Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Pirated Kitabon Ka Liberty Mafia

Pirated Kitabon Ka Liberty Mafia

پائریٹڈ کتابوں کا لبرٹی مافیا

رواں ماہ کے پہلے ہفتے میں راقم السطور نے امپورٹڈ کتابوں کی تلاش میں سارا لاہور چھان مارا مگر کہیں نہ ملیں۔ ایک کتاب رابرٹ گرینی کی The-48-Laws-of-Power تھی اور دوسری کین ہونڈا کی Happy-Money تھی۔ بعد ازاں ایک کتاب دوست کے کہنے پر لبرٹی مارکیٹ میں واقع کتابوں کی ایک بڑی دکان پر پہنچا۔ گراؤنڈ فلور پر مجھے زیادہ تر تسمے نما پراندے نظر آئے جو جگہ جگہ لٹکے ہوئے تھے، معلوم نہیں کہ یہ کس مقصد کے لیے ہوتے ہیں۔ بہرحال گراؤنڈ فلور بظاہر لیڈیز کے سامان پر مشتمل تھا۔ پہلے خیال آیا کہ کہیں کسی دوسری دکان میں نہ گھس گیا ہوں۔ پراندوں والے فلور پر ایک کاؤنٹر سے پوچھا تو پتہ چلا کہ کتابیں فرسٹ فلور پر ہیں۔

فرسٹ فلور کے کاؤنٹر پر کتابوں کے نام کی لکھی ہوئی پرچی دی تو مجھے انتظار کرنے کا کہا گیا۔ دس منٹ بعد ایک لڑکا دو کتابیں لیکر آیا۔ میں نے کتابوں کو دیکھا اور تسلی کر لی کہ یہ امپورٹڈ ہی ہیں۔ کاؤنٹر کلرک نے کمپوٹر سے بل نکالا جس میں دونوں امپورٹڈ کتابوں کی قیمت سات ہزار دو سو روپے بنی۔ میں نے پیسے نکالے تو کہا گیا کہ کیش کاؤنٹر نیچے گراؤنڈ فلور پر ہے اور مجھے کیش کاؤنٹر پر پہنچنے کا کہا گیا۔ میں نے کہا کہ آپ ساتھ چلیں تو جواب ملا کہ جو کسٹمرز کھڑے ہیں ان کی ان وائس بنا کر سب کی کتابوں کے لفافے لیکر پہنچتا ہوں۔

میں کیش کاؤنٹر پر پہنچا ہی تھا کہ چند منٹ بعد میری کتابوں کا لفافہ بھی کیش کاؤنٹر پر پہنچ گیا۔ کیش کاؤنٹر کی دیوار پر لکھ کر لگایا گیا تھا کہ خریدا گیا مال واپس یا تبدیل نہیں ہوگا۔ میں نے پیمنٹ کی اور لفافہ لیکر کر گھر پہنچا۔ رات کو سرسری طور پر ان کتابوں کا جائزہ لینے کے لیے لفافے میں سے کتابیں نکالیں تو میرے اوسان خطا ہو گئے کہ جو کتابیں میں نے امپورٹڈ سمجھ کر خریدی تھیں، اُن کی بجائے پائریٹڈ ورژن لفافے میں سے نکلا۔ ساری قصہ کہانی فوراََ میری سمجھ میں آ گئی کہ بُکس امپورٹڈ دکھائی گئیں لیکن لفافے میں پائریٹڈ بُکس ڈال دی گئیں جبکہ پیسے امپورٹڈ کتابوں کے وصول کر لیے اور یہی مقصد تھا مجھے نیچے کیش کاؤنٹر پر بھیجنے کا۔

اگلے روز میں واپس دکان پر گیا اور ساری صورتحال کیش کاؤنٹر کلرک کو بتائی لیکن اس نے کتابیں واپس یا تبدیل کرنے یا جینوین ورژن دینے سے انکار کر دیا اور مجھے بار بار دیوار پر لکھے ہوئے کہ خریدا گیا مال واپس یا تبدیل نہیں ہوگا، کی طرف اشارہ کرکے بتایا گیا اور ساتھ ہی کتابوں کی کمپیوٹرائزڈ رسید پر بھی یہی لکھا ہوا پڑھنے کو کہا گیا۔ میں نے شائستگی سے کہا کہ اول یہ کہ جو کیش کاؤنٹر کی دیوار پر لکھا ہوا ہے یہ بعد میں دکھائی دیتا ہے جب کتابیں خرید کر فرسٹ فلور سے گراؤنڈ فلور پر آ جائیں لہذا اس لکھے ہوئے کی کوئی اہمیت و وقعت نہیں ہے۔

دوم یہ رسید پر کتابیں واپس یا تبدیل نہ ہوں گی جو لکھا ہوا ہے وہ بھی بے جان ہے کیونکہ یہ رسید تب پرنٹ ہوتی ہے جب کتابیں خرید لی جائیں۔ لیکن کاؤنٹر کلرک ذرا بھی ٹس سے مس نہ ہوا بلکہ اس میں مزید اعتماد در آیا۔ جس سے یہی لگا کہ دکاندار دو نمبری کرکے گورنمنٹ کو بھی کھلاتے ہیں اور ایف بی آر کو بھی اور شاید یہی وجہ ہے کہ کتابوں کی ایسی دکان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاتی وگرنہ کسٹمر کو مطمئن کرنا دکان چلانے کی اولین شرط ہوتی ہے۔ بہرحال جب بات بن نہ پائی تو میں نے کتابیں کاؤنٹر پر پٹختے ہوئے یہ کہہ کر دکان سے باہر نکل آیا کہ بوگس کتابیں آپ رکھ لیں اور ان سے کسی اور غریب، حق حلال کی کمائی والے کو دھوکہ دیکر سیکنڈوں میں ہزاروں روپے اینٹھ لینا۔

دیکھا جائے تو پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں کتابوں کے پائریٹڈ ورژن سرعام فروخت ہو رہے ہیں لیکن کتابیں بیچنے والوں کے خلاف کوئی قانونی کاروائی کبھی دیکھنے سُننے میں نہیں آئی۔ ایک عام قاری بھی کتابوں کی مارکیٹ میں جا کر جائزہ لے تو دیکھ سکتا ہے کہ پاکستان میں دستیاب ستر فیصد کتابیں پائیریٹڈ یعنی جعلی اور چوری کی کتابیں فروخت کی جا رہی ہیں۔ ایسی کتابیں پبلشر اور مصنف سے باقاعدہ اجازت کے بغیر چھاپی جاتی ہیں اور اس ہوشیاری چالاکی سے چھاپی جاتی ہیں کہ اصلی اور نقلی کتاب میں فرق کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے خصوصاََ جب چند منٹ میں کتاب خریدنی ہو۔ پائریٹڈ کتابیں فروخت کرکے پبلشرز اور مصنفین کو مالی نقصان پہنچایا جاتا ہے اور ان کے حقوق پامال کیے جاتے ہیں۔

پاکستان میں سوائے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے کسی بھی غیرملکی اشاعتی ادارے کی کوئی شاخ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بُک سیلر مافیا غیر ملکی کتابوں کے پائریٹڈ ورژن چھاپ کر مہنگے داموں بیچ رہا ہے یہاں تک کہ اس کے لیے خوبصورت ملائم صفحہ استعمال کیا جاتا ہے تاکہ خریدار کودھوکہ دیکر کتاب کی غیرملکی قیمت وصول کی جا سکے جیسا کہ لبرٹی کی بُک شاپ میں میرے ساتھ ہوا۔ جس طریقے سے کتابوں کی دکانوں کے مالکان دو نمبری کرکے راتوں رات امیر ہوتے جا رہے ہیں اس نکتہ نظر سے تو یہ مالکان ہمیشہ چاہتے ہوں گے کہ غیرملکی پبلشنگ ادارے پاکستان میں اپنی شاخیں نہ کھولیں تاکہ ان کی دو نمبری چلتی رہے، غریب طالبعلموں اور قارئین کو لوٹتے رہیں اور لوٹ کے مال سے محل ماڑیاں ڈال کر فرنٹ پر ٹائلوں پر ماشا اللہ لکھوا کر محلہ داروں کو دکھائیں۔

عالمی ادارے پاکستان بارے جو تخمینے لگاتے ہیں وہ کسی تعصب کی پاداش میں نہیں بلکہ حقائق کو دیکھ کر ہی لگاتے ہیں۔ مثلاََ حالیہ دنوں میں کرپشن پرسیپشن انڈیکس (CPI) کی عالمی فہرست میں دو درجے کمی کے بعد 180 ممالک میں پاکستان 135 ویں نمبر پر آ گیا ہے اور CPI میں پاکستان کو اسکور 100 میں سے 27 ہے جو کہ گذشتہ سال 25 تھا۔ لبرٹی جیسے بُک سیلرز، لینڈ مافیا اور تاجر طبقہ کی دو نمبریوں کی فہرست اگر تیار کی جائے تو CPI کو اپنے نتائج کو ری چیک کرنا پڑ ئے گا۔

اس ری چیک کی نوبت شاید اس لیے نہیں آتی CPI دیکھتا ہے کہ جمعہ کی نماز میں دکاندار شٹر ڈاؤن کر دیتے ہیں۔ دکانوں ہی میں محفل میلاد کا انعقاد کرتے ہیں۔ دکانوں میں جگہ جگہ آیات و احادیث نمایاں جگہ پر آویزاں کی ہوتی ہیں۔ یہ دکاندار مافیا اپنی کرپشن، دھوکہ دہی، لوٹ مار اور فراڈ کو مذہب کی چھتری تلے چھپاتا ہے۔ کاروبار کو مذہب سے نتھی کرکے فخر کرتا ہے۔ کاروبار میں منافع کی کوئی حد مقرر نہیں کرتا۔ حالانکہ اسلام میں صرف اتنا منافع جائز ہے جس سے ضروریات زندگی خوش اسلوبی سے پوری ہو سکیں۔ جبکہ یہ تاجر مافیا ہزار روپے کی پائریٹڈ کتاب کو پانچ ہزار کی فروخت کرکے شکر الحمد اللہ کی گردان الاپتا ہے۔ المختصر منافقت اس ڈھنگ سے کاروباری طبقہ کرتا ہے کہ CPI بیچارا یہ سوچ کر کرپشن انڈیکس کو ری۔ چیک نہیں کر پاتا کیونکہ وہ سمجھ نہیں پاتا کہ بقول پروین شاکر:

شجر کو سبز قبا کو دیکھ کر یہ اُلجھن ہے
کہاں پہ رنگِ نمو ہے کہاں پہ زہر کا رنگ

قصہ مختصر یہ کہ ہمیں کوئی بھی کتاب خصوصاً غیرملکی کتاب خریدنے سے قبل اچھی طرح سے چھان پھٹک کر لینی چاہیے۔ کتاب کو اپنی آنکھوں کے سامنے کیش کاؤنٹر تک لے جایا جائے۔ اصلی اور نقلی میں فرق کا علم ہونا چاہیے۔ عموماً اصلی کتاب کا صفحہ اعلیٰ اور ملائم ہوتا ہے، پرنٹنگ بہت واضح اور شفاف ہوتی ہے، کتاب کا وزن جسامت کے لحاظ سے ٹھیک ٹھاک ہوتا ہے۔ جبکہ پائریٹڈ کتاب کا صفحہ زیادہ تر ہلکی کوالٹی کا لگایا جاتا ہے، اس کی پرنٹنگ بھی واضح نہیں ہوتی، کئی حروف بہت مدہم یا کئی بہت گہرے ہوتے ہیں، ایسی کتاب کو وزن زیادہ تر اتنا ہی ہوتا ہے جتنا کہ ایک پھول کا۔ امپورٹڈ کتابیں خریدنے بچوں کو ہرگز نہ بھیجیں بلکہ خود جائیں تاکہ ٹھگے جانے کا خطرہ نہ رہے۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali