Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Merit Ki Girawat, Aik Khamosh Almiya

Merit Ki Girawat, Aik Khamosh Almiya

میرٹ کی گراوٹ، ایک خاموش المیہ

پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی ادارے، جو کبھی ذہانت اور محنت کا معیار تھے، آج ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلوں کی تعداد کم اور میرٹ غیر معمولی حد تک نیچے گر چکا ہے۔ رواں دنوں سوشل میڈیا پر یونیورسٹیز میں کم داخلے اور کالجز میں سائنس و آرٹس میں داخلوں کے لیے گرتا ہوا میرٹ موضوع بحث ہے۔ اسلامیہ کالج سول لائنز، لاہور اور سائنس کالج وحدت روڈ، لاہورکے داخلہ کے میرٹ کی پوسٹ شیئر اور وائرل ہو رہی ہیں۔ یونیورسٹیز اور کالجوں میں سیٹیں بھی پوری نہیں ہو پا رہیں۔ یہ صورتحال اچانک پیدا ہوئی ہے اور یہ سوال ہر سنجیدہ شہری کے ذہن میں ابھر رہا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ کیا ہمارے نوجوانوں کی صلاحیت کم ہوگئی ہے یا پھر نظامِ تعلیم کی سمت ہی بدل گئی ہے؟

گذشتہ چند ماہ میں منظر عام آنے والی خبریں، مہنگائی اور بجلی کی آسمان کو چھوتی قمیتوں کا عمیق سا ہی جائزہ لیا جائے تو تعلیمی اداروں کے سنسان ہونے کی وجوہات کا اتہ پتہ چلایا جاسکتا ہے۔ خبریں گردش کرتی رہی ہیں کہ آنے والے سالوں میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا طوطی بولے گا جس کے نتیجہ میں ملازمتیں ختم ہو جائیں گی اور صرف ٹیکنالوجیکل ملازمتیں خصوصاً کمپیوٹر سے متعلقہ ملازمتیں باقی رہ جائیں گی۔ بی اے، ایم اے وغیرہ کی مانگ ختم ہو جائے گی۔ اسی طرح حکومت پاکستان بھی ڈاؤن سائزنگ، نجکاری اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت سرکاری اداروں کے دوالے ہوئی بیٹھی ہے اور بہت سی آسامیاں ختم بھی کر دی گئی ہیں۔ اس صورتحال میں والدین نہ اپنا پیسہ ضائع کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی بچوں کو بیروزگاروں کی فوج میں شامل ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔

ماہرِ تعلیم ڈاکٹر پرویز ہودبھائی نے ایک موقع پرکہا تھا کہ "جب نصاب تحقیق، تنقیدی سوچ اور تخلیقی صلاحیت پیدا نہ کرے تو یونیورسٹیوں کے دروازے کھلے رہنے کے باوجود اندر آنے والا ہجوم صرف ڈگری لینے آتا ہے، علم حاصل کرنے نہیں"۔ یہ بات ہمارے تعلیمی کلچر پر ایک سخت مگر سچائی پر مبنی تبصرہ ہے۔

ماضی میں بی اے یا ایم اے کرنے والا نوجوان کسی نہ کسی سرکاری یا نجی ادارے میں نوکری کا اہل ہو جاتا تھا، لیکن آج ڈگری کا روزگار سے براہِ راست تعلق کمزور پڑ چکا ہے۔ نوجوان دیکھ رہے ہیں کہ کئی ڈگری ہولڈر بیروزگار ہیں جبکہ ہنرمند یا ٹیکنیکل افراد اچھی کمائی کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کئی طلبہ کالج یا یونیورسٹی جانے کے بجائے قلیل مدتی ہنر سیکھنے والے کورسز یا آن لائن فری لانسنگ کا انتخاب کر رہے ہیں۔ بائیوٹیکنالوجی کے دو سالہ کورسز بھی منظر عام آ چکے ہیں جو ایف ایس سی کے برابر ہیں۔ ان میں میڈیکل لیبارٹری تکنیک، ڈینٹل ہائی جین تکنیک، میڈیکل امیجنگ تکنیک، اپریشن تھیٹر تکنیک اور فزیو تھراپی تکنیک قابلِ ذکر ہیں۔

کالجز کے سنسان ہونے کی ایک بڑی وجہ مہنگائی، بجلی کی قیمتیں اور نہ ختم ہونے والے ٹیکسز ہیں۔ پاکستان میں مہنگائی نے متوسط اور نچلے متوسط طبقے کے لیے اعلیٰ تعلیم کا خرچ ناقابلِ برداشت بنا دیا ہے۔ ٹرانسپورٹ، ماہانہ فیس، ہاسٹل فیس، کتابیں کاپیاں، سٹیشنری، آرٹ کا سامان وغیرہ یہ سب مل کر ایک ایسے بوجھ کی شکل اختیار کر چکے ہیں جسے عام گھرانہ برداشت نہیں کر سکتا۔ تنخواہ سے ٹیکس کٹتا ہے، بینک سے پیسے نکلوانے پر ٹیکس کٹتا ہے۔ نکالے گئے پیسے سے راشن لیتے وقت ہر آیٹم کا ٹیکس کٹتا ہے، ٹریفک چالان نے الگ مت ماری ہوئی ہے۔ تنخواہ تو ٹیکسوں ہی میں ختم ہو جاتی ہے، بچوں کے تعلیمی اخراجات والدین کہاں سے لائیں۔

تعلیمی معیار کی گراوٹ بھی ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ پندرہ اگست کو کھلنے والے سکولوں کو مزید پندرہ دن کے لیے بند کر دیا گیا ہے اور یکم ستمبر سے سکول کھولنے کا نوٹیفیکیشن حکومت پنجاب نے جاری کیا ہے۔ کبھی گرمی میں سکول بند، کبھی سردی میں، کبھی سموگ میں سکول بند اور کبھی دھند میں۔ گویا سال میں محض چار ماہ ہی پڑھائی ہوتی ہے۔ باقی آٹھ ماہ کی فیسیں خوامخواہ سکولوں کو کھلانی پڑتی ہیں جو کہ پیسہ ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ یہ تعلیمی ادارے چار ماہ میں سلیبس مکمل نہیں کرواتے۔ چند ابواب پڑھا کر سو بٹا سو نمبر بچوں کو دیکر والدین کو خوش کرتے ہیں۔ اسی طرح متحانات میں نقل عام ہو اور نصاب جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہو تو کالجوں، یونیورسٹیوں میں آنے والا طالب علم پہلے ہی کمزور بنیاد کے ساتھ داخل ہوتا ہے۔ ایسے میں میرٹ لازمی طور پر گر جاتا ہے کیونکہ داخلہ پانے والے امیدواروں کی اوسط علمی سطح کم ہو چکی ہے۔

مہنگائی نے والدین کی سوچوں کارُخ تبدیل کر دیا ہے۔ آج والدین زیادہ تر اپنے بچوں کو ایسے شعبوں میں بھیجنا چاہتے ہیں جو بظاہر فوری کمائی کی ضمانت دیں، چاہے وہ شعبے تعلیم سے ہٹ کر ہوں۔ نتیجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا انفلوئنسنگ، آن لائن بزنس یا غیر روایتی ہنر نوجوانوں کے لیے زیادہ کشش رکھتے ہیں۔ نیز حکومت کی جانب سے تعلیمی بجٹ میں کمی نے بھی صورتحال کو سنگین بنایا ہے۔ جب یونیورسٹیوں کو مناسب فنڈنگ نہیں ملتی تو وہ یا تو داخلہ فیس بڑھا دیتی ہیں یا پھر معیارِ تدریس قربان کر دیتی ہیں۔ دونوں صورتوں میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ داخلوں کی شرح کم اور میرٹ نیچے آتا ہے۔

یہ تمام عوامل مل کر ایک ایسا تعلیمی بحران پیدا کر رہے ہیں جو آنے والے وقت میں پاکستان کی فکری اور معاشی ترقی کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔ اس صورتحال سے نکلنے کے لیے چند فوری اقدامات ناگزیر ہیں۔ ان میں تعلیمی بجٹ میں نمایاں اضافہ اور فیسوں پر سبسڈی، اسکول سے لے کر یونیورسٹی تک معیاری نصاب جو اکیسویں صدی کے تقاضوں کو پورا کرتا ہو، شفاف امتحانی نظام، ہنر اور ڈگری کا متوازن امتزاج تاکہ تعلیم براہِ راست روزگار سے جڑی ہو نمایاں ہیں۔ اگر یہ اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے سالوں میں نہ صرف تعلیمی اداروں کی کلاسز اور ہال خالی ہوتے جائیں گے بلکہ ہمارے ملک کا علمی سرمایہ بھی کمزور ہوتا جائے گا۔ یہ ضروری نہیں بلکہ لازمی ہے کیونکہ تعلیم صرف فرد کی ترقی کا نہیں بلکہ پوری قوم کی بقا کا مسئلہ ہوتا ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan