Sarkari Nokariyon Ka Khatma
سرکاری نوکریوں کا خاتمہ

حکومت پنجاب نے پنجاب ریگولرائزیشن آف سروس آرڈیننس 2025 باضابطہ طور پر 31 اکتوبر سے نافذ کر دیا ہے اور سرکاری نوکریوں کا خاتمہ کرکے کنٹریکٹ سسٹم پر ملازمتیں مہیا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کا یہ فیصلہ محض انتظامی نہیں رہتا بلکہ ایک گہرا سماجی، معاشی اور سیاسی سوال بن جاتا ہے۔
گریڈ ایک سے سولہ تک کے ملازمین پاکستان کے سماجی ڈھانچے میں وہ طبقہ ہیں جو محنت کش متوسط اور نچلے طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کی ملازمت صرف آمدن نہیں بلکہ تحفظ، عزت اور مستقبل کی ضمانت بھی ہوتی ہے۔ اس ضمانت کا خاتمہ دراصل ایک ایسے طبقے کو عدم تحفظ کے سمندر میں دھکیلنا ہے جو پہلے ہی معاشی دباؤ، مہنگائی اور بے یقینی کا شکار ہے۔
حکومت کی سطحی دلیل یہ ہے کہ سرکاری خزانے پر پنشن کا بوجھ ناقابلِ برداشت ہو چکا ہے۔ پنجاب میں پنشن اور تنخواہوں کا حصہ بجٹ کے بڑے حصے کو کھا جاتا ہے۔ کیا اس بوجھ کو کم کرنے کا واحد راستہ صرف ریاستی فلاح کا خاتمہ ہے؟ کیا ریاست کو اپنی مالی مشکلات کا حل ہمیشہ بھوکی ننگی عوام کی قربانی میں ہی نظر آتا ہے؟
مان لیا کہ پنشن سسٹم میں اصلاحات کی ضرورت ہے، لیکن اصلاح اور انکار میں فرق ہے۔ اصلاح کا مطلب یہ ہے کہ حکومت پنشن کے موجودہ نظام کو پائیدار بناتی، کوئی نیا پنشن فنڈ یا سوشل سیکیورٹی اسکیم متعارف کراتی۔ مگر یہاں حکومت نے بجائے نظام بہتر کرنے کے، پورا دروازہ ہی بند کر دیا ہے جیسے کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔
سرکاری نوکری ایک وقت میں عام پاکستانی کے لیے سماجی ترقی کی سب سے محفوظ سیڑھی سمجھی جاتی تھی۔ ایک کسان یا مزدور کا بیٹا اگر کلرک یا ٹیچر بن جائے تو پورے خاندان کی قسمت بدل جاتی تھی۔ اب وہ خواب ٹوٹ رہا ہے۔ کنٹریکٹ سروس یا یکمشت تنخواہ کا مطلب یہ ہے کہ ملازمت کسی بھی وقت ختم کی جا سکتی ہے، کوئی ریٹائرمنٹ بینیفٹ نہیں، کوئی طویل المیعاد تحفظ نہیں۔ یہ عدم تحفظ نوجوان نسل کے ذہنوں میں مستقل بے اعتمادی پیدا کرے گا اور نوجوان ریاست کے ساتھ اپنا تعلق کمزور محسوس کریں گے۔
حکومت پنجاب کے اس اقدام سے تعلیم سب سے زیادہ متاثر ہوگی۔ پاکستان میں غریب اور متوسط طبقے کے والدین اپنے بچوں کو تعلیم اس امید پر دلواتے ہیں کہ پڑھ لکھ کر وہ کسی دن سرکاری نوکری حاصل کر لیں گے اور یوں گھر کی غربت ختم تو چلیں نہ سہی، تھوڑا بہت آسرا تو ہو جائے گا۔ لیکن جب ریاست خود اعلان کر دے کہ اب گریڈ ایک سے سولہ تک کی نوکریاں مستقل نہیں ہوں گی، تو تعلیم کی وہ کشش، وہ مقصد اور وہ خواب اپنی معنویت کھو دے گا۔ دیہی علاقوں میں پہلے ہی تعلیمی ادارے خالی پڑے ہیں۔ اب جب سرکاری روزگار کا راستہ بند کیا جا رہا ہے تو لوگ تعلیم میں سرمایہ لگانے سے کترائیں گے۔ اسکولوں کی حاضری کم ہونا اور والدین کا تعلیمی رجحان گھٹنا فطری نتیجہ ہوگا۔ یوں حکومت کا یہ فیصلہ آنے والے برسوں میں علمی زوال کا بھی پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ تعجب ہے کہ حکومت نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی۔ شاید اس لیے کہ تاجروں کی حکومت کا تعلیم سے کیا لینا دینا؟
سیاسی طور پر دیکھا جائے تو یہ اقدام خطرناک حد تک غیر مقبول ثابت ہو سکتا ہے۔ سرکاری ملازمین ہمیشہ سے پنجاب کے سیاسی توازن میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ جب ایک عام کلرک، کیشئر، قاصد، پوسٹ مین، نائب قاصد، یا اسکول ٹیچر اپنی سروس کے آخر میں پنشن سے محروم ہوگا تو اس کی شکایت صرف ذاتی نہیں بلکہ اجتماعی ہوگی۔ یوں یہ پالیسی کسی بھی وقت حکومت کے خلاف سڑکوں پر سیاسی ردِعمل کی صورت اختیار کر سکتی ہے یا پھر خاموش آتش فشاں الیکشنز کے دنوں میں ن لیگ پر پھٹ سکتا ہے۔
جب ریاست عوام سے سماجی تحفظ کھو لیتی ہے تو وہ دراصل سیاسی اعتماد گنوا بیٹھتی ہے۔ ارسطو کا کہنا ہے کہ ریاست کی بقا عوام کی خوش حالی سے وابستہ ہے نہ کہ محض نظم و ضبط سے۔ حکومت پنجاب کی سرکاری نوکریوں کے خاتمے کی پالیسی نظم و ضبط تو پیدا کر سکتی ہے مگر خوش حالی نہیں۔
کچھ ماہرین حکومت کے اس اقدام کو انتظامی اصلاحات کے طور پر سراہتے ہیں۔ ان کے نزدیک مستقل نوکری کا تحفظ ملازمین میں سستی، بے نیازی اور غیر مؤثر رویہ پیدا کر دیتا ہے۔ کنٹریکٹ یا کارکردگی کی بنیاد پر بھرتی سے سرکاری اداروں میں کچھ پیشہ ورانہ نظم و ضبط پیدا ہو سکتا ہے۔
لیکن سوال یہ کہ کیا اداروں میں وہ شفافیت اور غیر جانبداری موجود ہے جو کسی کنٹریکٹ سسٹم کو کامیاب بنا سکے؟ جب افسر بالا کی پسند و ناپسند، ترقی یا برطرفی کا معیار بن جائے تو کارکردگی کا پیمانہ بے معنی ہو جاتا ہے۔ نیز کنٹریکٹ ملازم اپنی ملازمت کے تسلسل کے لیے ادارے کے بجائے افسرِ بالا یا سیاسی سرپرست کے قریب تر ہونے کی کوشش کرے گا۔ اس سے اداروں کی غیر جانبداری مزید ختم ہوگی اور میرٹ کا جنازہ دن دہاڑے نکلنا شروع ہو جائے گا۔
ذرا مزید غور کیا جائے تو نظر آ ہی جائے گا کہ کنٹریکٹ سسٹم میں یکمشت تنخواہ وقتی طور پر سرکاری خزانے کو ریلیف دے سکتی ہے، مگر طویل مدت میں اس کے اثرات الٹ ثابت ہوں گے۔ جب ریاست اپنے ملازمین کو مستقل تحفظ نہیں دے گی تو وہ بدعنوانی، رشوت اور ذاتی مفاد کے جال میں زیادہ آسانی سے پھنستے جائیں گے۔ ایک بے خوف ملازم کے مقابلے میں ایک غیر محفوظ ملازم زیادہ قابلِ خرید ہوتا ہے۔
حکومت کا یہ قدم سماجی انصاف کے نظریے سے بھی کمزور دکھائی دیتا ہے۔ اشرافیہ کے لیے مراعات برقرار ہیں، اعلیٰ افسران کو پینشن، گاڑیاں اور پلاٹ بدستور حاصل ہیں، مگر ایک چپڑاسی یا نائب قاصد کو کہا جا رہا ہے کہ وہ پنشن کا متحمل نہیں۔ یہ تضاد عوام میں طبقاتی محرومی کو گہرا کرے گا۔
حکومت اگر واقعی اصلاحات کی خواہاں ہے تو اسے یکطرفہ اقدامات کے بجائے مشترکہ مشاورت، شفاف پنشن فنڈ اور کم آمدنی والے ملازمین کے لیے متبادل سماجی و معاشی تحفظ پر غور کرنا چاہیے مثلاً چھ ماہ کی ایڈوانس تنخواہ کا رول متعارف کرانا وغیرہ۔ دنیا کے کئی ممالک، مثلاً ملائیشیا اور ترکی، نے ایسے ماڈل اپنائے ہیں جہاں حکومت نے پنشن کا بوجھ نجی پنشن فنڈز یا ریٹائرمنٹ انشورنس اسکیمز کے ذریعے کم کیا، مگر عوام کو مکمل طور پر تنہا نہیں چھوڑا۔
حکومت کا یہ فیصلہ محض ایک آرڈیننس نہیں بلکہ ریاستی فلسفے کی تبدیلی کا اشارہ ہے۔ ایک فلاحی ریاست سے ایک مالیاتی کارپوریشن میں تبدیلی کا اشارہ۔ یہ سوچ اگر جڑ پکڑ گئی تو سرکاری ملازمت کا تقدس، عوام کا اعتماد اور تعلیم کی افادیت، تینوں ڈھے جائیں گے۔
ریاست کا کام صرف حساب کتاب کرنا نہیں ہوتا بلکہ امید بانٹنا بھی ہے۔ اگر حکومت عوام کی زندگیوں سے امید کا آخری سہارا بھی چھین لے تو پھر گورننس باقی رہ جاتی ہے مگر قوم نہیں۔

