Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Mutala Kutub Ke Fawaid

Mutala Kutub Ke Fawaid

مطالعہ کتب کے فوائد

اگر مجھے دنیا کا سب سے بڑا بادشاہ بنا دیا جائے، میرے رہنے کے لیئے نہایت خوبصورت محلات اور باغیچے ہوں، کھانے کے لیئے نفیس اور لذیذ کھانے اور پہننے کے لیئے خوبصورت کپڑے مجھے ملیں، سواری کے لیئے اعلٰی قسم کی بگھیاں اور خدمت کے لیئے سینکڑوں نوکر چاکر میرے لیے مہیا کئے جائیں، لیکن ساتھ ہی یہ قید لگا دی جائے کہ میں کتابیں نہ پڑھوں تو میں اس شرط پر بادشاہ بننے سے قطعاََ انکار کردوں۔

یہ الفاظ تھے برطانیہ کے مشہور ادیب لارڈ میکالے کے جو جاہ و امارت اور مرتبہ میں بھی کچھ کم نہ تھے۔ ان الفاظ سے کتب بینی کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کسی مفکرنے بہت خوب کہا ہے کہ کتابیں نوجوانی میں رہنما ہوتی ہیں، بڑھاپے میں تفریخ اور تنہائی میں رفیق۔ یہ زندگی کو گراں بار نہیں ہونے دیتیں۔

کتابیں دنیا کی ان چند نعمتوں میں سے ہیں جو باوجود اس قدر قیمتی اور مفید ہونے کے تمام نوع انسان کی مشترکہ وراثت ہیں۔ یہ کتابیں ہی ہیں جن کی بدولت زمانہ گذشتہ اور زمانہ حال کے حکماء کے انمول موتی اور ادباء کے اچھوتے نکات اور شعرا کے پاکیزہ جذبات نہایت نفیس اور عمدہ الفاظ میں محفوظ رہتے ہیں۔

سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ کتابیں ایک ایسی وراثت ہے جس میں سے امیر، غریب، طاقتور، کمزور، آقا، غلام سب اپنی اپنی ہمت و استعداد و شوق و ذوق کے مطابق بلا امتیاز حصہ لے سکتے ہیں۔ کتابوں کی وساطت سے ہم روئے زمین کے بڑے بڑے مصنفوں، فلسفیوں اور سیاستدانوں کی صحبت سے گھر بیٹھے بٹھائے مستفیض ہو سکتے ہیں اور ان سے مشورہ بھی لے سکتے ہیں، اس مشورے کے لیے نہ تو ہمیں کوئی بڑی فیس ادا کرنی پڑتی ہے اور نہ ان سے فائدہ و استفادہ حاصل کرتے وقت کوئی مشکل اٹھانی پڑتی ہے۔

کتابوں کو اکثر اوقات دوستوں سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ لیکن سچ پوچھیں تو یہ دوستوں سے بدرجہا بہتر ہیں۔ دوستوں کی غداری اور بے وفائی کا خوف ہر وقت دامن گیر رہتا ہے، ان کی جدائی کے صدمے سے دل کاپنتا ہے لیکن کتابیں تنگی، فراخی، مصیبت اور خوشی، ہر حال میں ہمارا ساتھ دیتی ہیں اور جب غم کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں، جب دنیا کی بے وفائی سے دل بیزار ہو جاتا ہے اور مُخلص دوست بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملتا تو ایسے قیامت خیز دور میں صرف کتاب ہی ہوتی ہے جو دل کو حوصلہ بخشتی ہے۔ بقول شاعر:

جہاں میں کوئی نہیں ہے اپنا
یہ مَیں نے جانا یہ مَیں نے پرکھا

سہارے بے آسرا ہیں سارے
سہارا تیرے سوا نہیں ہے

کتابیں ایسی نعمت ہیں کہ دنیا کی کوئی اور نعمت ان کا بدل نہیں ہو سکتی کیوں کہ ان میں ایسی طاقت ہے جو مفلس کو مفلسی سے اور بدبخت کو بدبختی سے نجات دلا سکتی ہے۔ کتابوں کے طفیل بیمار، بیماری کی مصیبت کو اور غمگین، غم کی اذیت کو بھول جاتا ہے۔ کتابیں تنہا آدمی کے لیئے رفیق ہوتی ہیں اور ان کی بدولت مایوس آدمی کی مردہ آرزو زندہ ہوتی ہے، ڈھارس بندھتی ہے اور لاچار و بے بس کو سہارا ملتا ہے۔ کتابیں دل کو پاکیزہ خیالات و جذبات سے بھر دیتی ہیں۔ سبق آموز سوانح عمریوں کے مطالعہ سے تشکیل سیرت پر نہایت گہرا اثر پڑتا ہے۔ سوانح عمریاں اعلٰی نمونے پیش کرکے ہمارے لئے مشعل راہ بناتی ہیں اور اپنے حکمت و منطق افروز اقوال سے ہمیں کام کرنے پر ابھارتی ہیں، موٹیویٹ کرتی ہیں، آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کرتی ہیں۔

کتابیں اپنا اثر صرف انفرادی زندگی پر ہی نہیں ڈالتیں بلکہ قوموں کی تاریخ کو بھی اپنی زبردست طاقت سے بدل دیتی ہیں۔ رؤسو اور والٹیر کی تصانیف نے اہل فرانس کے دلوں میں حریت و مساوات کے ایسے خیالات بھر دیئے کہ انہوں نے صدیوں کی، شخصی سلطنت، کو تہہ و بالا کرکے ملک میں ایک عظیم انقلاب برپا کر دیا جسکے اثرات یورپ کے تمام ممالک میں پھیلے۔ کارل مارکس، ماؤزے تنگ، لینن کی انقلابی تصانیف نے پسے ہوئے مزدور طبقہ کو اپنے کندھوں پر کھڑا ہونا سکھایا۔ جبکہ حالی اور اقبال کی شاعری نے مردہ قوم کو زندہ کرنے میں مسیحائی کا کام کیا۔

جس طرح اعلٰی اخلاق اور پاکیزہ سیرت بزرگوں کی صحبت میں بیٹھنے سے طبیعت پر اچھا اثر پڑتا ہے اور برے آدمیوں کے پاس بیٹھنے سے بھٹکنے کا خطرہ ہوتا ہے، اسی طرح اچھی اور بری کتابیں بھی اپنا اثر کیے بغیر نہیں رہتیں، اس لیے انتخاب کتب میں بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ بعض کتابوں کا پڑھنا صرف وقت ضائع کرنا ہوتا ہے۔ بعض کتابوں کا اثر زہر قاتل کی طرح چپکے چپکے دل میں گِھر کر جاتا ہے اور بالآخر انسانیت، روحانیت اور اخلاقیت کی موت کا باعث بنتا ہے۔ برعکس اسکے، عمدہ اور اچھی کتابوں کے پڑھنے سے انسان کا دل سچے جذبات سے ابلنے لگتا ہے، اسکی طبیعت بڑے کام کرنے کے لیئے ابھرتی ہے، اس میں استقلال و اولعزمی و جوش و جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

مطالعہ کتب میں کوئی نہ کوئی مقصد پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہونا چاہیئے۔ کیونکہ بغیر کسی مقصد کے پڑھنا فضول ہی نہیں مضر بھی ہے۔ وجہ یہ کہ جس قدر ہم بغیر کسی مقصد کے پڑھتے ہیں اس قدر ہم بامعنی مطالعہ سے دور ہو جاتے ہیں۔ بعض لوگ محض تفریح طبع کے لیے پڑھتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ بعض اوقات دل بہلانے کے لیئے اچھے ناولوں کا پڑھنا نقصان دہ نہیں ہوتا، بلکہ تاش اور لُڈو وغیرہ کھیل کر وقت ضائع کرنے کی نسبت کوئی اچھا سا ناول پڑھ لینا ہزار درجہ بہتر ہوتا ہے۔ لیکن مطالعہ کا سب سے مفید اور اعلٰی مقصد معلومات حاصل کرنا ہوتا ہے۔ جب ہم پیدا ہوتے ہیں تو دنیا کے تجربات اور معلومات سے بالکل کورے ہوتے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ بتدریج کتابوں کے پڑھنے سے ہم نہایت قلیل عرصہ میں ان چیزوں سے واقف ہو جاتے ہیں جو انسان نے صدیوں کی کوشش کے بعد حاصل کی ہیں۔

مطالعہ کا ایک اور مقصد دماغ کی خوابیدہ قوتوں کو بیدار کرنا ہوتا ہے۔ عمدہ کتاب کے مطالعے سے ہم پر اپنی حقیقت منکشف ہو جاتی ہے اور ہم سمجھنے لگتے ہیں کہ ہم بھی کچھ کر سکتے ہیں۔ مطالعہ ان خیالات کو ہمارے دل سے باہر نکال لاتا ہے جن کے متعلق ہمیں وہم و گمان بھی نہ تھا کہ ہمارے اندر موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر اوقات ہم سوچتے ہیں کہ کتاب ہمارے ان خیالات کی ترجمانی کر رہی ہے جو ہم میں پہلے سے موجود تھے مگر ہم ان کے اظہار سے قاصر تھے۔

ہر چیز کی زیادتی نقصان دہ ہوتی ہے، کے مصداق کتابوں کا کثرت سے پڑھنا کچھ زیادہ مفید نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ جو کچھ پڑھا جائے اس کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے، اس پر غور و فکر کرنا چاہیئے کہ وہ دماغ کا جزو بن جائے۔ کتابیں دماغ کے ساتھ وہی تعلق رکھتی ہیں جو ورزش کے آلات جسم کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ ورزش کرنے کے بعد آلات کو اٹھا کر ہر جگہ نہیں لے جا سکتے بلکہ وہ طاقت اور قوت جو جسم حاصل کر لیتا ہے، ہمارے ساتھ رہتی ہے۔ اسی طرح کتابیں بھی دل و دماغ کو ایک طاقت بخشتی ہیں، لیکن ان سے اس طرح مستفید ہونا چاہیئے کہ ان کو ہر ایک جگہ ساتھ نہ لے جانا پڑے۔ کہنے کا مقصد یہ کہ: "کھاؤ اونا جِناں ہضم کر سکو، پڑھو اونا جِنا جذب کر سکو"۔

Check Also

Safar e Hayat Ke 66 Baras, Qalam Mazdoori, Dost Aur Kitaben

By Haider Javed Syed