Masail Ke Beech Muskurahat
مسائل کے بیچ مسکراہٹ

آج ہر پاکستانی کسی نہ کسی مشکل، الجھن یا پریشانی میں گرفتار ہے۔ کوئی مہنگائی کے عذاب سے دوچار ہے تو کوئی نئے پنشن رولز کی تلوار کے نیچے آ کر نیم مردہ ہوگیا ہے۔ مریض مہنگی ادویات اور غیر ضروری لیباٹری ٹیسٹوں سے تنگ ہیں۔ کوئی بچوں کی تعلیم کے آسمان کو چھوتے اخراجات سے ہر وقت سہما رہتا ہے۔ نوجوان بیروزگاری سے پریشان ہیں اور والدین کی مفت کی روٹیاں توڑنے سے بچنے کے جتن کر رہے ہیں۔
سیلاب نے دیہات اور قصبوں میں تباہی پھیلا رکھی ہے اور حکومتی نمائندے حسبِ روایت فوٹو شوٹ کرا کے زبانی کلامی متاثرین کی حوصلہ افزائی پر اکتفا کر رہے ہیں۔ امداد کے بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں لیکن حقیقت سبز باغ دکھانے سے زیادہ کچھ نہیں۔ ایک مکان سیلاب کی نذر ہو جائے تو متاثرہ خاندان کو دس لاکھ روپے دینے کی خوشخبری سنائی جاتی ہے۔ حالانکہ آج کل دس لاکھ میں تو ایک کمرہ بھی تعمیر نہیں ہوتا تو پورے مکان کے ازسرِ نو قیام کا دعویٰ حقیقت میں کہاں تک پورا ہو سکتا ہے؟
جب ہر طرف مسائل ہی مسائل ہوں اور ان کے حل کے لیے صرف کسی معجزے کا انتظار باقی رہ جائے تو انسان مایوس ہو جاتا ہے، کیونکہ معجزے وہاں کم ہی ہوتے ہیں جہاں قدرتی آفات ڈیرہ ڈال لیں۔ ایسے میں انسان کے لیے صرف مزاح ہی سہارا بنتا ہے جو زیادہ نہ سہی، چند لمحوں کے لیے ہی سہی، مگر "دکھی آتما" کے چہرے پر خوشی کی ایک کرن بکھیر دیتا ہے۔
انسانی زندگی دکھ، محرومی اور ناکامیوں سے خالی نہیں۔ جب مسائل کا دباؤ حد سے بڑھ جائے اور حقیقت کی تلخیاں روح کو کچوکے لگائیں تو انسان کے اندر دو ہی امکانات رہ جاتے ہیں یا تو وہ مکمل مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہو کر ٹوٹ پھوٹ جائے اور یا پھر اپنے غم کو کسی ہلکے پھلکے انداز میں بیان کرکے بوجھ ہلکا کرے۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں مزاح ایک نفسیاتی سہارا بنتا ہے۔ بابائے نفسیات سگمنڈ فرائیڈ کے نزدیک ہنسی دباؤ اور تناؤ کو توڑنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔ اسی طرح ماہر نفسیات کارل ژونگ کا بھی کہنا ہے کہ انسان اپنے دکھوں کو اکثر مزاح کی شکل میں چھپا کر انہیں قابلِ برداشت بنا لیتا ہے۔ یوں مزاح محض تفریح نہیں رہتا بلکہ ایک نفسیاتی دوا بن جاتا ہے جو مایوس دل کو امید کی ہلکی سی کرن دکھاتا ہے اور تھکے ہوئے ذہن کو تازگی بخشتا ہے۔
ہمارے معاشرے کی تاریخ میں مزاح ہمیشہ ایک طاقتور اظہارِ خیال رہا ہے۔ یہ محض ہنسنے ہنسانے کا ذریعہ نہیں تھا بلکہ ایک ایسی زبان تھی جس کے ذریعے لوگ اپنی تلخیوں، دکھوں اور معاشرتی تضادات کو بیان کرتے تھے۔ مزاح نے نہ صرف دل کو ہلکا کیا بلکہ سماجی اصلاح میں بھی کردار ادا کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ذوق بدلا، اظہار کے انداز بدلے اور قہقہوں کی معنویت بھی بدلتی چلی گئی۔
ابتدائی ریڈیو نشریات اور پی ٹی وی کے سنہری دور پر نظر ڈالی جائے تو وہاں کے مزاح میں شائستگی، برجستگی اور تہذیب نمایاں دکھائی دیتی تھی۔ محفلوں میں استادوں اور بزرگوں کے قصے، ریڈیو پر چبھتے ہوئے جملے اور اسٹیج پر برجستہ لطیفے سامع کو محظوظ کرنے کے ساتھ ساتھ سوچنے پر بھی مجبور کرتے۔ اس زمانے کے مزاح میں ذاتیات کی گنجائش نہ تھی۔ سماجی رویوں کو اس طرح پیش کیا جاتا کہ ہر سامع اپنے آپ کو اس آئینے میں دیکھ سکتا تھا۔ مثال کے طور پر:
استاد نے شاگرد سے پوچھا: "ایمانداری کا کیا مطلب ہے؟"
شاگرد نے جواب دیا: "سر! وہ چیز جو کتابوں میں لکھی ہوتی ہے مگر مارکیٹ میں ملتی نہیں!"
یہ برجستگی سامع کو ہنساتی بھی اور سماج کی حقیقت بھی اجاگر کرتی ہے۔
بعد ازاں ایک ایسا دور آیا جب طنز و مزاح اپنی معراج کو پہنچا۔ انور مقصود، معین اختر، بشری انصاری، اطہر شاہ خان (جیدی)، کمال احمد رضوی اور ننھا جیسے فنکاروں نے اس فن کو ایسی بلندی عطا کی جس کی مثال آج بھی دی جاتی ہے۔ ان کے ڈراموں، مکالموں اور پروگراموں میں ہنسی کے ساتھ ساتھ دانش بھی شامل ہوتی تھی۔ "لوز ٹاک"، "الف نون"، "اکڑ بکڑ" اور جیدی کے ڈراموں میں ایسے جملے شامل ہوتے جو حکمرانوں سے لے کر عام آدمی تک سب کو آئینہ دکھا دیتے۔
انور مقصود کا ایک جملہ آج بھی یاد کیا جاتا ہے: "ہمارے ملک میں کرپشن اتنی عام ہے کہ اگر کوئی ایماندار نظر آ جائے تو لوگ اس پر شک کرنے لگتے ہیں!"
یہی وہ طرزِ مزاح تھا جو بیک وقت قہقہہ بھی پیدا کرتا اور سماجی شعور کو جھنجھوڑتا بھی تھا۔
مزاح کی اقسام پر نظر ڈالیں تو یہ کبھی طنزیہ ہوتا ہے، کبھی محض تفریحی، کبھی اصلاحی اور کبھی سیاسی۔ بعض اوقات روزمرہ کی معمولی باتیں بھی دلکش انداز میں بیان ہو جائیں تو سننے والا بے اختیار ہنس پڑتا ہے۔
اصل جمالیات یہ ہے کہ اچھا مزاح سنجیدگی کے بوجھل ماحول میں اچانک نمودار ہو۔ جب کوئی برجستہ جملہ غیر متوقع طور پر قہقہہ پیدا کرے تو اس کا اثر دیرپا ہو جاتا ہے اور سامع کے دل و دماغ دونوں پر نقش چھوڑ دیتا ہے۔
آج سوشل میڈیا کے دور میں مزاح نے ایک بالکل نئی شکل اختیار کر لی ہے۔ آج کسی چھوٹے سے کلپ یا تند و تیز میم کو لمحوں میں ہزاروں بار شیئر کیا جاتا ہے۔ یہ ہنسی کی تیز رفتار دنیا ہے جہاں لطیفہ ایک دن سے زیادہ زندہ نہیں رہتا۔ آج کے نوجوان پہلے سے کہیں زیادہ ہنستے ہیں مگر ان کے قہقہوں میں وہ گہرائی نہیں جو پرانے دور میں دکھائی دیتی تھی۔ ایک عام سا میم دیکھ لیں۔ "پاکستان میں اگر کوئی آدمی پانچ منٹ ٹریفک سگنل پر رُک جائے تو لوگ سمجھتے ہیں گاڑی خراب ہے!" یہ جملہ مسکراہٹ ضرور پیدا کرتا ہے مگر اس کا اثر چند لمحوں سے زیادہ باقی نہیں رہتا۔
یقیناً یہ کہنا درست نہیں کہ موجودہ دور کا مزاح بے کار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نوجوان طبقہ اپنے مسائل کو جس تیزی اور تخلیقی انداز میں میمز کے ذریعے بیان کرتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ مزاح زیادہ تر وقتی، لمحاتی اور اصلاحی پہلو سے خالی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا مزاح کو دوبارہ اس کی اصل گہرائی میں لایا جا سکتا ہے؟ شاید جواب آسان نہیں، لیکن یہ طے ہے کہ زندہ اور باشعور معاشرے کے لیے ایسا مزاح ناگزیر ہے جو دل کو خوش کرے اور دماغ کو سوچنے پر بھی آمادہ کرے۔ قہقہے کی آواز کانوں میں گونجتی ہے، مگر اس کا اثر دل و دماغ تک تبھی پہنچتا ہے جب اس میں تہذیب، دانش اور بصیرت شامل ہو۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں مزاح کا ذائقہ واقعی بدل گیا ہے۔ پرانے زمانے کا قہقہہ کم تیز مگر دیرپا تھا، آج کا قہقہہ زیادہ تیز مگر ناپائیدار ہے۔ یہ فرق ہماری اجتماعی زندگی کی ایک تصویر بھی ہے کہ ہم سب کچھ تیزی سے چاہتے ہیں مگر گہرائی کو کھوتے جا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مزاح کو پھر سے سنجیدگی اور شائستگی کے ساتھ جوڑا جائے تاکہ یہ صرف وقتی ہنسی نہ ہو بلکہ ایک زندہ اور باشعور سماج کا استعارہ بھی بنے۔

