Sunday, 14 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Rudad Aik Online Kharidari Ki

Rudad Aik Online Kharidari Ki

روداد ایک آن لائن خریداری کی

گذشتہ دنوں راقم السطور نے سردی کے پیشِ نظر بچوں کے لیے جیکٹس خریدنے کی ٹھانی تو پوری مارکیٹ چھان ڈالی مگر ناکامی نے ہر قدم پر استقبال کیا۔ ایسا لگا کہ جیسے مارکیٹ میں نہ بچوں کی پسند و ناپسند کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ ہی دستیاب کوالٹی قابل معیارہے۔ حیرت اس بات پر ہوئی کہ پانچ پانچ ہزار کی قیمت کے باوجود چیزیں قابلِ پذیرائی نہ تھیں۔ بالآخر تھک ہار کر آن لائن سرچ کی تو متعدد ویب سائٹس پر دیدہ زیب ڈیزائن معقول قیمت پر موجود دیکھے لیکن آئے روز آن لائن فراڈ کی خبریں سن کرآن لائن شاپنگ پر بھروسہ متزلزل ہو چکا تھا۔ اسی کشمکش میں دفتر کے ایک ساتھی سے مشورہ لیا تو انہوں نے بے دھڑک ویئرم ڈاٹ پی کے تجویز کیا کہ وہ خود کئی بار اس سے خریداری کر چکے ہیں اور مکمل اعتماد رکھتے ہیں۔

ا ویب سائٹ اوپن کی، بچوں کے سائز، کلر اور ڈیزائن منتخب کیے، قیمت توقع سے کم تھی اور ڈلیوری چارجز بھی مناسب۔ ایک مرتبہ پھر کہیں سے آواز آئی کہ رُک جاؤ کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں، کہیں اونچی دکان پھیکا پکوان والا معاملہ نہ ہو۔ مگر ساتھی کی گارنٹی نے حوصلہ دیا اور آرڈرکیش آن ڈیلوری کی آپشن منتخب کرتے ہوئے کر دیا۔ پھر بھی بے چینی رہی کیونکہ یہاں پارسل کھول کر چیک کرنے کے بعد رائیڈر کو رقم دینے کی اجازت نہیں تھی۔ جیسا پارسل ملے، اُسے بغیر کھولے اورسامان ویریفائی کیے بغیر پیمنٹ کرنی تھی۔ گویا قسمت پر فیصلہ ٹھہرا کہ اچھی ہوئی تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہوگا، بصورت دیگر مستقبل کے لیے سبق مل جائے گا۔

دوسرے ہی دن ایک نامعلوم نمبر سے کال ملی۔ دل میں ایک عجیب سا دھڑکا لگا کہ کہیں وہ فراڈ والی کال تو نہیں جس میں پوچھا جاتا ہے آپ کے اکاؤنٹ سے رقوم نکل رہی ہیں، او ٹی پی بتائیں۔ مگر دوسری طرف کورئیر کمپنی پوسٹ ایکس کا ڈیلیوری نمائندہ نادر تھا جس نے پیغام دیا کہ میرا پارسل مجھے ایک گھنٹے تک مل جائے گا اس لیے میں انتظار کروں۔ رائیڈر آیا اور میں نے پارسل کی ظاہری حالت کا بصری معائنہ کیا اور کہیں شک شبہ پیدا نہیں ہوا کہ یہ کھول کر دوبارہ بند کیا گیا ہو۔ پھر پیمنٹ کی اور پارسل وصول کیا۔

جب گھر جا کر پارسل کھولا تو حیرت کے ساتھ پریشانی بھی در آئی۔ پارسل کے اوپر چسپاں رسید پر نمایاں حروف میں دو پیس لکھا ہوا تھا اوردو جیکٹس آنے کی توقع تھی مگر پیکنگ میں سے صرف ایک جیکٹ بڑے بچے کی نکلی۔ وہ لمحہ عجیب تھا، ایک طرف سامان کی خوشی اور دوسری طرف چھوٹے بچے کے لیے دل میں پیدا ہونے والی تشویش اور میرا مالی نقصان۔ بچوں کی تربیت کا میرا ہمیشہ سے ایک اصول رہا ہے اور شاید یہ اخلاقیات کا تقاضا بھی ہے کہ دونوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکوں یعنی بچوں کو یکساں توجہ اور سہولت دوں تاکہ ان کے اذہان میں کبھی یہ گمان نہ پیدا ہو کہ کسی ایک سے زیادہ لاڈ پیار کیا جاتا ہے، کسی ایک کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر سکول جاتے وقت ایک بچے کو حقہ پانی کے لیے پیسے دوں تو دوسرے بچے کو بھی لازمی دیتا ہوں، خواہ ضرورت نہ بھی ہوتاکہ توازن قائم رہے اور دونوں کا دل برابر رہے۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے بڑے بچے کو بھی جیکٹ کی بُو تک نہیں لگنے دی اور منجی کے نیچے رکھ دی تاکہ چھوٹے بچے کی جو جیکٹ نہیں نکلی، اس پر کاروائی کرکے پہلے اسے منگوایا جائے اور دونوں کو ایک ساتھ جیکٹس دے سکوں۔

اب اگلا مرحلہ یہ تھا کہ پوسٹ ایکس کورئیر اور شِپر وئیرم ڈاٹ پی کے سے رابطہ کرکے بچے کی چھوٹی جیکٹ کی کمی پوری کرائی جائے۔ پارسل کھولنے کے فوراً بعد شام چھ بجے میں نے شِپر کمپنی کے تمام فراہم کردہ نمبرز پر کالیں کیں۔ کچھ بند ملے اور کچھ محض مسلسل مصروف ٹوں ٹوں کی آواز دیتے رہے۔ اگلی صبح میں دفتر سے پہلے کورئیر کمپنی پوسٹ ایکس کے ہیڈ آفس ساڑھے آٹھ بجے پہنچ گیا تاکہ معاملہ جلد نمٹ جائے۔ وہاں موجود اہلکاروں نے بتایا کہ انچارج صاحبان مسٹر امان اور شیراز ابھی تک نہیں آئے لہٰذا انتظار کی زحمت گوارا کی۔ نو بج گئے مگر کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔ بالآخر ساڑھے نو بجے موصوفین تشریف لائے اور آتے ہی رائیڈرز کو میدانِ اسکول کی اسمبلی کی طرح لائنوں میں کھڑا کرکے لیکچر شروع کر دیاجو کم و بیش آدھ گھنٹہ جاری رہا۔

مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کہ جن ڈیلیوری رائیڈرز کو بروقت اپنے اپنے علاقوں میں پہنچ کر عوام کے پارسلز تقسیم کرنے چاہئیں، انہیں دن چڑھے تک لیکچر میں بٹھائے رکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ اپنے پارسل بروقت وصول نہیں کر پاتے، خصوصاً وہ جو دفاتر کے پتوں پر بھجوائے گئے ہوں، کیونکہ دفاتر تو اکثر چار پانچ بجے بند ہو جاتے ہیں۔

لیکچر کے اختتام پر جب میں نے مسٹر امان کو اپنا مسئلہ بتایا تو انہوں نے مجھے شیراز کے پاس بھیج دیا۔ شیراز صاحب نے بڑے اطمینان سے جواب دیا کہ متعلقہ بندہ ابھی نہیں آیا، ساڑھے دس بجے تک انتظار کریں۔ مگر مجھے دفتر بھی پہنچنا تھا اور مزید انتظار میرے بس سے باہر تھا۔ میں نے کم از کم یہ گزارش کی کہ پارسل کی رقم شِپر کو منتقل نہ کی جائے، مگر جواب ملا کہ یہ ممکن نہیں۔ پھر شیراز نے کہا کہ تین بجے کے بعد آجائیے۔

میں چار بجے دوبارہ پہنچا، مگر وہاں جو معاملہ ہوا، اس نے میر ی رہی سہی امید بھی توڑ دی۔ بغیر کسی ریکارڈ کی جانچ پڑتال، بغیر کسی کاغذ کو ہاتھ لگائے، بس یونہی رٹا رٹایا ٹکا سا جواب دے دیا کہ "پارسل یہاں اوپن نہیں کیے جاتے، جیسے وصول ہوتے ہیں، ویسے ہی آگے روانہ کر دیئے جاتے ہیں، آپ شِپر سے رابطہ کریں۔ " اور ارد گرد موجود سٹاف ایسے سر ہلا رہا تھا جیسے کسی مقدس فتویٰ کی توثیق کر رہا ہو۔

مجھے یہ تاثر ملا کہ یہاں دال ہی نہیں بلکہ ساری ہانڈی کی کالی ہے۔ میرا مسئلہ حل ہونا تو درکنا ر، کسی نے یہ تک ظاہر نہ ہونے دیا کہ معاملہ سنجیدگی سے سننے کی صلاحیت و اہلیت بھی ہے، جیسے سب باہم ملے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کی سہولت کاری کر رہے ہیں، گویا جیسے یہ روز روز کا معاملہ ہو۔ میں یہ سوچ کر مایوس ہو کر واپس آ گیا کہ بقول اظہر ناسک:

انصاف طلب کرنے نکل آئے تھے لیکن
بستی کے کسی گھر سے ترازو نہیں نکلا

کورئیر کمپنی سے مایوس ہو کر میں نے شِپر وئیرم ڈاٹ پی کے سے واٹس ایپ پر پوری تفصیل شیئر کی، ای میلز بھیجیں، کالیں کیں اور جب جواب نہ ملا تو کچھ سخت جملے بھی لکھنے پڑے کہ جب سیدھی انگلی گھی نہ نکلے تو ٹیڑھی انگلی سے نکالنا پڑتا ہے۔ یہی سخت لہجہ کام کر گیا اور فوراً سنجیدگی اختیار کی گئی۔ مجھے یقین دہانی کرائی گئی کہ جیکٹ دو دن میں مجھ تک پہنچ جائے گی اور واقعی دو دن بعد دوسری کورئیر کمپنی ایم اینڈ پی کے ذریعے جیکٹ موصول ہوگئی۔ پہلی جیکٹ کی طرح یہ بھی بہترین کوالٹی کی تھی، مضبوط سلائی، معیاری زپ، تازہ ڈیزائن اور دلکش فیش میں اعلیٰ پائے کی۔ میں نے جیکٹ وصول کرکے شِپر کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے نہ صرف ممکنہ نقصان سے بچایا بلکہ وقت پر ازالہ کرکے میرا اعتماد بھی بحال کر دیا۔

یہ معاملہ جیکٹس سے زیادہ اعتماد کی بحالی کا تجربہ تھا۔ ذہن میں یہ سوال بھی گردش کرتا رہا کہ مارکیٹ میں پانچ ہزار کی چیز اگر چار ہزار کی کوالٹی بھی نہ دے تو پھر مصنوعات کا معیار اور صارف کا احترام کہاں گیا؟ اور اگر آن لائن خریداری اسی قیمت میں بہتر چیز فراہم کر رہی ہے تو پھر خوف کی دیوار کب تک رکاوٹ بنے رہے گی؟ زندگی کی ہر ضرورت جب ایک کلک پر دستیاب ہو تو سمجھ داری اور احتیاط شامل ہو تو سہولت کا یہ سفر کہیں زیادہ خوشگوار دکھائی دیتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیکنالوجی کا درست استعمال اور کاروباری دیانت داری زندگی کو واقعی آسان اور خوشگوار بنا سکتی ہے۔ تاہم آن لائن مارکیٹ اور کورئیر کمپنیاں بیک وقت جنگل بھی ہیں اور باغ بھی۔ فراڈ، کم معیار کی مصنوعات اور جعل سازی نے صارفین کا اعتماد کمزور کر دیا ہے مگر ایماندار سروسز اور معتبر کاروباری حضرات کے باعث ابھی بھی سہولت کا دروازہ کھلا ہے۔ فیصلہ صرف اور صرف سمجھداری کا ہے۔ اندھا اعتبار نقصان دیتا ہے اور بیجا بدگمانی مواقع ضائع کر دیتی ہے۔

دُور کے ڈھول سہانے یعنی فاصلے سے دیکھو تو حقیقت اور قریب سے دیکھو تو دھوکہ۔ آج جدید ڈیجیٹل دور میں بھی یہی صورتحال دہرائی جا رہی ہے۔ سکرین کے فاصلے سے سب کچھ عمدہ لگتا ہے، مگر جب ہاتھ لگتا ہے، حقیقت عیاں ہوتی ہے۔ صارف اور کاروبار کے درمیان یہ مان کا کھیل ہے، بھروسے کا کھیل ہے، اعتماد کا کھیل ہے۔ اعتماد کی بنیاد اگر مضبوط ہوتو طوفان بھی کچھ نہیں بگاڑ پاتا۔ مگر جب اعتماد جاتا ہے تو ساتھ بھی چھوٹ جاتا ہے۔

جوڑ توڑ کی اس دنیا میں
ہر چیز قابلِ مرمت ہے

سوائے اعتبار کے

Check Also

Pasandeeda Punjab, Sotela Punjab

By Asif Masood