Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Pasoori Badshah Aur Be Yaar O Madadgar Awam

Pasoori Badshah Aur Be Yaar O Madadgar Awam

پسوڑی بادشاہ اور بے یار و مددگار عوام

معروف برطانوی فلاسفر ٹامس ھوبز لکھتے ہیں"انسان کی فطرت میں جھگڑے کی تین بنیادی وجوہات ہوتی ہیں۔ پہلی مقابلہ بازی، دوسری بزدلی، اور تیسری شان و شوکت۔ پہلی وجہ انسانوں کواپنے فائدے کی وجہ سے لڑنے پر مائل کرتی ہے، دوسری وجہ تحفظ حاصل کرنے کی خواہش، جبکہ تیسری وجہ معروف ہونے کی خواہش۔ پہلا مقصد حاصل کرنے کے لیے تشدد استعمال ہوتا ہے تاکہ دوسرے انسانوں، اُن کے بیوی بچوں اور املاک کا مالک بنا جا سکے، دوسرے مقصد کے تحت اپنا دفاع کیا جاتا ہے اور جھگڑے کی تیسری وجہ کے تحت اختلاف رائے سے کام لیا جاتا ہے"۔

جب ہم باریک بینی سے سن بیس سو اٹھارہ سے لیکر پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے طول پکڑتے نتائج تک کا منطقی عینک سے جائزہ لیں اور انتخابات کے ایک ہفتہ بعد کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ کا انتخابات میں دھاندلی کا اعترافی بیان دیکھیں جس میں انہوں نے پریس کانفرنس کرکے براہ راست کہا ہے کہ انتخابات کی رات کو راولپنڈی سے قومی اسمبلی کی سیٹوں سے ہارے ہوئے تیرہ لوگوں کو جتوایا۔ نیز موصوف نے چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس آف پاکستان پر بھی الزامات عائد کیے ہیں، تو ٹامس ھوبز کی بات ہمیں عین سولہ آنے درست معلوم ہوتی ہے۔

تحریک عدم اعتماد سے لیکر الیکشن تک پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے چیف الیکشن کمشنر پر تابڑ توڑ الزامات عائد کیے اور ان سے استعفیٰ طلب کرتے رہے۔ اسی طرح عمران خان کے ہر بیان کی ابتدا جنرل باجوہ جبکہ انتہا چیف جسٹس فائز عیسٰی کے خلاف غصہ اگلنے سے ہوتی رہی۔ جبکہ موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی پی ٹی آئی کی حکومت میں زیرِ عتاب رہے۔ سپریم کورٹ نے بلا کا انتخابی نشان بحال کرنے کے لیے پی ٹی آئی کی اپیل کو مسترد کیا۔ تحریک انصاف سے بلا کا نشان واپس لے لیا گیا تاکہ بیٹنگ کرنے کا سوال ہی پیدا نہ ہو۔ کمشنر کی پریس کانفرنس میں انہی لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جو ایک سال پہلے سے پی ٹی آئی کے نشانہ پر تھے۔ یہی وہ حالات ہیں جن سے لیاقت علی چٹھہ کے الزامات سے تحریک انصاف کی جھلک نمودار ہوتی ہے۔

چونکہ پاکستانی عوام اپنی زندہ دلی اور ضد کی وجہ سے ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکال ہی لیتے ہیں، اس لیے پی ٹی آئی نے آٹھ فروری کو وکٹوں کو ہی بلا بنا کر چھکے چوکوں کی برسات کر دی۔ چھکے چوکوں کے سٹروک جب باؤنڈری کے قریب پہنچنے شروع ہوئے تو فیلڈرز نے انہیں روکنے کے لیے تن من دھن سے سخت محنت کی یہاں تک کہ گراؤنڈ سے باہر گرنے والے چھکوں کو بھی قابو کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ تھرڈ امپائر کے فیصلے کرنے کی وجہ سے میچ نے طوالت پکڑی وگرنہ ون ڈے میچ اگر شام پانچ بجے شروع ہو تو رات ایک دو بجے تک نتیجہ دے ہی دیتا ہے۔ تماشائی اپنے تئیں مختلف اندازے، چہ میگوئیاں کرکے طوالت کی اصل وجہ جاننے کی کوشش کرتے ہوئے تھک چور ہو کر واپس گھروں کو پلٹنے لگے تاکہ دال دلیہ کا سامان کرنے کی طرف توجہ دیں سکیں۔ جونہی بادل چھٹنا شروع ہوئے راولپنڈی کے کمشنر آفس میں براجمان تماشائی نے ایک اور شوشہ چھوڑ کر مندمل ہوتے زخموں پر نمک چھڑک کر پھر سے تازہ کر دیا۔

اس میں کوئی شک و شبہ والی بات نہیں رہ گئی کہ امسال ہونے والے عام انتخابات کے حیران کن، ناقابل یقین، غیر متوقع اور متنازع نتائج نے ملکی تاریخ کے تمام الیکشنز اور ریفرنڈمزکے نتائج کو بھی مات دے دی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انتخابی نتائج کے آفٹر شاکس کا سلسلہ جاری ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انتخابات کے انعقاد کو آٹھ دن گزر چکے ہیں، تہلکہ خیز انکشافات کا سلسلہ رُک کیوں نہیں رہا؟ اسی طرح کمشنر راولپنڈی کا ایک ہفتہ بعد انکشافات کرنے کا مطلب و مقصد کیا ہے؟ کیا موصوف تحریک انصاف کے کہنے پر الزامات کی بوچھاڑ کر رہے ہیں؟ ان انکشافات سے تکڑی کا کون سا پلڑا جُھکے گا؟ کس جماعت کو فائدہ پہنچے گا؟ کون سی نادیدہ طاقتیں اسے کیش کرانا چاہیں گی؟ اور اہم سوال یہ کہ جھرلو کا موسم تھم کیوں نہیں رہا، کیوں طول پکڑتا جا رہا ہے؟

میں جب سال ڈیڑھ سال بعد خوشی غمی کے موقع پر لائلپور میں واقع اپنے پنڈ جاتا ہوں تو پنڈ سے ڈھائی تین کلومیٹر پر واقع ڈیرے جانے کا راستہ بھول جاتا ہوں۔ کیونکہ اس عرصہ میں کہیں گھاس اُگ آتی ہے، کہیں کھالہ بن جاتا ہے اور کہیں جھاڑیاں اُگ آتی ہیں۔ راستہ ڈھونڈنے کی غرض سے ارد گرد دیکھتا ہوں اور جونہی فصلوں کے درمیان میں لکیر نما باریک سی ڈنڈی پر نظر پڑتی ہے، پورے یقین کے ساتھ اس پر سے ہوتا ہوا ڈیرے پہنچ جاتا ہوں۔ ظاہر ہے کہ پگڈنڈی اسی لیے نمودار ہوئی کہ اس پر سے لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔

ہماری دانست میں کمشنر راولپنڈی نے بھی تہلکہ خیز پریس کانفرنس پگڈنڈی دیکھنے کے بعد ہی کی ہے۔ پرویز خٹک، جہانگیر ترین، محمود خان اور دیگر کئی امیدواروں کی شکست کو جانے کا راستہ ظاہر کرنے والی یہ پگڈنڈی ہے۔ گویا کمشنر لیاقت علی چٹھہ نے حالات کو دیکھ کر بھانپ لیا کہ ہوا کا رُخ کس طرف جا رہا ہے۔ ہوا کے اسی رخ کی طر ف قدم اٹھانے کے لیے پریس کانفرنس کی آڑ لی گئی تاکہ کپتان کی آشیر باد حاصل کرکے ریٹائرمنٹ کے بعد کی مصروفیات کا بندوبست کیا جا سکے۔ حقیقیت یہی ہے کہ اکثر ملازمین ریٹائرمنٹ کے بعد کی مصروفیات کو دوران سروس ہی طے کر لیتے ہیں۔ یہ قیاس کرنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ موصوف نے سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے پریس کانفرنس کا عَصا پکڑا ہو۔ تعجب ہے کہ بیوروکریسی ذاتی مفادات کی خاطر ملک و عوام کی بہتری کو درخور اعتنا نہیں سمجھتی۔ یہی بنیادی وجہ ہے کہ پاکستان میں غریب عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ چکی کے دو پاٹوں میں یہ پسے ہی چلے آ رہے ہیں۔ جب اوکھے سوکھے ہو کر طاقت مجتمع کرکے چکی سے باہر نکلنے کی کوشش کریں تو حب الوطنی، نظریہ پاکستان، ہم کوئی غلام ہیں، ریاست مدینہ، اسلامائزیشن جیسے جذبات ابھارنے والے سلوگنز کو چکی کی دیواروں پر رکھ دیتے ہیں۔

کمشنر راولپنڈی کی پریس کانفرنس کے پس منظر کو "نہ کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے" اور ملک کے "کرتا دھرتا" کو اشتعال دلانے کے تناظر میں دیکھے بغیر تصویر کا امیج پوری طرح نمایاں نہیں ہوگا۔ اخبارات، رسائل، سوشل اور سائبر میڈیا کسی ایک کو بھی اٹھا کر صفحہ گردانی کر لی جائے تو بہت جلد نظر آ جائے گا کہ سیاست میں گالم گلوچ، ناچ گانا، نفرت، عدم برداشت، جذباتیت، اشتعال انگیزی، مذہبی چورن، ضد، دھرنا بازی، انتشار پسندی، اور میں نہ مانوں کا غیر سیاسی اور لایعنی کلچر کس جماعت نے روشناس کروایا اور اسے راتوں رات آسمانوں تک پہنچایا۔ ایسی پارٹی، ایسا سربراہ جسے سوائے کرسی کے کچھ اور نظر ہی نہ آتا ہو، و ہ ملک و عوام کا خیر خواہ نہیں ہو سکتا اور یہی چاہے گا کہ اگر کرسی نہیں مل رہی تو پھر کسی دوسرے کو بھی نہ ملے۔ مار شل لاء کے حالات پیدا کرنا، اس کا بلواسطہ یا بلاواسطہ حصہ دار ہونا غیر سیاسی، غیر جمہوری اور آمرانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے اور ساتھ ہی لارڈ ڈلہوزی کی بھی جس نے کہا تھا کہ "ہماری بہترین حکمت عملی یہ ہونی چاہیے کہ ایک قوم کو دوسری قوم سے اور ایک فرقہ کو دوسرے فرقہ سے ہمیشہ دست و گریبان رکھیں"۔

ملک کے معاشی، سیاسی، داخلی اور خارجی حالات کے پیش نظر سیاستدانوں کو کم از کم وقتی طور پر ہی باہم مل بیٹھنا چاہیے اوربے یارو مددگار، مہنگائی کے جن کے پہاڑ تلے دبے، گیس اور بجلی بلوں کی ادائیگی کرنے سے قاصر، قوت خرید سے معذور اورفاقوں کی نوبت پر پہنچی ہوئی عوام کی طرف سیاسی جماعتوں کو توجہ دینے کے لیے ایک پیج پر آنا چاہیے، انہیں بھوک اور بیماری سے مرنے سے بچانے کے لیے ایک ہو کرفوری ریلیف دینے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں کہ عوام ہیں تو ہی ان کی سیاست چلنی ہے۔ عوام ہی کے ساتھ پاکستان کا وجودہے بالکل جیسے افراد ہی کے ساتھ خاندان ہے اور خاندانوں کے ساتھ برادری ہوتی ہے۔

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

Check Also

Ghair Yahudion Ko Jakarne Wale Israeli Qawaneen (2)

By Wusat Ullah Khan