Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Sadme Ke Baad Ki Zindagi

Sadme Ke Baad Ki Zindagi

صدمے کے بعد کی زندگی

گزشتہ ہفتے ہمارے دفتر کے نوجوان ساتھی جواد ڈکیتی کا شکار ہوئے۔ اے ٹی ایم سے کیش نکلوا کر بائیک پر دو کلومیٹر دور ہی پہنچے تو بائیک پر ہی سوار ڈاکوؤں نے گن پوائنٹ پر انہیں روک لیا۔ ڈاکو ان سے دو موبائل فون، جن میں ایک قیمتی ایپل ڈیوائس بھی شامل تھی اور پرس میں موجود اچھی خاصی رقم، اے ٹی ایم کارڈ، ڈرائیونگ لائسینس، قومی شناختی کارڈ، کورونا ویکسینیشن کارڈ پرس سمیت چھین کر لے گئے۔ بظاہر دکھائی دیتا ہے کہ اے ٹی ایم سے کیش نکلوانے کے بعد سے ہی جواد کی ریکی کی گئی ہو۔ اس واقعہ کے بعد موصوف صرف اپنے کمرے تک محصور ہو گئے ہیں اور ہر وقت خلا میں گھورتے رہتے ہیں اور یہ صورتحال ایک ہفتہ سے جاری ہے۔

یہ بظاہر ایک مالی نقصان لگتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ڈکیتی کا اصل زخم دل و دماغ پر لگتا ہے۔ انسان کے اندر کی دنیا لرز جاتی ہے۔ جو شخص کل تک پراعتماد انداز میں سڑک پر چلتا تھا، اچانک خود کو کمزور اور غیر محفوظ محسوس کرنے لگتا ہے۔ ڈکیتی کا صدمہ صرف مالی نقصان نہیں ہوتا بلکہ اس کا سب سے بڑا زخم ذہنی اور نفسیاتی طور پر لگتا ہے۔ نوجوانی میں جب انسان ابھی عملی زندگی کے ابتدائی مراحل میں ہوتا ہے تو اس طرح کا واقعہ دل و دماغ پر گہری ضرب لگاتا ہے۔ جواد بھی اسی صورتحال میں مبتلا ہے۔

اُس کا اپنے کمرے میں بند ہو کر بیٹھ جانا سے نظر آتا ہے کہ جیسے اس واقعہ سے اس کا اندرونی سکون، اعتماد اور تحفظ کا احساس سب کچھ چھن گیا ہو۔ کبھی اسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہر اجنبی چہرہ خطرہ ہے، ہر دروازے کی دستک خوف ہے اور ہر سڑک پر ڈاکو انسانوں کے بھیس میں چھپے ہوئے ہیں۔ اس کَرب سے نکلنے کے لیے صرف وقت ہی نہیں بلکہ ایک ایسا ماحول بھی درکار ہے جہاں دوسروں کی حوصلہ افزائی، محبت بھری گفتگو اور سننے والا کان موجود ہو۔ یہی وہ عناصر ہیں جو اسے بتدریج اعتماد واپس دلانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

ایک ہفتہ گزر جانے کے باوجود جواد کا دفتر نہ آنا بظاہر اس بات کی علامت ہے کہ اس واقعے نے اس کے ذہن پر گہرا نقش چھوڑ دیا ہے اور بوجہ ذہنی ناپختگی، کچی عمرو تجربہ اور عملی زندگی کے نشیب و فراز سے ناواقفیت کی وجہ سے وہ اس حادثے کو اپنے اوپر طاری کر بیٹھا ہے۔ وہ بار بار اسی لمحے کو تصورمیں لاتا ہے جب پستول اس کے سامنے تھا اور زندگی اور موت کا فاصلہ چند سیکنڈ کا لگ رہا تھا۔ گھر میں اپنے کمرے میں گھنٹوں بیٹھے رہنے اور سوچتے رہنے کی وجہ سے جو کیفیت اُبھر رہی ہے وہ دراصل بعد از صدمہ ذہنی دباؤ کی ابتدائی صورت ہے۔

رات کو نیند میں چونک کر جاگ اٹھنا، ذرا سی آہٹ پر گھبرا جانا اور تنہائی میں بار بار اسی منظر کو یاد کرنا اس ذہنی دباؤ کی علامات ہیں۔ ماہرِ نفسیات ا لفریڈ ایڈلر کا کہنا ہے کہ انسان اپنی تکلیف کو جتنا تنہا سہتا ہے، وہ اتنی ہی شدید ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موصوف کا ایسے حالات میں دفتر آنا اور لوگوں کے درمیان رہنا پہلے سے بھی زیادہ ضروری ہو جاتا ہے۔ دفتر ایک ایسا ماحول فراہم کرتا ہے جہاں بات شیئر کرنے، حوصلہ دینے اور اعتماد بحال کرنے کے مواقع ملتے ہیں۔

ڈکیتی یا گن پوائنٹ پر لُوٹے جانے کا سب سے بڑا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان کو اپنی حفاظت اور اپنے اردگرد کے ماحول پر اعتماد نہیں رہتا۔ وہ ہر وقت خطرے کا احساس کرنے لگتا ہے۔ نیند متاثر ہوتی ہے اور بار بار اس لمحے کی یاد ذہن پر حملہ آور ہوتی ہے۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق یہ پوسٹ ٹرومیٹک سٹریس ڈِس آرڈر(PTSD) کی ابتدائی علامات ہو سکتی ہیں۔ پی ٹی ایس ڈی ایک ذہنی کیفیت ہوتی ہے جو کسی تکلیف دہ اور ناقابل توقع اچانک درپیش واقعے مثلاً ڈکیتی، چوری، روڈ ایکسیڈنٹ، کسی پیارے کی اچانک موت، بم دھماکے، سیلاب، زلزلے وغیرہ کے بعد متاثرہ فرد میں پیدا ہوتی ہے جو پریشان کن احساسات و جذبات کا باعث بنتی ہے۔ جن متاثرین میں PTSD کی نشاندہی ہوتی ہے وہ واقعات کو بار بار یاد کرکے زندہ کر سکتے ہیں۔ انسان بار بار اس لمحے کو یاد کرتا ہے، نیند میں ڈراؤنے خواب آتے ہیں اور روزمرہ زندگی میں اعتماد کم ہونے لگتا ہے۔ یہ صدمہ اتنا شدید ہوتا ہے کہ بعض افراد کو لمبے عرصے تک ڈپریشن اور انگزائٹی کا سامنا رہتا ہے۔

دیگر الفاظ میں PTSD میں مبتلا انسان خود پر بیتے ہوئے واقعات کو مندمل نہیں ہونے دیتا اور انہیں تروتازہ رکھتا ہے جس کے نتیجے میں مریض کسی کام کو یکسوئی سے کرنے، توجہ مبذول کرنے اور خوش اسلوبی سے کرنے میں دِقت کا سامنا کرتا ہے۔ چہرے سے مسکراھٹ ختم اور پریشانی ڈیرہ جما لیتی ہے۔ گویا ایسی صورتحال میں مبتلا رہتا ہے جیسے بقول سیف الدین سیف:

ایک اُداسی دل پر چھائی رہتی ہے
میرے کمرے میں تنہائی رہتی ہے

ہم نے جواد کو درپیش اس ساری صورتحال کو ماہر نفسیات سعدیہ صاحبہ کے سامنے رکھتے ہوئے کونسلنگ کی درخواست کی تو انہوں نے کہا کہ ڈکیتی کے صدمے سے نکلنے کے لیے جواد کو چاہیے کہ سب سے پہلے یہ تسلیم کرے کہ جو کچھ اس کے ساتھ ہوا وہ واقعی ایک بڑا جھٹکا تھا اور اس پر نروس ہونا یا ڈر لگنا بالکل نارمل بات ہے۔ اس واقعے میں اس کی کوئی ذاتی کوتاہی شامل نہیں تھی۔ یہ محض ایک حادثہ تھا جو گزر گیا۔ اسے یہ بات پلے باندھنے کی اشد ضرورت ہے کہ ڈکیتی میں لوٹی جانے والی چیزیں موبائل، پیسے وغیرہ آج نہیں تو کل مل جائیں گے لیکن اگر اس کی ہمت چوری ہو جائے تو وہ واپس نہیں آتی۔ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ زندہ سلامت ہے۔ زندگی کسی بھی مادی چیز سے زیادہ قیمتی ہے۔ اس لیے مسٹر جواد کو اپنے ہمت و طاقت و حوصلہ کے اصل سرمائے کو بچائے رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

سعدیہ صاحبہ کا مزید کہنا ہے کہ جواد کے لیے اب سب سے ضروری یہ ہے کہ وہ خود کو وقت دے، گھر کے کام کاج کرے۔ روزانہ کچھ وقت کے لیے دفتر آنے کی کوشش کرے تاکہ معمولات کی روانی بحال ہو۔ دفتر کا ماحول اسے نہ صرف مصروف رکھے گا بلکہ ساتھی ملازمین کی بات چیت اور حوصلہ افزائی اسے سہارا بھی فراہم کرے گی۔ کیونکہ جب دکھ بانٹا جاتا ہے تو اس کا بوجھ کم ہو جاتا ہے اور ذہن رفتہ رفتہ سکون کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔ اپنے گھر میں سیکیورٹی کے حوالے سے چندمزید اقدامات کرنے سے بھی اسے دوبارہ محفوظ ہونے کا احساس ملے گا۔

روزانہ پانچ سے دس منٹ گہری سانس لینے کی مشق کرے، چار سیکنڈ سانس اندر کھینچنا، چار سیکنڈ روکنا اور چھ سیکنڈ میں باہر نکالنا۔ یہ مشق دماغ اور جسم دونوں کو سکون دے گی۔ یہ ایک تدریجی عمل ہے اور اس کا سامنا کرنا ہی اصل ہمت ہے۔ اگر کبھی ڈر یا نیند کی خرابی زیادہ شدت اختیار کرے تو پروفیشنل مدد لینے میں ماہر نفسیات سے رجوع کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ گھر والوں کو بھی جواد کو گھر میں بیٹھنے نہیں دینا چاہیے اور واقعہ سے پہلے کی طرح کی روٹین کی بحالی میں، حوصلہ افزائی کرنے میں اور مصروف رکھنے میں بھرپور کردا ادا کرنا چاہیے۔ یہی اقدام جواد کومضبوط بنائیں گے اور نارمل سرگرمیوں کے ازسر نو شروع ہونے میں اہم کردار ادا کریں گے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ چونکہ بیری کے بیر منہ میں خود بخود ہی نہیں آ جاتے، اس کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے پڑتے ہیں۔ اسی طرح جواد جو آج ہمت کھو بیٹھے ہیں، مایوسی کا دامن تھام بیٹھے ہیں، انہیں چاہیے کہ خود کو یکجا کریں، قوت مدافعت کو اکٹھا کریں اور جلد از جلد اپنی ذہنی و نفسیاتی بحالی کو معمول پر لانے کے لیے خود کوشش کریں۔ خالی کڑھتے رہنے سے تو دال نہیں گلنے والی۔ خالی بیٹھے بیٹھے تو لوہے کو بھی زنگ لگ جاتا ہے جبکہ انسان تو مٹی کا بنا ہے، اسے تو خالی بیٹھنا زیب ہی نہیں دیتا۔ اگر کسی بھی وجہ سے فوری طاقت مجتمع نہیں ہو رہی تو موصوف کو معلوم ہونا چاہیے کہ جیسے اندیور کا لکھا اور منا ڈے کا گایا ہوا یہ گیت۔

ندیا چلے، چلے رے دھارا
چندہ چلے، چلے رے تارا

تُجھ کو چلنا ہوگا
جیون کہیں بھی ٹھہرتا نہیں ہے

آندھی سے، طوفان سے ڈرتا نہیں ہے
تُو نہ چلے گا، تو چل دیں گی راہیں

منزل کو ترسیں گی تیری نگاہیں
پار ہوا وہ، جو رہا سفر میں

جو بھی رُکا، گِھرگیا وہ بھنور میں
ناؤ تو کیا، بہہ جائے کنارا

بڑی ہے تیز سَمے کی یہ دھارا
تُجھ کو چلنا ہوگا۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam