Talba Tanzeemo Par Pabandi, Establishment Ka Purana Hathiyar
طلباء تنظیموں پر پابندی، اسٹیبلشمنٹ کا پرانا ہتھیار

بظاہر تو پاکستان میں جمہوریت ہے لیکن نوجوانوں کی سیاسی شرکت پر گزشتہ چالیس برس سے غیر اعلانیہ مارشل لا مسلط ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے طلباء یونینز پر پابندی لگائی اور افسوس کہ جمہوری حکومتیں بھی اس ستم کو ختم نہ کر سکیں۔ آج کی نوجوان نسل جسے ہم باشعور، پڑھا لکھا اور ٹیکنالوجی سے جڑا ہوا سمجھتے ہیں، درحقیقت قیادت کے میدان میں بے سمت ہے کیونکہ اس سے اختلاف، مکالمہ، جدوجہد اور اجتماعی سیاست کی تربیت کا حق دہائیوں قبل چھین لیا گیا تھا۔
قیادت ہمیشہ زمین سے پھوٹتی ہے اور اگر زمین پر دباؤ ڈال دیا جائے، تو چشمے نہیں اُبلتے، صرف دراڑیں پڑتی ہیں۔ پاکستان میں طلباء یونین پر پابندی بھی دراصل ایسی ہی ایک سوچی سمجھی، منصوبہ بند اور دیر پا دراڑ تھی۔ طلباء سیاست پر پابندی اس خود ساختہ مفروضے پر لگائی گئی کہ تعلیمی اداروں میں تشدد ہوتا ہے، بدنظمی پیدا ہوتی ہے، طلباء پڑھائی پر توجہ نہیں دیتے وغیرہ اور اس سب کی جڑ طلباء تنظیمیں ہیں۔ جبکہ آمروں، بیورکریسی اور چند سیاسی خاندانوں کو اصل خوف یہ تھا کہ اگر نوجوان بولنے لگے، سوال کرنے لگے اور دلیل دینا سیکھ گئے تو وہ محض سیاسی جماعتوں کے نعرہ باز نہیں رہیں گے بلکہ طاقت کو آئینہ دکھانے والے باغی بن جائیں گے اور ان کی موروثی سیاست ختم ہو جائے گی۔
اُنیس سو ستر کی دہائی میں یہی طلباء یونین تھی جس نے جمہوریت کے حق میں نعرے لگائے، ایوبی آمریت کے خلاف آواز اٹھائی اور بھٹو جیسے لیڈر کو سیاسی بلندی پر پہنچایا۔ مگر 1984ء میں جنرل ضیاء الحق نے ان پر پابندی لگا کر صرف ایک ضابطہ اخلاق نافذ نہیں کیا، بلکہ نوجوان ذہنوں کو سیاست، سوال اور قیادت سے کاٹنے کا منصوبہ شروع کیا۔ ان نوجوانوں کو خاموش ہنر مندبنانے کی حکمتِ عملی اختیار کی گئی۔ ایسے تربیت یافتہ لوگ جو نظام پر سوال نہ کریں بلکہ صرف نوکری تلاش کریں۔ نتیجتاً طلباء تنظیموں پر پابندی عائد کرکے قیادت کی فطری نرسری کو بند کر دیا گیا۔ اس پابندی کی نتیجے میں درسگاہوں کی دیواروں پر پوسٹروں کی جگہ مہنگے اشتہارات آ گئے، جلسوں کی جگہ سیمینارز نے لے لی اور نظریات کی جگہ "کیریئر پلاننگ" آگئی۔ آج کا نوجوان اب تحریک نہیں چلاتا، صرف سی وی بناتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ طلباء تنظیمیں محض سیاسی اکھاڑے نہیں تھیں۔ یہی وہ پلیٹ فارم تھا جہاں سے عوامی مسائل پر آواز اٹھانے والے، نظریاتی بحثوں میں پختہ اور سیاست میں عوامی خدمت کو ترجیح دینے والے لیڈر پیدا ہوتے تھے۔ قیامِ پاکستان کی تحریک میں بھی طلباء کا کردار مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔ آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن، جو قائداعظم کی قیادت میں سرگرم رہی، برصغیر کے تعلیمی اداروں میں پاکستان کے تصور کو اجاگر کرتی رہی۔ اس تحریک نے ہزاروں نوجوانوں کو نظریہ، قیادت اور قربانی کا شعور دیا۔ بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں طلباء سیاست نے سنہری عہد دیکھا۔ بھٹو خود طلباء کے جلسوں سے خطاب کرتے تھے۔ طلباء تنظیمیں معاشرے کی دھڑکن تھیں اور حکمران ان کے اشاروں پر پالیسیاں بنانے پر مجبور ہوتے تھے۔ بھٹو دور میں طلباء یونینز نے تعلیمی اداروں میں نظریاتی بیداری اور طبقاتی شعور پیدا کیا، ان یونینز کے الیکشنز نے طلباء کو جمہوریت کا عملی مفہوم سکھایا۔
پاکستان میں طلباء تنظیمیں صرف طالب علموں کی نمائندہ آواز نہیں تھیں، بلکہ وہ قوم کے سیاسی نبض شناس، فکری میدان کے صف شکن اور مستقبل کے رہنما تیار کرنے والے کارخانے تھے۔ ان تنظیموں نے ہمیشہ ظلم کے خلاف آواز بلند کی، جبر کے سامنے سینہ سپر ہوئیں اور نظریاتی بنیادوں پر قیادت کو جنم دیا۔ آج جب ان پر پابندی کو دہائیاں گزر چکی ہیں، ہم ایک ایسی نسل کے ساتھ زندہ ہیں جسے نعرہ لگانا نہیں آتا، مکالمہ کرنا نہیں سکھایا گیا اور اختلاف کو برداشت کرنا ان کے تعلیمی نصاب میں شامل ہی نہیں رہا۔ جس کے نتیجہ یہ نکلا کہ نوجوان لیڈر شپ نمودار نہ ہو سکی اور موروثی سیاست پر بند ھ نہ باندھا جا سکا۔
آج طلباء تنظیموں اور سیاسی شعور کی غیر موجودگی کی وجہ سے نوجوان اجتماعی شعور سے دور ہونے کی وجہ سے ایسی کتابوں کے نرغے میں آ گئے ہیں جو، سیلف ہیلپ کے نام پر دراصل سرمایہ دارانہ ذہنیت کی تبلیغ کرتی ہیں۔ یہ کتابیں نوجوانوں کو ذاتی کامیابی، مقابلے اور منافع کی دوڑ سکھاتی ہیں، مگر اجتماعی فلاح، عوامی ذمہ داری، یا قومی شعور کی کوئی رمق نہیں چھوڑتیں جو کہ ایک المیہ سے کم نہیں۔ سیاست جو کسی بھی معاشرے میں عوامی خدمت اور اجتماعی بہتری کا ذریعہ ہوتی ہے، آج نوجوانوں کے لیے غیر متعلقہ یا مشکوک ہو چکی ہے۔ یوں ایک نسل جو کبھی انقلابی نظموں سے لہو گرما کر سڑکوں پر آتی تھی، اب محض خود کو بہتر بنانے کی دوڑ میں سیاست سے کوسوں دور جا چکی ہے جس سے خودغرض قوم پروان چڑھتی ہے۔
یہاں پر ایک سوال اُبھرتا ہے کہ جب طلباء تنظیموں پر پابندی ہے، کوئی منظم طلباء قیادت موجود نہیں، تو پھر پاکستان کے نوجوانوں نے عمران خان کو کیونکر اپنا قائد مان لیا؟ دیکھا جائے تو یہ قیادت کے خلا کا فطری نتیجہ تھا۔ جب ریاست نوجوانوں کی رہنمائی سے گریز کرے تو وہ خود اپنا راستہ چنتے ہیں چاہے راستہ درست ہو یا غلط انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتی کیونکہ ان کی سیاستی تربیت کے ادارے تو چار دہائیاں قبل بند کیے چکے ہیں۔
اُنیس سو چھیانوے میں تحریکِ انصاف کا آغاز ایک غیر سیاسی تجربہ لگا، لیکن 2010 کی دہائی آتے آتے وہی عمران خان نوجوانوں کا "ہیرو" بن چکا تھا۔ یہ نوجوان وہی تھا جس نے کبھی یونین نہیں دیکھی، منشور نہیں لکھا، مظاہرے نہیں کیے، مگر دل میں ایک نامکمل خلا، ایک ان کہی تڑپ ضرور رکھتا تھا۔ عمران خان کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ، کرپٹ سیاسی اشرافیہ کے خلاف آواز اور سوشل میڈیا پر مہم وغیرہ ان سب نے نوجوانوں کو متوجہ کیا۔ یہ الگ بات کہ باجوہ کی بدولت ہی پی ٹی آئی حکومت میں آئی اور چند سال نکالے اور پھر مجھے کیوں نکالا کے غصے میں نو مئی کرکے اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مارلی اور سیاسی نابالغیت سے بھی عوام کو روشنا س کروا دیا۔ اگرچہ نوجوان سیاسی و تنظیمی تربیت سے محروم تھے، مگر ایک امید اور نجات دہندہ کی تلاش نے انہیں کپتان کے پیچھے لا کھڑا کیا تھا، یہ ان کا انتخاب تھا اور اس سے یہ بات بھی کلیئر ہوگئی کہ طلباء سیاست پر پابندی نہ ہوتی تو نوجوان ٹھوک بجا کر، دیکھ بھال کر کوئی نجات دہندہ تلاش کرتے اور محض ورلڈ کپ کو ذہن پر استوار کرکے جذباتی نہ ہوتے۔ سمجھ سے باہر ہے کہ کرکٹ کا سیاست سے ناطہ کیسے جوڑ لیا قوم یوتھ نے۔
افلاطون کا کہنا ہے کہ جو لوگ ریاستی امور سے لاتعلق رہتے ہیں، وہ ظالموں کی حکمرانی سہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ طلباء یونین سیاست کی ابتدائی درسگاہ ہوتی ہے۔ آج جو نوجوان سوشل میڈیا پر دلیل دیتا ہے، وہ اگر یونین کے پلیٹ فارم سے ابھرتا، تو شاید وہ آج پالیسی ساز ہوتا، نہ کہ صرف ٹرینڈ بنانے والا۔ کیونکہ قیادت صرف شہرت سے نہیں آتی، شعور سے آتی ہے۔ عمران خان کا طلوع ایک علامت ہے کہ اگر آپ قیادت کے روایتی دروازے بند کریں گے، تو قیادت کھڑکی توڑ کر بھی آ سکتی ہے۔ وہ کھڑکی کبھی کرکٹ کا میدان بنے گا، کبھی یوٹیوب، کبھی جلسہ اور کبھی جیل۔
افسوس کہ ہمارے کالجوں، جامعات نے طلباء کی سیاسی تربیت کو جرم بنا دیا۔ یہ حکمتِ عملی نہ صرف ناقص ہے بلکہ قومی شعور کے قتل کے مترادف ہے۔ ارسطو کہتا ہے کہ اگر آپ سیاست میں دلچسپی نہیں لیں گے تو پھر آپ پر کم تر لوگ حکومت کریں گے۔ آج کا نوجوان اسی انجام کا سامنا کر رہا ہے۔ سیاست گالی نہیں، بلکہ فریضہ ہے۔ طلباء تنظیموں پر پابندی ایک فکری جرم ہے، جو نہ صرف قیادت کی راہ روکتا ہے، بلکہ پوری قوم کو سوچنے سے باز رکھتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم اس پابندی کو محض ماضی کی غلطی نہیں، بلکہ حال کے زخم کے طور پر دیکھیں اور جس کا علاج لازم ہے۔ بقول شاعرِ مشرق:
جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے
مرا عشق، مری نظر بخش دے

