Akhir Kab Tak?
آخر کب تک؟
پورا ایک سال ہونے کو ہے۔ پچھلے رمضان میں باجوہ اینڈ کمپنی نے عمران خان کی حکومت کو ختم کرکے چودہ کرپٹ پارٹیوں کو یکجا کرکے ملک کی تقدیر کا مالک بنا دیا۔
پچھلے رمضان میں اس رمضان کے مقابلے100فی صد ارزانی تھی۔ پچھلے رمضان میں آٹے کی بوری 1500 میں ملتی تھی جبکہ اس رمضان 3000 کی مل رہی ہے۔ صرف آٹا ہی نہیں چینی، دالیں، گھی ایک غریب انسان کی بنیادی ضرورت اور روز مرّہ استعمال کی جو جو چیز ہے اس میں آئے روز بے تحاشا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جینا محال ہو چکا ہے، امیر اور مالدار لوگ تو بیرون ممالک جانے لگے ہیں، لیکن ایک غریب اور سفید پوش طبقے کے لوگ کہاں جائیں گے؟ وہ کس سے مدد مانگیں گے؟ اس ملک میں عوام کو بنیادی اور ضروری اشیا کے پیچھے اس قدر لگا دیا گیا ہے کہ وہ ان چوروں اچکوں کے پیچھے جانے سے بھی کترانے لگے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اگر میں نے اس کے خلاف کچھ کہا تومجھ پر میرا رزق بند ہو جائے گا۔
یہ لوگ خدا بنے ہوئے ہیں۔ اگر یقین نہیں آتا تو جاکر مفت آٹے کی تقسیم کی جگہ پر دیکھیں، آپ کو پتہ لگ جائے گا کہ یہ سچ میں خود کو خدا بنائے ہوئے ہیں۔ اب یہ جمہوری ملک ہے اس میں سینکڑوں سیاسی پارٹیاں ہوں گی اور ہر کسی کا کسی نہ کسی پارٹی سے تعلق تو ہوگا ہی۔ لیکن آٹا تو مسلم لیگ نواز گروپ نے تقسیم کرنا ہوتا ہے تو وہ سب سے پہلے اپنی پارٹی کے لوگوں میں تقسیم کرے گا خواہ وہ امیر ہو یا غریب، باقی لوگ مرے جئے یا بھوک سے بلبلائے ہمیں کیا، ہمیں تو ووٹ کی خاطر رزق دینا ہے، سو ہم وہ خدا ہیں جو ووٹ کے بدلے رزق دیتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے لوگ کہا کرتے تھے کہ شکر ہے اللہ پاک نے ان درندوں کے ہاتھوں میں بندوں کا رزق نہیں دیا ہے ورنہ یہ تو ہمیں زندہ مار دیتے۔ آج کل ہر گلی چوراہے پر یہی ہوتا ہے۔ ایک شہری کو اس کا رزق صحیح طریقے سے نہیں مل رہا ہے۔ رزق بانٹنے میں بھی اقربا پروری۔ ہم کیسے لوگ ہیں یار؟ کیا ہم بھی یہی امید رکھتے ہیں کہ ہم بھی خدا کے سامنے پیش ہوں گے۔ خدا بھی ہمیں اپنے سامنے کھڑا کرنے کی اجازت دے گا؟ مجھے تو قطعی نہیں لگتا کہ خدا ہم سے حساب کتاب بھی مانگے گا۔
اتنی گری اور نیچ ذات کے لوگ مسلط کئے گئے ہیں ہم پر کہ ایک عام شہری کو آٹا جیسی بنیادی اور ضروری چیز آسانی سے دستیاب نہیں۔ لوگ لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں، اور ایک دوسرے کو گریبانوں سے پکڑ کر مارت پیٹتے بھی ہیں۔ کیا حال ہوگیا ہے اس ملک کا اور آگے کیا ہوگا؟
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں جو بھی بندہ رجسٹرڈ ہوگا مفت آٹا صرف اسی کو ملے گا یعنی پاکستان میں صرف وہی لوگ مفت آٹے کے حق دار ہیں جو بے نظیر انکم سپورٹ میں رجسرڈ ہیں۔ اس کا مطلب ہوا کہ قائم علی شاہ کی بیٹی نفیسہ شاہ بھی ایک غریب خاتون ہے کیوں کہ وہ بھی بے نظیر انکم سپورٹ میں رجسٹرڈ ہے اور لگا تار کئی سالوں سے ماہانہ پانچ ہزار روپیہ لیتی رہی ہے۔ یہاں جو بھی چیز غریب کے لئے آئی ہے سب سے پہلے امیر لوگ اس پر ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔
عوام بھی اسی اقربا پروری کے لائق ہے کیوں کہ یہ عوام صبح سویرے نکل کر دس کلو آٹے کی حصول کے لئے گھنٹوں قطاروں میں کھڑا ہو سکتی ہے، پیسے نہ ہونے کی وجہ سے خود کو اور اپنے بچوں کو زہر دے سکتے ہیں، کسی دو ٹکّے کے کونسلر یا ایم پی اے، ایم این اے کے لئے سینکڑوں کلو میٹر فاصلہ طے کرکے زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگا سکتی ہیں لیکن اپنا حق مانگنے کبھی نہیں نکل سکتی۔ بکے ہوئے ہیں، لٹے ہوئے ہیں اور مختلف گروپوں میں بٹے ہوئے ہیں۔
چودہ پارٹییوں سمیت میڈیا کسی کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے کہ اس بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کیسے روکا جائے۔ کسی دفتر کے درجہ چہارم ملازم سے لے کر اعلیٰ افسر تک سب اس عمل میں مصروف ہیں کہ کیسے ایک دوسرے سے زیادہ کرپشن کی جائے اور ایک کے پاس دوسرے سے زیادہ پیسہ آجائے۔ کسی کو غریب، مفلس، لاچار اور نادار لوگوں کی پروا نہیں سب اپنی اپنی جیبیں بھروانے میں لگے ہوئے ہیں۔ کچھ دن پہلے پاکستان کی ایک سنگر محترمہ حدیقہ کیانی نے بلوچستان میں سیلاب زدگان کے لئے 100 مکانات بناء کسی لالچ اور ووٹ کے بنا دئے۔ اور جو ان لوگوں سے ووٹ مانگنے جاتے ہیں وہ حدیقہ کیانی کو صرف سلام پیش کرتے ہیں حقیقت میں اس سے شرم لے کر کچھ نہیں کرتے۔ کیا کہا جائے ایسے لوگوں سے۔
آخر کب تک ایسا چلتا رہے گا؟ کب تک ہم اپنے حقوق کے لئے لڑتے رہیں گے؟ کب تک ہمیں ایسے جینا پڑے گا؟ کب تک ہم یہ ظلم سہتے رہیں گے؟ کب تک ہم اپنے بچوں کو اپنے سامنے مرتا دیکھتے رہیں گے؟ ہے کسی کے پاس جواب؟ اگر نہیں ہے تو اٹھو، اپنا حق مانگو اور ظلم کو سرے سے ختم کرکے امن اور انصاف کا نظام قائم کرو۔