتفاق کا اظہار کیا۔ رات گہری ہو چکی تھی سردار نے سب رخصت کیا اور کہا کہ کل صبح سب کتوں کو اکٹھا کرکے ان کو قانون کی نفاذ کے بارے میں بتائیں گے۔ سردار سب کو رخصت کر نے کےلئے گھاٹی سے باہر آیا تو اس کی نظر دور ایک چھوٹے سے گھروندے پر پڑی جس میں کالے کتے کی وار سے بچائے گئے بچے اور ان ماں پریشان اور غمگین بیٹھے ہوئے تھے۔ سردار بہت دیر تک ان کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ یہ کیا ہو گیا ہے آج اگر میں نے فوری طور پر کچھ نہیں کیا تو یہ گاؤں پھر سے ویران ہوجائیگا۔ سوچتے سوچتے سردار گھاٹی میں داخل ہوا لیکن اسے تسلی نہیں ہو رہی تھی وہ بہت پریشان اور غمگین تھا اس کی آنکھوں میں ان بچوں کی حالت بار بار سامنے آرہی تھی اور کانوں میں جان بچانے چیخیں گونج رہی تھیں۔

Check Also

Eid Aur Aabadi Qasba

By Mubashir Aziz