Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Mufakreen Ki Nazar Mein Jang

Mufakreen Ki Nazar Mein Jang

مفکرین کی نظر میں جنگ

چھ مئی کو بھارت کے پاکستان پر میزائل حملوں کے جواب میں پاکستان کی بھرپور جوابی کاروائی کے بعد سے اگرچہ امن و امان ہے مگر دونوں ملکوں میں بیان بازی کی جنگ بغیر کسی وقفہ کے آج تک جاری ہے۔ نریندر مودی اپنے حملوں کی حماقت کو لیاقت دکھانے کے لیے بھارت میں عوامی اجتماعات سے خطابات کر رہا ہے اور پاکستان کے خلاف بیان بازی کا کوئی موقعہ ضائع نہیں جانے دے رہا۔

مودی کے بیانات پر پاکستانی سیاستدان اور آئی ایس پی آر بھی موقع پر اُسی طرح ردعمل دے رہے ہیں جس زبان و لب و لہجہ میں مودی بیانات داغ رہا ہے۔ یہ باعث تشویش ہے کہ مودی اپنی سیاست کی بقاء کے لیے کروڑوں عوام کو موت کی راہ کی طرف دھکیل رہا ہے اور اس طرز عمل سے مودی غیر سنجیدہ سیاستدان ہونے کا بھارتی عوام میں تاثر پیدا کر رہا ہے جو کہ توہین سیاست کے ذمرے میں آتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ زبان تلوار سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ آگ اُگلتے بیانات خدانخواستہ دونوں ملکوں کو کسی بڑی جنگ میں دھکیل سکتے ہیں۔ اس لیے ایسے مواقع پر تحمل، بردباری اور برادشت کا مظاہرہ کرنا اشد ضروری ہوتا ہے۔ برف پگھلانے کے لیے کسی تھرڈ پارٹی کو میدان میں آنا چاہیے اور ساتھ ہی جنگ کی تباہ کاریوں، اس کے فلسفہ، اس کے نتائج کو تصور میں لانے سے بھی معاملہ ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے اگر نیت نیک ہو۔ پاکستان اور بھارت کے مابین رواں حالات کے پیش نظر آج ہم عالمی مفکرین کے جنگ بارے تاثرات بیان کریں گے تاکہ قارئین جنگ کی فلاسفی، اس کی وجوہات، نقصانات، مقاصد بارے جان سکیں اور دونوں ملکوں کی حکومتوں کی پردے کے پیچھے پالیسی تک پہنچنے کی کوشش کر سکیں۔

"جنگ ایک معاشرے کے افراد کی جانب سے دوسرے معاشرے کے افراد کے خلاف مہلک ہتھیاروں کے منظور شدہ استعمال کا نام ہے۔ اسے تربیت یافتہ افراد ٹیموں کی صورت میں انجام دیتے ہیں اور ایک علیحدہ پالیسی ساز گروپ ان کو ہدایات دیتا ہے، جبکہ لڑائی میں حصہ نہ لینے والی آبادی مختلف طریقوں سے اُن کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ عموماً، لیکن لازمی طور پر نہیں، جنگ باہم دگر ہوتی ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا معاشرہ ہو جس نے اپنی معلوم تاریخ کے دوران کم از کم ایک جنگ نہ لڑی ہو اور کچھ نے تو نسل در نسل مسلسل جنگیں لڑی ہیں"۔ (انتھونی والیس)

"چنانچہ انسان کی فطرت میں ہم جھگڑے کی تین مرکزی وجوہ پاتے ہیں۔ اول، مقابلہ بازی، دوم بُزدلی، سوم، شان و شوکت۔ پہلی وجہ انسانوں کو فائدے کی خاطر لڑنے پر مائل کرتی ہے، دوسری وجہ تحفظ کی خواہش اور تیسری وجہ ناموری کی خواہش کا محرک ہے۔ پہلا مقصد حاصل کرنے کے لیے تشدد استعمال ہوتا ہے تاکہ دوسرے انسانوں، اُن کی بیویوں، بچوں اور مویشیوں کا مالک بنا جا سکے، دوسرے مقصد کے تحت اپنا دفاع کیا جاتا ہے اور جھگڑے کی تیسری وجہ کے تحت ایک لفظ، ایک مسکراہٹ، ایک اختلاف رائے سے کام لیا جاتا ہے"۔ (ٹامس ہوبز)

"بھلہ لوگ کیوں جنگ نہیں چاہتے۔ یہ بات قابلِ فہم ہے لیکن آخر ملک کے رہنما ہی تو پالیسی کا تعین کرتے ہیں اور عموماً لوگوں کو بھی اندر گھسیٹ لینا ایک بہت سادہ معاملہ ہوتا ہے، چاہے یہ جمہوریت ہے، یا فاشٹ ڈکٹیٹر شپ یا کوئی پارلیمنٹ، یا ایک کمیونسٹ مطلق العنانیت۔ لوگوں کو ہمیشہ رہنماؤں کی حمایت میں باہر لایا جا سکتا ہے۔ بس اُنہیں حملہ ہونے کی اطلاع دینے اور امن پسندوں کو جذبہء حب الوطنی کی کمی کا شکار قرار دے کر مسترد کرنے کی ہی ضرورت ہوتی ہے"۔ (ہرمن گورئنگ)

"اب آپ کے پاس صرف یہ خوف ناک احساس باقی ہے کہ جنگ کچھ بھی نہیں سلجھاتی۔ کہ جنگ جیتنا بھی اسے ہارنے جتنا تباہ کن ہے"۔ (اگاتھا کرسٹی)

"آخر جنگ ایک ہمہ گیر کج روی ہی تو ہے۔ ہم سب اس سے داغ دار ہیں، اگر ہم اس کج روی کا تجربہ براہ راست نہ کر سکیں تو جنگ کی کہانیاں پڑھنے میں وقت گزارتے ہیں، جنگ کی پورنو گرافی، یا فلمیں دیکھتے ہیں، جنگ کی بلیو فلمیں، یا عظیم کارناموں کا تصور کرکے اپنی حسیات کو تسکین دیتے ہیں، جنگ کی مُشت زنی"۔ (جان رائے، دی کسٹرڈ بوائز)

بڑی طاقتیں

تم ہی تجویز صلح لاتے ہو
تم ہی سامانِ جنگ بانٹتے ہو

تم ہی کرتے ہو، قتل کا ماتم
تم ہی تیر و تفنگ بانٹتے ہو

(ساحر لدھیانوی)

انسان کی ساری تاریخ میں مسلسل گونجتی رہنے والی آواز طبلِ جنگ کی تھاپ ہے۔ (آرتھر کوئسٹلر)

"جب دو کُتے آپس میں لڑتے ہیں تو کوئی یہ نہیں کہتا کہ وہ کسی اعلیٰ نصب العین کی خاطر برسرِ پیکار ہیں۔ محض جبلت ہی انہیں لڑنے پر اُکساتی ہے۔ وہ اس لیے لڑتے ہیں کہ انہیں ایک دوسرے کی بُو ناگوار گزرتی ہے"۔ (برٹرینڈ رسل)

"تم پوچھتے ہو کہ تمہاری پالیسی کیا ہے؟ میں کہتا ہوں میری پالیسی سمندر، زمین اور فضا کے راستے جنگ کرنا ہے۔ خدا کی ودیعت کردہ تمام تر طاقت اور اپنی تمام قوت کے ساتھ تاریخ کی بد ترین اور نہایت خوف ناک مطلق العنانیت کے خلاف جنگ لڑنا۔ یہ ہے ہماری پالیسی۔ تم پوچھتے ہو کہ میرا مقصد کیا ہے؟ میرا جواب صرف ایک لفظ ہے، فتح۔ ہر قیمت پر فتح، تمام دہشت کے باوجود فتح، فتح، چاہے راستہ کتنا ہی طویل اور مشکل ہو۔ کیونکہ فتح کے بغیر کوئی بقا نہیں"۔ (ونسٹن چرچل)

"جو لوگ جنگ پسند نہیں ہیں انہیں وحشی نسلوں سے ودیعت شدہ جبلتوں کے تسکین کے لیے بے ضرر راہیں تلاش کرنی چاہئیں"۔ (نامعلوم)

"عسکریت پسندی کے مخالفین جب تک جنگ کے انضباطی عمل کا کوئی متبادل، جنگ کا کوئی اخلاقی ہم مقام یا یوں کہہ لیں کہ حرارت کا کوئی مکینیکل متبادل پیش نہ کر دیں تب تک صورت حال کی مکمل داخلیت کو سمجھ نہیں پائیں گے"۔ (ولیم جیمز)

"دفاع یہی نہیں کہ تم اپنے دفاع کے لیے جان لڑا دو بلکہ اگر تم دوسروں کے لیے لڑتے ہوئے قربان ہو جاؤ تو تمہارے دفاع کو آسمانی رتبہ مل جائے گا۔ دفاع کمزور کے لیے سہارا ہے انتقام نہیں۔ ظالم اگر اپنے دفاع کے لیے لڑ رہا ہے تو وہ ظلم کا دفاع کر رہا ہے۔ دفاع کا حق پرندوں کو بھی ہے اور تتلیوں کو بھی۔ یہ واحد حق ہے جو آزادی برقرار رکھ سکتا ہے۔ جو شخص اپنا دفاع نہیں کر سکتا، مفتوح ہو جاتا ہے۔ دفاع نہ کرنا بزدلی سے مر جانا ہے"۔ (خلیل جبران)

واہگے نال اٹاری دی نہیں ٹکر
نہ گیتا نال قرآن دی اے

نہیں کُفر اسلام دا کوئی جھگڑا
ساری گَل ایہہ نفع نقصان دی اے

(اُستاد دامن)

Check Also

Gumshuda

By Nusrat Sarfaraz