Sach Ya Jhooti Tasalli?
سچ یا جھوٹی تسلی؟

گزشتہ روز سوشل میڈیا پر ایک اسٹیٹس نظر سے گزرا: "It's only a short trip, enjoy it!"۔ یقیناً یہ ایک موٹیویشنل جملہ ہے، جس کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ زندگی مختصر ہے، اس لیے ہر لمحے کو خوشی کے ساتھ گزارا جائے کہ نہ معلوم کب فرشتہء اجل دستک دے دے۔ بظاہر یہ خیال دل کو بھاتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی ایسا ممکن ہے؟ کیا ہم سب اس دنیا کو محض ایک مختصر سفر سمجھتے ہوئے واقعی انجوائے کر سکتے ہیں؟ یہ سوال مجھے اس شعر کی یاد دلاتا ہے جس میں اقبال نے انسانی کیفیت کو یوں بیان کیا تھا:
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطفِ انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
یعنی اگر دل کے چراغ ہی گل ہو چکے ہوں تو محفل کی روشنیوں کا کیا حاصل؟ اگر اندر ہی اندھیرے چھائے ہوں تو بیرونی خوشی کیسے رنگ دکھا سکتی ہے؟
دراصل دنیا کو عارضی سمجھ کر ہر لمحہ انجوائے کرنے کا فلسفہ صدیوں پرانا ہے۔ یونانی حکمت میں سادہ لذتوں کو زندگی کی اصل قرار دیا گیا۔ بدھ مت نے عارضیت کو مان کر سکون کو جینے کی کنجی بتایا اور صوفیاء کرام نے فنا فی اللہ میں سکون ڈھونڈا۔ بظاہر یہ سب ایک بات پر متفق ہیں کہ لمحہ موجود ہی سب کچھ ہے، باقی فریب ہے۔ یہی بات آج کے موٹیویشنل کلچر نے نعرے کی صورت اپنائی کہ زندگی ایک مختصر سفر ہے، انجوائے کرو۔ یہ جملہ سننے میں تو خوش کن ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ سب کے لیے قابلِ عمل بھی ہے؟
آئیے ذرا اپنے اردگرد سرسری سی نظر دوڑاتے ہیں۔ ایک نوجوان جس کے ہاتھ میں ڈگری ہے مگر روزگار نہیں، کیا وہ زندگی کو شارٹ ٹرپ سمجھ کر ہنسی خوشی جیتا رہے گا؟ ایک مزدور جو دن بھر پسینہ بہا کر بھی اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی پوری نہیں کر پاتا، کیا اس کے لیے یہ نعرہ حوصلہ ہے یا طنز؟ معذور افراد جو دوسروں کے سہارے کے بغیر بنیادی کام بھی نہیں کر سکتے، دائمی بیماریوں میں جکڑے مریض جو ہسپتالوں کی راہداریوں میں ایڑیاں رگڑتے ہیں، جیلوں میں برسوں سے بند قیدی، یا وہ بوڑھے پینشنرز جن کی پنشن میں امسال "ایڈہاک اضافہ" لگا کر معمولی سا سہارا دیا جاتا ہے۔۔ یہ سب کس طرح خود کو یقین دلائیں کہ زندگی ایک خوشگوار ٹرپ ہے؟ دوسری طرف یہ تضاد بھی کڑوا ہے کہ جہاں اسمبلی ممبران کی تنخواہیں رات کے اندھیرے میں چھ سو گنا بڑھا دی جاتی ہیں، وہیں حاضر سروس ملازمین پنشن رولز کی کٹوتیوں کے سبب پسے جا رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں"انجوائے" کا فلسفہ اکثر ایک زخم پر نمک چھڑکنے کے مترادف محسوس ہوتا ہے۔
اس مبینہ حوصلہ افزا قول کو اب ایک اور زاویے سے دیکھتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ اس کا مطلب یہ ہو کہ زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ لمحہ موجود ہے۔ جو شخص مستقبل سے بدگمان رہے اور ماضی پر مسلسل افسوس کرتا رہے، وہ حال کے امکانات کو کبھی نہیں سمجھ سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کی اصل حقیقت یہی لمحہ ہے جو اس وقت ہمارے پاس ہے۔ اگر ہم اسے ضائع کر دیں تو کامیابی کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں۔
انسان کے بس میں صرف لمحہ موجود ہے۔ نہ گزرے ہوئے دن واپس آ سکتے ہیں اور نہ آنے والے دنوں پر ہمارا اختیار ہے۔ اگر ہم ماضی کی تلخیوں اور ناکامیوں میں الجھے رہیں تو یہ ہمارے حال کو بھی برباد کر دیتا ہے۔ کامیاب وہی ہے جو لمحہ موجود کو سنوارنے کی کوشش کرے۔ یہی سوچ ہمیں ایک بامقصد زندگی کی طرف لے جا سکتی ہے۔
بہرحال یہ بھی درست ہے کہ لمحہ موجود کو سب کچھ سمجھ لینا بعض اوقات انسان کو وقتی لذتوں اور سطحی خوشیوں میں الجھا دیتا ہے۔ اگر ہم صرف آج کو انجوائے کرنے کے چکر میں کل کی ذمہ داریوں سے آنکھ بند کر لیں تو یہ بھی نقصان دہ ہے۔ مثلاً کوئی شخص صرف آج کے لطف کے لیے اپنی صحت، تعلیم یا مالی ذمہ داریوں کو نظرانداز کرے تو آنے والا کل مزید مشکلات سے بھرا ہوگا۔ اس لیے لمحہ موجود کو قیمتی ضرور سمجھنا چاہیے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ مستقبل کے خدشات اور ضروریات کو یکسر نظرانداز کر دیا جائے۔
کامل زندگی دراصل لمحہ موجود کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے تقاضوں کو بھی نظر میں رکھنے کا نام ہے۔ ماضی کی زنجیروں اور غیر ضروری غموں کو چھوڑ دینا چاہیے، لیکن یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی ہوگی کہ آج کی منصوبہ بندی ہی کل کی کامیابی ہے۔ لمحہ موجود وہی وقت ہے جسے انسان اپنی محنت اور عقل سے سنوار سکتا ہے، باقی سب محض خیالات اور تمنائیں ہیں۔
انسان کو سب سے پہلے روٹی، کپڑا اور مکان کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر تحفظ، تعلقات، عزت اور آخر میں خود کو منوانے کی منزل آتی ہے۔ اب سوال یہ برآمد ہوا کہ ایک شخص جس کی پہلی سیڑھی بھی خالی ہے، وہ آخری منزل کے خواب کیسے دیکھے؟ یہی وجہ ہے کہ محرومی اور غربت میں جکڑا ہوا انسان "انجوائے" کا مطلب ہی نہیں سمجھ پاتا۔ اس کے لیے زندگی کسی ٹرپ کی طرح نہیں بلکہ ایک روزانہ کی کٹھن جدوجہد ہے۔
ماہر نفسیات ژونگ کا کہنا ہے کہ سب سے مشکل کام یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو مکمل طور پر قبول کر لے۔ سوال یہ ہے کہ وہ فرد جو معاشرتی ناانصافیوں اور محرومیوں کا شکار ہے، وہ اپنے آپ کو کیسے قبول کرے گا؟ جب بنیادی حقیقتیں ہی اذیت ناک ہوں تو فلسفیانہ قبولیت اور خوشی محض ایک خواب رہ جاتی ہے۔
اسی طرح الفریڈ ایڈلر کا کہنا ہے کہ انسان کی اصل خوشی دوسروں کے ساتھ بامقصد تعلق میں پوشیدہ ہے، لیکن جب "ویگو کلچر" افراد کو "جس کی لاٹھی اس کی بھینس" کے اصول پر روند رہا ہو، تو تعلقات بھی استحصال اور عدم اعتماد کی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں۔ ایسے میں انجوائے کا فلسفہ ایک کھوکھلی آواز لگتا ہے۔
غالب نے کہا تھا "قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں"۔ یعنی زندگی اور غم کا ساتھ لازم و ملزوم ہے۔ اقبال نے بھی انسان کے بجھے ہوئے دل کی طرف اشارہ کیا تھا۔ یعنی جب ایک شخص کا باطن ہی بجھ جائے تو بیرونی خوشی ایک دکھاوا رہ جاتی ہے۔
یوں یہ بات کہ "زندگی ایک شارٹ ٹرپ ہے، اس لیے انجوائے کرو" اپنی اصل شکل میں سب کے لیے درست نہیں۔ یہ جملہ اُن خوشحال لوگوں کے لیے تو یقیناً حوصلہ افزا ہے جنہیں غربت، بیماری اور ناانصافی نے نہیں چھوا۔ لیکن ان کروڑوں انسانوں کے لیے جو بنیادی ضرورتوں کے لیے تڑپ رہے ہیں، یہ محض ایک بے حس تسلی ہے۔ اصل سوال یہ نہیں کہ زندگی کو کیسے انجوائے کیا جائے، بلکہ یہ ہے کہ ہم اسے سب کے لیے جینے کے قابل کیسے بنائیں۔ خوشی کا حقیقی فلسفہ اسی وقت معنی خیز ہوگا جب معاشرہ انصاف، روزگار، تعلیم اور صحت کی سہولت ہر فرد کو دے سکے۔ ورنہ یہ قول اشرافیہ کے ڈرائنگ روم میں لکھا نعرہ تو ہو سکتا ہے، مگر غربت کے اندھیروں میں جکڑے ہوئے انسان کے لیے یہ ایک کڑوا مذاق ہے۔
اسٹیٹس ہذا کا معنی و مفہوم اخذ کرنے کی کوشش میں ایک اور نکتہ نظر یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس کا مقصد یہ باور کروانا ہو کہ انسان کو جو لمحہ میسر ہے اس سے بھرپور استفادہ کرے۔ یعنی اگر لان میں گملے میں ایک پھول ہے تو اسکی خوبصورتی اور خوشبو کو محسوس کرے، جذب کرے، انجوائے کرے۔ ایک پھول کو یہ سوچ کر نظر انداز نہ کرے کہ کاش پھولوں کا پورا باغ ہوتا۔
قارئین کے سامنے شاید تمام نکتہ نظر رکھ دئیے گئے ہیں۔ ان میں سے کونسا نکتہ نظر حقیقت کے زیادہ قریب ہے، اس کو اپنائیں اور مجھے بھی مشورہ دیں کہ مجھ سے کوئی فیصلہ نہیں ہو پا رہا کہ:
میں کیہڑے پاسے جانواں
میں منجی کتھے ڈانواں

