Mansoobe Hi Mansoobe
منصوبے ہی منصوبے

رشتے ہی رشتے، پورشن ہی پورشن، رضائیاں ہی رضایاں، کمبل ہی کمبل، پوتڑے ہی پوتڑے تو کئی دفعہ لکھا پڑھا اور سنا تھا لیکن آج وزیر اعلیٰ پنجاب کے 77 منصوبوں کو سُن کر منصوبے ہی منصوبے غیر شعوری طور پر زبان سے ادا ہونا شروع ہوا ہے۔ قصہ یہ ہے کہ گذشتہ ہفتے وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ سال 2024 پنجاب کے لوگوں کے ریلیف کا سال رہا اور اس سال وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے 77 سے زائد منصوبے شروع کیے جن میں 50 منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچ چکے ہیں اور ان منصوبوں میں طلباء، خواتین، کسان اور نوجوانوں کو بلا تفریق ریلیف مہیا کیا گیا۔
گویا چھ منصوبے ایک ماہ میں یعنی ہر پانچ دن بعد ایک منصوبہ کا آغاز۔ کیا یہ ممکن ہے؟ پانچ دن میں تو کسی منصوبہ کا جامع فرسٹ ڈرافٹ بھی لکھنا بہت مشکل ہے۔ شاید آدھا کلومیٹر سڑک پر لُک ڈال کر گڑھے بھرنے کو بھی منصوبہ کہا جا رہا ہے جسے لوگ گانڈھے (تروپے) لانا کہنا پسند کرتے ہیں۔ ایسا ہو تو ہی ایک سال میں اتنے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچ سکتے ہیں۔
سی ایم پنجاب مریم نواز کے 77 منصوبوں میں سے جو منصوبے راقم کو بذریعہ اخبارات کے اشہتارات و خبروں کے ذریعے معلوم ہوئے ہیں وہ کچھ یوں ہیں: سڑکیں بحال پنجاب خوشحال، پنجاب دھی رانی پروگرام، مریم کی دستک ایپ پروجیکٹ، سی ایم پنجاب آسان کاروبار فنانس اور آسان کاروبار کارڈ، ہونہار سکالرشپ پروگرام، لیپ ٹاپ سکیم، چیف منسٹر ڈائیلسزپروگرام کارڈ، کلینک آن وہیل، وزیر اعلیٰ کسان کارڈ، ائیر ایمبولینس سروس، مفت دوا آپ کی دہلیز پر، مفت وائی فائی سروس، اپنا گھر اپنی چھت پروگرام اور حالیہ دنوں میں شہ سرخیوں میں آنے والا منصوبہ لاہور میں کلمہ چوک سے لاہور برج تک بائیکرز لین یعنی موٹر سائیکل سواروں کے لیے علیحدہ سڑک ہے۔
بائیکرز لین منصوبے کو ہی ذرا دیکھ لیں کہ کس جلد بازی کے ذریعے اسے عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے۔ آٹھ فٹ چوڑی سڑک موٹر سائیکل سواروں کے لیے مخصوص کی جا رہی ہے۔ فیروز پور روڈ ایک مین روڈ ہے جس پر ٹریفک کا دباؤ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے یہاں پر بیک وقت سینکڑوں بائیکرز آتے جاتے ہیں۔ جب یہ تمام موٹر سائیکلیں ایک آٹھ فٹ کی پٹی پر چلیں گی تو ان کی سپیڈ سائیکل سے بھی کم ہو جائے گی اور ساتھ ہی اوورٹیک کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ نیز بائیں طرف چند سڑکیں بھی نکلتی ہیں جہاں سے ٹرن لینا پڑتا ہے۔ اس صورت میں بائیکرز کے لیے سگنلز بھی لگائے جائیں گے جبکہ اسی سڑک سے ملحقہ ایلیٹ کلاس کی کاریں سگنل فری سڑک پر سپیڈو سپیڈ رواں ہوں گی۔ گویا بائیکرز لین سے نظر آتا ہے کہ یہ ماڈل ٹاؤن، گلبرگ اور گارڈن ٹاؤن کی ایلیٹ کلاس کو سہولت فراہم کرنے کا ایک منصوبہ ہے جبکہ غریب موٹر سائیکل سواروں کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہوئے ایک طرف دھکیل دینا ہے۔
منصوبوں کی اہمیت و افادیت سے قطع تعلق ہم سمجھتے ہیں کہ ایک سال کے عرصہ میں 77منصوبے باقاعدہ سوچ بچار سے ممکن نہیں ہو سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی کوئی منصوبہ شروع ہوتا ہے تو اس پر متعلقہ تمام محکموں کے ساتھ بحث مباحثہ کیا جاتا ہے، اپوزیشن کو اعتماد میں لیا جاتا ہے، اسمبلی میں منصوبے کے فوائد و نقصانات بارے ڈسکشنز کی جاتی ہیں اور سب سے بڑھ کر کسی عوامی منصوبے کو شروع کرنے سے قبل اس کے بارے میں عوام سے تجاویز طلب کی جاتی ہیں تاکہ منصوبہ کی اہمیت، ضرورت اور پائیداری بارے کوئی شک باقی نہ رہ جائے۔
عوامی منصوبہ کے لیے عوام سے تجاویز طلب کرنا عوامی حکومت کے لیے ضروری ہوتا ہے، بصورت دیگر اسے عوامی حکومت کی بجائے "زراعتی حکومت" کہا جائے گا کہ اس میں کسان کچھ نہیں کرتا۔ چاہے ہل ہو، سہاگہ ہو، کھراس ہو یا مال ڈنگر کے لیے پٹھے لانے والا گڈا یا ریڑھی ہو، کسان بس کاٹھی پر بیٹھ کر باگیں پکڑ لیتا ہے۔ سارا کام بیل، گدھے، خچر، سَنڈے، اونٹ اور دیگر باربردار جانور کرتے ہیں اور یہی کسان کو باگ موڑنے، ڈھیلی کرنے یا سخت کرنے بارے بذریعہ یکدم رفتار میں کمی بیشی کرکے مجبور کرتے ہیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری بیوروکریسی قیام پاکستان کے وقت ہی سے عوامی رائے لینے کو ضروری خیال نہیں کرتی اور عوام کو کیڑے مکوڑے، ڈنگر اور جاہل سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیوروکریسی خود کو ہر چیک اینڈ بیلنس سے ماورا سمجھتی ہے، جو چاہے کرے، اسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اسی لیا کہا جاتا ہے کہ پاکستان، سول و ملٹری بیوروکریسی کے لیے سونے کی چڑیا ہے جبکہ اسے عوام کے لیے جنگل و بیاباں بنا دیا گیا ہے کہ اوکھے سوکھے ہو کر اِدھر اُدھر چل پھر کرڈھونڈ کر دو وقت کی روٹی کا حصول ممکن ہوتا ہے۔
بڑے بڑے منصوبوں اور مقاصد کو حاصل کرنے کا دعویٰ تو کیا جاتا ہے مگر درپردہ یہ سب محض آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ایک چال ہوتی ہے۔ بجٹ کی طرح منصوبوں کے اعداد وشمار کے تحت لوگوں کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔ سیاستدان کوئی بھی ہو، وہ نعروں، ڈینگوں او ر دعوؤں سے لوگوں کو بہلاتے پھسلاتے ہیں۔ اشرافیہ طبقہ اپنے مفادات کے زیادہ کسی چیز سے سروکار نہیں رکھتی اور یہ اس کی سرشت میں ودیعت ہو چکی ہے۔ یہ طبقہ مادی خوش حالی کے حصول کو ہی مقصد سمجھ لیتا ہے۔ حالانکہ مادیت کو ثانوی حیثیت دے کر ہی انسانیت نواز معاشرہ کی تشکیل ممکن ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوشلزم ایک ایسا سیاسی نظریہ ہے جس میں مادہ پرستی کی نفی کرتے ہوئے تمام انسانوں کو برابری کی سطح پر لانا ہوتا ہے۔ برعکس سوشلزم کے، سرمایہ داری نظام چند خاندانوں کی دولت میں اضافہ کرنے کا نام ہے اور ساری دوت انہی چند خاندانوں، صنعتکاروں، بینکاروں کے اردگرد گھومتی رہتی ہے۔ نتیجتاً غریب مزید غریب ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ کسی معجزے کی آس رکھ کر زندگی کے چار دن گزار تا ہے۔
وزیر اعلیٰ کسان کارڈ منصوبہ کے مطابق چھوٹے کسانوں کے لیے مالی مدد کی جاتی ہے۔ کسان کارڈ کے ذریعے کاشتکار بیج، کھادیں اور زرعی ادویات خرید سکتے ہیں۔ اس منصوبہ کا فائدہ بھی زرعی صنعتکار کو جا رہا ہے کہ اسکی پراڈکٹس دھڑا دھڑ فروخت ہو رہی ہیں۔ جبکہ منصوبہ سیکنڈوں میں زمیں بوس ہو جاتا ہے جب ہم توجہ کرتے ہیں کہ بابائے سوشلزم کارل مارکس اپنی شہرہ آفاق کتاب "داس کیپٹل" میں سرمایہ دارانہ سسٹم کے ہاتھوں ہونے والی زرعی زمین کی تباہی بارے لکھتا ہے کہ "سرمایہ دارانہ زراعت کی ترقی محض استحصال کی ترقی ہے، کسان کو لوٹنے اور زمین کو لوٹنے کی ترقی۔ جتنی بھی ترقی ہوئی ہے اس کا مقصد ہے کہ ایک مخصوص وقت میں زمین میں زیادہ سے زیادہ زرخیزی لائی جائے۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس سے زمین کی ابدی زرخیزی کس طرح تباہ ہو رہی ہے"۔ ایسی ہی صورتحال کے لیے پروین شاکرنے کہا تھا:
شجر کو سبز قبا دیکھ کر یہ اُلجھن ہے
کہاں پہ رنگِ نمو ہے کہاں پہ زہر کا رنگ
قصہ کوتاہ یہ کہ مقدار نہیں بلکہ معیار کو دیکھنا چاہیے۔ منصوبے ہی سیاست میں کامیاب نہیں ہوتے بلکہ اس کے لیے نظریاتی سوچ بھی اہمیت رکھتی ہے۔ میڈیا میں منصوبوں کی کوریج اور اشتہارات ہی کسی کو اہمیت نہیں دلا سکتے بلکہ اس کی بیک گراؤنڈ، ماٹو، دیگر جماعتوں کے ساتھ تعلقات بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ منصوبے صرف وہی کامیاب ہوتے ہیں جو حالات کے غیر جانب دار تجزیے کی بنیاد پر اور عقل سلیم کے تقاضوں کے مطابق تیار کیے جائیں نہ کہ کسی ایک کلاس کو نوازنے کے لیے یا سی ایم سے پی ایم تک سفر کا روڈ میپ تیار کرنے کے لیے۔

