Ulta Sinfi Kirdar
اُلٹا صنفی کردار
جب ایک عورت بطور مرد کے اور مرد بطور عورت کے فرائض سرانجام دینا شروع کرے تو اسے معکوس یا اُلٹا صنفی کردار کہا جاتا ہے جبکہ انگریزی میں اس کے لیے جینڈر ریورس رول (Gender Reverse Role) اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ دیگر الفاظ میں رول ریورس ایک ایسی صورتحال کا نام ہے جس میں دو افراد اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو تبدیل کرنے کے لیے متنخب کرتے ہیں۔
آج کا ہمارا موضوع یہی ہے کہ اگر پاکستانی عورت گھر سے باہرکے فرائض انجام دے جبکہ مرد چار دیواری کے اندر کے فرائض سر انجام دے تو معاشرہ میں کیا گُل کِھلیں گے؟ معاشرہ میں کیا تبدیلیاں متوقع ہوں گی؟ روایتی اور و دقیانسوی معاشرہ کس کروٹ بیٹھے گا؟ مردو عورت پر کون سے نفسیاتی اثرات مرتب ہوں گے؟ ملک کی مجموعی صورتحال میں کیا تبدیلی ہوگی؟ اور کیا پاکستان میں جینڈر یورس رول ممکن بھی ہے یا نہیں؟
پاکستان میں مرد کو کمانے والا، فیصلہ ساز، مضبوط اور بہادر گردانا جاتا ہے۔ جبکہ عورت کو گھریلو ذمہ داریوں، بچوں کی دیکھ بھال، ساس، سُسر اور گھر کے دیگر افراد کی خدمتگار اور ہانڈی روٹی کرنے والی تصور کیا جاتا ہے۔ گھر سے باہر نکلنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے اور اسے پَر پُرزے نکلنے سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ اسی طرح تعلیم میں مرد کوکسی بھی موضوع کا انتخاب کرنے کی آزادی ہوتی ہے جبکہ لڑکیوں کو زیادہ تر وہی تعلیم دینے کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے جس سے وہ مستقبل کی ایک اچھی، تابع دار، فرماں دار، خاموش، خدمت گزار، سُگھڑ، اپنی خواہش کو، اپنی ضرورت کو گھر کے دوسرے افراد کی خواہشوں پر قربان کرنے والی، جی حضوری کرنے والی اور تمیز دار بہو، بیوی اور ماں بن سکے۔ مختصر الفاظ میں ڈپٹی نذیر احمد کا کردار "اصغری" بن سکے۔
پاکستان کا آئین بغیر کسی صنفی تقسیم کے تمام شہریوں، مرد و زن کو ایک جیسے حقوق دیتا ہے۔ جبکہ حقیقتاً آج تک خواتین کو اُن کے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ حقوق کی محرومی کو کبھی روایات کا چوغا پہناکر دبا دیاجاتا ہے اور کبھی تھیوکریسی کے ملمع تلے دھنسا دیا جاتا ہے۔ کبھی مغربیت و مشرقیت کا موازنہ کرکے خواتین کو چار دیواری میں قید رکھا جاتا ہے اور کبھی مرد کی غیرت عورت کے حقوق میں روڑے اٹکاتی ہے۔ کبھی پردے کی آڑ میں اور کبھی عورت کی آدھی گواہی اور مرد کی پوری گواہی کو گھسیٹ کر عورتوں کو آج اکیسیویں صدی میں بھی گھر میں نظر بند رکھ کر غلامی کی زندگی بسر کرنے پر راضی رکھا جا رہا ہے۔ اس عدم مساوات کی بنیادی وجہ صنفی تقسیم ہے۔
عورت کو حکومتی اور معاشرتی سطح پر کبھی بھی ایک شہری تسلیم نہیں کیا گیا بلکہ آدھی گواہی کی مانند نصف شہری سمجھا گیا ہے۔ ہمارے معاشرہ میں صنف نازک کو محض بچے پیدا کرنے والی مشین، بچوں، خاوند، ساس، سسر اور گھر میں رہنے والے دیگر افراد کی خدمت کرنے، ان کا خیال رکھنے اور اور انہیں خوش رکھنے والی آیا سمجھا جاتا ہے۔ اگر عورت یہ سب نہ کرے تو اُسے بازاری، فاحشہ، بدتمیز، جھگڑالو اور بدزبان کے طعنے مہنے سُننے کوملتے ہیں۔
ہماری دانست میں عورت کو نصف شہری بنانے میں نظام تعلیم، میڈیا اور سول بیوروکریسی نے اپنا نمایاں حصہ ڈالا ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد کی کہانیوں میں اکبری اور اصغری جیسے کردار، مولانا اشرف علی تھانوی کا بہشتی زیور، اکبر الہٰ آبادی کی شاعری اور سرسید احمد خان کی لڑکیوں کی تعلیم بارے دقیانسوی نظریہ کہ لڑکیوں کے لیے صرف امور خانہ داری اور گھر گرہستی کی تعلیم کافی ہے، سے لبریز نصاب پر مشتمل تعلیم نے لڑکیوں سے اپنے حقوق کا شعور ہی چھین لیا ہے اور ایسے نصاب کا مقصد بھی یہی ہے۔
ذرا تصور کریں کہ مارکیٹوں، صنعتوں، بینکوں، سرکاری اور نجی دفاتر، ہسپتالوں، قومی اور صوبائی اسمبلیوں، نیوز چینلز، پولیس، ٹریفک پولیس، ڈولفن سکواڈ، ایمبولینسیں، ریسکیو ون ون ٹو ٹو، قانون نافذ کرنے والے اداروں، ٹرانسپورٹ، تعلیمی اداروں، ٹریفک پولیس، پبلک ٹرانسپورٹ (رکشہ، ٹیکسی، بسیں، چنگ چی، ریل گاڑیاں، بائیکیا، ینگو، کریم، اوبر)، سبزی اور فروٹ کی دکانوں، ریڑھیوں، ٹھیلوں، بازاروں، کھیتوں کھلیانوں، باغوں۔۔ ہر جگہ عورت کام اور گھر کی مالی ضروریات پوری کرنے کی ذمہ داری اٹھائے۔ جبکہ دوسری طرف مرد گھر کی چار دیواری کے فرائض سر انجام دے، بچوں کی دیکھ بھال کرے، ہانڈی روٹی تیار کرے، برتن دھوئے مانجھے، گھر میں جھاڑو لگائے، پوچا پھیرے، چھت دیواروں پر سے جالے اتارے، سیلنگ فینز کے کالے پروں کو صاف کرکے سفید پر نمودار کرے، کپڑے دھوئے، استری کرے، جوتے پالش کرے، بیوی کے دفتر سے واپس گھر آنے پر اُسے کھانا مہیا کرے، صبح سویرے ٹھے اور بچوں کے لیے ناشتہ بنائے، سکول کے لیے لنچ باکس تیار کرے، سوئی گیس لوڈ شیڈنگ ہو تو ناشتہ کا نعم البدل بچوں کو دے، بازار سے گھر کا سامان لانے کی لسٹ تیار کرکے بیوی کو دے۔۔ تو کیسا لگے گاپیارا پاکستان؟
ایسا ہو جائے تو یہ ایک نیا پاکستان ہوگا۔ سٹریٹ کرائم جھاگ کی طرح بیٹھ جائیں گے۔ ملک میں امن و امان کی ایک نئی داغ بیل ڈلے گی۔ قتل و غارت، ڈکیتی، اغواء برائے تاوان، گاڑیاں چھیننے کے واقعات راتوں رات ختم ہو جائیں گے۔ لڑائی جھگڑے خون ریزی سے پاک ہو جائیں گے، لڑنے والوں کی ہڈیاں محفوظ رہیں گی، زیادہ سے زیادہ بس دو چار بال ہی اُکھڑیں گے۔ سڑکیں اور دیواریں صاف ستھری نظر آئیں گی، سگریٹ کے ٹوٹے اور پان کی پیکیں ایسے غائب ہو جائیں گی جیسے گدھے کے سر سے سینگ، ھسپتالوں میں بستر نہ ملنے کی شکائتیں ختم ہو جائیں گی۔ بازاروں، سڑکوں ہر جگہ پر عورتوں کا راج ہونے سے پھولوں کی مانگ کم ہو جائے گی کہ مختلف پرفیومز کی خوشبو اور رنگ برنگے بیل بوٹوں سے بھرے لباس حدِ نگاہ نظر آئیں گے۔
عورت کو پردہ کرنے کی ضرورت باقی نہ رہے گی کیونکہ نامحرم تو گھر کی چار دیوراری میں قید ہیں۔ سب سے بڑھ کر عورت کی آدھی گواہی کی بجائے پوری گواہی قبول کی جائے گی کیونکہ اب عورت چار دیواری میں بند نہیں رہی جو اسے اونچ نیچ کا علم نہ ہو۔ بلکہ اب عورت گھر سے باہر کی دنیا میں مگن ہے اور اس کے نشیب و فراز کا بخوبی مشاہدہ کر چکی ہے، وسعت نظر کی مالک ہوگئی ہے۔ ریورس جینڈر رول اب مرد کی آدھی گواہی قرار دے گا کیونکہ آدھی گواہی کا تعلق صرف کم علمی، غیر مشاہداتی ماحول سے سے منسلک ہے اور چار دیواری میں بند رہنے سے مشاہدہ اور وسعت نظری ممکن نہیں ہوتی۔
جینڈرریورس رول کے مخالفین کہیں گے کہ عورت جسمانی طور پر مرد سے کمزور ہے، طاقت کی کمی ہے، اس لیے وہ سوائے ہانڈی روٹی کے گھر سے باہر کام کرنے کی اہل نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ بیشمار خواتین آج نہیں بلکہ دہائیوں سے باہر کے کام کر رہی ہیں جو کہ مردوں کی ڈیوٹی میں شمار ہوتے ہیں۔ میں نے اپنے بچپن میں اپنے گاؤں لائلپور میں خود عورتوں کو ہل چلاتے، کھیتوں کو پانی لگاتے، گوڈی دیتے، آٹے کی چکی پیستے، مال ڈنگر کے لیے ٹوکے سے پٹھے کُترتے، مونجی بیجتے، کپاس چُنتے، کنوؤں سے پانی بھر کر لاتے، مال ڈنگر کی حویلی کی صفائی کرتے، گوبر اٹھاتے اور پاتھیاں بناتے، بجلی کی چکی پر گندم کی بوری اٹھا کر لے جاتے، چارپائی کے ساتھ سویاں نکالنے والی مشین چلاتے، اینٹوں کے بھٹوں پر اینٹیں لگاتے اور درختوں سے بالن چھانگتے دیکھا ہے۔ جبکہ شہروں میں بھی عورتیں ملازمتیں کرتی ہیں، ٹھیلے لگاتی ہیں، ریڑھیوں پر تھوم، لہسن، ٹماٹر، ادرک اور گنڈے بیچتی ہیں۔ جنرل سٹورز پر کام کرتی ہیں، مزدوری کرتی ہیں، فرش بنانے کے لیے رُوڑی کُوٹتی ہیں۔ لہذا یہ قطعاً نہیں کہا جا سکتا کہ عورت کمزور ہے اور، مرد کی جگہ گھر سے باہر کے فرائض سر انجام نہیں دے سکتی۔
دوسری طرف مرد کا گھر میں رہ کر فرائض انجام دینا معاشرہ میں امن و امان کے لیے بہت بہترین ثابت ہوگا۔ اُسے چوڑیاں پہننے کا طعنہ نہیں ملے گا، گھر کی چار دیواری میں قید رہ کر گھریلو امور انجام دینے کو مرد اپنی مردانگی پر حملہ تصور نہیں کرے گا۔ حالانکہ ہے یہ صرف تصور ہی، اس میں حقیقت کچھ نہیں ہے۔ اگر حقیقت ہوتی تو دھوبی، لانڈری، درزی، ڈرائی کلینر، ٹی سٹال، ہوٹل، پیکو ماسٹر، ہوزری۔۔ یہ سب کام مرد نہ کر رہے ہوتے کہ یہ ڈیوٹی بنیادی طور پر عورتوں کی ہے۔ جب مرد یہ سارے کام باہر کر سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ گھر کے اندر بھی نہ کر سکیں۔
ریورس جینڈر رول کی روح کو سمجھتے ہوئے اسے فراخ دلی سے اپنایا جائے تو پاکستان فرسودہ نظریات سے پلک جھپکتے باہر نکل سکتا ہے۔ اگر حکمران سنجیدہ ہوں تو اسے عملی جامہ پہنا کر ملک کو پستی سے بلندی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ اس رول کی مخالف قوتیں صرف تھیو کریسی اور دقیانسوی سوچ ہے۔ ان سے نمنٹنا کوئی مشکل نہیں۔ کسی دوسرے انسان کے حقوق کی قدر و منزلت او ر عزت کی نگاہ کا اندازہ اس کے انسانی اوصاف سے کیا جاتا ہے نہ کہ صنفی بنیاد پر۔ ہم سمجھتے ہیں کہ روایتی معاشرہ کو جدید معاشرہ میں بدلنے کے لیے ریورس جینڈ ر رول ایک بہترین اور تیز ترین آپشن ہے، اسکی حوصلہ افزائی ہر سطح پر کرنی چاہیے۔