Youpyai Tola Aur Mullaism
یو پیائی ٹولہ اور مُلا ازم
چیف جسٹس آف پاکستان جناب قاضی فائز عیسیٰ کو تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے نائب امیر ظہیر الحسن شاہ کی دھمکی نے پاکستان میں ایک مرتبہ پھر خوف کی فضا کو پیدا کر دیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس دھمکی کو ہرگز "پھسلی زبان" گردان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے بلکہ حکومت اور خود عدلیہ کو اس دھمکی کو جان و مال کا معاملہ سمجھتے ہوئے سنجیدگی سے لینا چاہیے اور ہنگامی بنیادوں پر تمام تر ضروری اقدامات کو بروئے عمل میں لانا چاہیے۔ حکومت اور چیف جسٹس کو وسیع پیمانے پر اس دھمکی کی تحقیقات کرنی چاہیئں اور حکومتی ارکان اور چیف جسٹس کی سیکورٹی کا ازسرِ نو باریک بینی سے جائزہ لینا چاہیے۔ سلمان تاثیر بھی ایسی ہی دھمکی کی لپیٹ میں آ کر اپنی جان گنوا بیٹھے تھے۔
یورپ میں کلیسا اور ریاست کے مابین جو جنگ عرصہ دراز جاری رہی اور جسے سیاہ دور کے نام سے جاناجاتا ہے، بالآخر یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد یہ سیاہ دور ختم ہوا۔ یہ صرف اس لیے ختم ہوا کہ مذہب کو سیاست و ریاست سے الگ کر دیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج سیاہ دور، پاکستان میں جڑیں مضبوط کر چکا ہے۔ آئے روز مسجد و ریاست کے درمیان تنازعے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
مذہبی سیاسی جماعتیں اپنے مطالبات پر مذہبی لبادہ اوڑھ کر لوگوں کے جذبات کو ماچس دکھا کر اپنے مذموم عزائم میں کامیابی حاصل کر رہی ہیں۔ ان کے ڈانڈے قیام پاکستان کے وقت ہی پھوٹ پڑے تھے مگر ضیاء الحق کے دورِ آمریت میں یہ ڈائنو سار کا روپ دھار گئے۔ ایم کیو ایم اور مُلا ازم دونوں ایک ہی وقت میں ضیاء الحق کے دور آمریت میں پنپیں، پروان چڑھیں اور پاکستان کو لسانی اور مذہبی انتہا پسندی کی تیسی پر پہنچا دیا۔ ضیاء نے اپنی کرسی کی درازی عمر کے لیے ملک کو مذہبی انتہا پسندی کی دلدل میں جھونک دیا۔ کسی بھی حکومت نے اس بارے کبھی کوئی ٹھوس لائحہ عمل اختیار نہیں کیا کہ کیسے مذہب کو ریاست سے الگ کیا جائے، کیسے پاپائیت کے زمانے کو دوبارہ سر اٹھانے سے باز رکھا جائے۔
موجودہ پاکستان، جناح کا پاکستان قطعاََ نہیں رہا۔ قائداعظم نے پاکستان ان جہادیوں کے لیے نہیں بنا یا تھا بلکہ مسلمانوں کی معاشی اور معاشرتی زندگی کو ہندو بنیے کی غلامی سے آزادی کے لیے بنایا تھا۔ قائد اعظم نے گیارہ اگست سن اُنیس سو سینتالیس کو پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا "تمہارا مذہب، تمہاری ذات، تمہارا عقیدہ، کچھ بھی ہو، کاروبارِ مملکت کا اس سے کوئی تعلق نہیں"۔
حکیم دیو جانس کلبی ایتھنز میں دن کے وقت چراغ لے کر گھوم رہا تھا۔ ایک شخص نے پوچھا کہ آپ کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟ حکیم نے جواب دیا میں انسان کی تلاش میں ہوں کیونکہ مجھے اس شہر میں جو لوگ نظر آ رہے ہیں وہ آدمیت کے لباس میں درندے ہیں۔ حکیم کا یہ جواب سُن کر شخص نے سختی سے کہا کہ آپ خدا کے کاموں میں مداخلت کر رہے ہیں۔ خدا نے تو انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور آپ خدا کے بندوں کو درندے کہہ رہے ہیں حالانکہ یہ درندے نہیں ہیں بلکہ صرف ان کی مذہبی صفائی ہوئی ہے۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ یہاں کے حقیقی باشندوں، پنجابیوں، سندھیوں، بلوچوں، پٹھانوں، ان کے رہن سہن، ثقافت، زبان، لباس، بول چال، میلوں ٹھیلوں، پیشوں کو محکوم رکھنے کے لیے غیر پاکستانیوں"یو پیائی ٹولہ" نے بذریعہ اپنی بیوروکریسی، میڈیا، نصاب، لٹریچر، ڈرامے، فلموں۔۔ کے ذریعے مذہبی اور لسانی اجارہ داری سے لیس پیٹریاٹ میزائل داغ کر معاشرہ کی مذہبی کلیننگ کر دی ہے تاکہ اس ٹولے کا کلچر یہاں پر پنپ سکے کہ اس ٹولے کا کلچر یکسر مختلف تھا ماسوائے مذہب کے۔ یہی وجہ تھی کہ قیام پاکستان کے وقت جائیدادوں کی بندربانٹ میں گھپلے مارے گئے اور یہاں کے حقیقی باشندوں کو ان کی متحدہ ہندوستان میں حقیقی جائیداد کی نسبت برائے نام جائیداد و زرعی زمین الاٹ کی گئی اوروہ بھی بہت سے دھکے کھانے کے بعد۔ گویا اس غیر قانونی یو پیائی ٹولے نے پاکستان پر قبضہ بذریعہ اسلام کے نام پر کیا!
مولانا محمد حنیف ندوی ایک جگہ لکھتے ہیں"اسلام پر نظریہ کے اعتبار سے اور تاریخی اعتبار سے تھیو کریسی یا پاپائیت کا سایہ کبھی نہیں پڑا۔ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ علماء و فقہاء نے بحثیت جماعت کے کبھی سیاسی اقتدار کی خواہش کی ہو۔ اسلام میں مذہبی اجارہ داری کی کوئی گنجائش نہیں"۔ اسلام میں مذہبی اجارہ داری کا تصور نہیں تو پھر یہاں پر کون سا اسلام یہ ملا ازم روشناس کروا رہے ہیں؟ ان پر بند کیوں نہیں باندھا جاتا؟
جواب صرف نیک نیتی کی کمی اور ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر مقدم جاننا ہے۔ کوئی سیاسی جماعت اس بارے سنجیدہ نہیں ہے بلکہ سیاسی جماعتوں نے ہی ملا ازم کو ڈھیل دی ہے۔ یہی سیاسی جماعتیں مذہب کارڈ کھیل کر ووٹ لیتی ہیں۔ اسلامی جمہوری اتحاد سے ابتدا اگر ہو تو انتہا کیسے افلاطونی اتحاد پر منتج ہو سکتی ہے؟ پارلمینٹ خود پاسپورٹ میں مذہب کے خانے کومنظور کرے، نظریہ پاکستان پر سوالیہ نشان ڈالنے والوں کو غدار کہا جائے، آئین میں مذہبی اجارہ داری ہو جس کے تحت کوئی اقلیتی امیدوار چاہے سو بار میرٹ پر بھی پورا اترتا ہو، اسے نہ صدرات کا حق ہو نہ وزیر اعظم بننے کا حق ہو۔ جبکہ دوسرے پاسے بال ٹھاکرے اور شیو سینا کے ملک ہندوستان میں مسلمان سائنس دان عبد الکلام پانچ سال تک صدرات پر فائز رہے ہوں، تو ایسے میں مُلا ازم پنپنے گا نہیں تو کیا جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گا؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایمرجنسی صورتحال سمجھ کر مذہبی پریشر گروپوں کو جڑوں سے اکھاڑنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ سیاسی و نظریاتی مفاد کو کھڈے لین رکھ کر صرف پاکستان کی فلاح و بہبود اور منطق پسندی کی تبلیغ و اشاعت کے لیے مذہب کو مسجدوں میں واپس دھکیلا جائے اور پارلیمنٹ میں عوام کو معاشی و ثقافتی اور معاشرتی سکون مہیا کرنے کے لیے سیاستدان سر جوڑ کر بیٹھیں۔ اگر پریشر گروپوں کو آہنی ہاتھوں سے نہ نمٹا گیا تو کوئی عجب نہیں کہ جلد یا بدیر نہ ہم ہوں گے نہ ہماری داستاں ہوگی۔
آنکھ بنجر سہی دل بھی سہی پتھر لیکن
ان چٹانوں میں کہیں کوئی تو رَستہ ہوگا