Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Jazbati Fasla

Jazbati Fasla

جذباتی فاصلہ

جذباتی فاصلہ یعنی ایموشنل ڈسٹنس کا معنی یہ ہے کہ آپ کسی شخص، رشتے، یا صورتحال کے ساتھ نہ زیادہ اٹیچ ہوں اور نہ کم۔ یعنی آپ بظاہر تعلق میں موجود ہوں، لیکن اندر سے خود کو اتنا وابستہ نہ ہونے دیں کہ دوسروں کے رویے یا حالات آپ کے جذبات پر گہرا اثر ڈالیں۔ المختصر، جذباتی فاصلہ ایک ایسی شعوری کوشش و کیفیت ہوتی ہے جب کوئی شخص دل کے بجائے عقل سے تعلق سنبھالتا ہے۔

دفتر میں اگر کوئی کولیگ آپ کے ساتھ بدتمیزی کرے تو آپ غصہ یا دکھ محسوس کرنے کے بجائے صرف اتنا سوچیں کہ یہ اُس کی شخصیت کا مسئلہ ہے اس سے میرا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ تو یہ دراصل آپ نے جذباتی فاصلہ رکھا ہے۔ کبھی کبھار کسی قریبی انسان سے مایوسی ملتی ہے تو بجائے ہر وقت دکھی آتما بنے رہنے کے، آپ اندر سے یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ اب میں حد سے زیادہ جذباتی انحصار نہیں کروں گا۔ آپ کا یہی عمل، یہی سوچ دراصل جذباتی فاصلہ رکھنے کا فیصلہ ہے۔

سو باتوں کی ایک بات یہ کہ جذباتی فاصلہ دراصل خود کو ذہنی طور پر محفوظ رکھنے کا ایک دفاعی طریقہ ہے۔ اس کے ذریعے انسان اپنے دل کو ٹوٹنے یا حد سے زیادہ متاثر ہونے سے بچاتا ہے۔ البتہ اگر یہ فاصلہ حد سے بڑھ جائے تو انسان سرد، بے حس یا تنہائی محسوس کرنے لگتا ہے۔ اسی لیے ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہ جذباتی فاصلہ رکھنا ضرور سیکھیں مگر انسانی احساسات کو مکمل طور پر بند نہ کریں۔

آیئے ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ خالد نے چند ہفتے پہلے آفس میں ایک بڑی ذمہ داری لی تھی۔ اس نے اپنے حصے کا کام معمول سے بڑھ کر کیا، کئی راتیں جاگ کر گزار دیں اور اپنے حصے کی ہر کمی پوری کرنے کی کوشش کی۔ مگر جب پروجیکٹ مکمل ہوا، باس نے ایک چھوٹی سی غلطی پکڑ کر پورے کام کا تاثر ہی بدل دیا۔ خالد نے دل میں ہلکی سی لرزش محسوس کی۔ اُسے محسوس ہوا کہ اتنی محنت کے باوجود اس کی نیت، کوشش اور کردار سب اچانک محض ایک جملے سے نظر انداز کر دیے گئے جیسے کہ بقول ناصر بلوچ:

بہت سنبھال کے رکھی کتابِ عمر، مگر
ہوا کے زور سے ناصر بکھر گئے اوراق

اس لمحے وہ چاہتا تو سیدھے لفظوں میں بات کر سکتا تھا، اپنا دکھ بیان کر سکتا تھا، یا باس کو سمجھا سکتا تھا کہ تنقید کا انداز بھی اہم ہوتا ہے۔ مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس نے خاموشی کو اختیار کیا اور جذباتی فاصلہ اپنا لیا۔

اگرچہ یہ فاصلہ پہلی نظر میں محفوظ لگتا ہے۔ دکھ بھی کم محسوس ہوتا ہے، جذبات بھی قابو میں رہتے ہیں اور دل اندر سے کچھ حد تک محفوظ ہو جاتا ہے۔ مگر اس خاموشی کی قیمت کسی نہ کسی صورت میں ادا کرنا ہی پڑتی ہے۔ خالد نے اپنے دل کو تو سنبھال لیا مگر باس کو معلوم ہی نہیں ہوا کہ اس کے لہجے نے کس طرح ایک حساس دل کو چوٹ پہنچائی۔ باس کے لیے وہ لمحہ محض ایک فائل کی غلطی تھا لیکن خالد کے لیے وہ احترام، سنیارٹی، عہدہ، قدر اور تعلق کا معاملہ تھا۔ اگر خالد اظہار کر دیتا تو باس شاید اپنی غلطی سمجھ جاتا۔ مگر اظہار نہ کرنے سے ایک خاموش خلا باقی رہ گیا۔

دفتر میں ایسے کئی لوگ ہوتے ہیں جو اسی طرح جذباتی فاصلہ اختیار کر لیتے ہیں۔ کوئی باس کی وجہ سے کرتا ہے کوئی ساتھیوں کے رویّے کی وجہ سے اور کوئی دربانوں کے ناکے کی وجہ سے۔ مگر اصل مسئلہ فاصلہ نہیں بلکہ وہ وجہ ہوتی ہے جو یہ فاصلہ اختیار کرنے تک لے جاتی ہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جذبات کا اظہار ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔ معاشرتی دباؤ، پیشہ ورانہ ماحول، آقا و غلام، مرشد و مرید، حاکم و محکوم، امیر و غریب، مالک و نوکر، سردار و پیکروکار، سرپرست و تابع، پیر و فقیر، استاد و شاگرد جیسے رشتے و نسبتیں اور اندرونی خوف سب مل کر جذبات کے اظہار کی راہ میں دیوار کھڑی کر دیتے ہیں۔ لوگ سوچتے ہیں کہ شاید بات کرنے سے رشتہ بگڑ جائے گا، نوکری خطرے میں پڑ جائے گی، افسر ناراض ہو جائے گا، استاد فیل کر دے گا، مالک نوکری سے نکال دے گا یا مخاطب شخص عقل کا دامن تھام کر حقائق سمجھنے کے بجائے طنز کرے گا۔ اسی خوف کی وجہ سے جذبات اندر ہی اندر دب جاتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے جب انسان اپنے اندر ہی چھوٹا سا قلعہ بنا لیتا ہے، جہاں کوئی داخل نہیں ہو سکتا اور سمجھ لیتا ہے کہ بقول ناصر بلوچ:

بس اک طریقہ ہے عافیت کا یہاں پہ ناصر
میں نطق رکھوں، نہ آنکھ رکھوں، نہ کان رکھوں

اگر دیکھا جائے تو گھر کا ماحول بھی اس سے مختلف نہیں۔ کسی دن کھانے کی میز پر بیٹھے ہوئے کوئی فرد محسوس کرتا ہے کہ روزمرہ باتوں میں چاشنی نہیں رہی۔ کبھی بیٹا خاموش ہے، کبھی بیٹی کمرے میں رہتی ہے، کبھی لائف پارٹنر گفتگو کے دوران کہیں کھو جاتا ہے۔ اسے کوئی بڑی وجہ نظر نہیں آتی مگر ماحول بدل چکا ہوتا ہے۔ یہ بھی جذباتی فاصلے کا نتیجہ ہے۔ لوگ محسوس تو کرتے ہیں مگر کہہ نہیں پاتے۔ توقع تو رکھتے ہیں مگر انجانے خوف سے اظہار نہیں کرتے۔ نتیجتاً نفسیاتی و جذباتی صحت ڈانواں ڈول رہنے لگتی ہے۔

سوئس ماہر نفسیات کارل ژونگ جذباتی فاصلے کو ایک حفاظتی دیوار قرار دیتے ہیں۔ ایسی دیوار جو انسان خود کو دوبارہ زخمی ہونے سے بچانے کے لیے بناتا ہے۔ اس دیوار کے پیچھے ایک شخص محفوظ تو رہتا ہے لیکن پوری طرح خوش نہیں رہ پاتا۔ جب جذبات کے اظہار کے لیے دل میں جگہ نہیں رہتی تو ذہن فاصلے کو ایک حل سمجھ لیتا ہے، حالانکہ وہ حل نہیں بلکہ وقتی سہارا ہوتا ہے۔ دوسری طرف ایڈلر کے نزدیک جذباتی فاصلہ عزتِ نفس کا حصہ ہے۔ انسان اگر محسوس کرے کہ اس کی قدر کم ہو رہی ہے تو وہ فاصلہ رکھ کر اپنی شناخت کو بچاتا ہے۔ مگر ایڈلر ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ سماجی زندگی ذمہ داری بھی مانگتی ہے اور مضبوط تعلق وہی ہوتا ہے جس میں اظہار بھی ہو اور تحفظ بھی اور شاید یہیں سے کمپرومائز کرنے کی ابتدا ہوتی ہے!

خالد کے معاملے میں یہی پیچیدگی تھی۔ اس نے دل کو بچا لیا مگر باس کو غلطی کا شعور نہیں دلایا۔ اسی لیے وہ غلطی شاید آئندہ بھی دہرائی جائے گی، شاید کسی اور کے ساتھ یا شاید خالد کے ساتھ دوبارہ۔ یہاں جذباتی فاصلہ اختیار کرنے والا نہ خود غرض کہلاتا ہے، نہ مکمل طور پر بے قصور۔ یہ صورتحال ایک ایسے جذباتی تنازعے کی مثال ہے جس میں دل ایک سمت کھینچتا ہے جبکہ ذہن دوسری طرف۔ دل کہتا ہے کہ اظہار کرو، ذہن کہتا ہے کہ خاموش رہو۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان دونوں کے بیچ کہیں لٹک جاتا ہے۔ یعنی یہ سمجھ نہیں آ رہا ہوتا کہ:

میں کیہڑے پاسے جانواں
میں منجی کتھے ڈانواں

رشتے ناطوں میں بھی یہی ہوتا ہے۔ لوگ اکثر اپنے اندر بہت کچھ رکھتے ہیں مگر اظہار کرنے سے گھبراتے ہیں۔ کبھی اپنے احساسات کا وزن زیادہ لگنے لگتا ہے، کبھی لگتا ہے کہ دوسرا شخص سمجھ نہیں پائے گا، کبھی یہ ڈر ہوتا ہے کہ اظہار محبت کو کم اور توقع کو زیادہ کر دے گا۔ اسی خوف سے جذبات دب جاتے ہیں اور جذباتی فاصلہ بڑھ جاتا ہے اور پھر ایک وقت ایسا آ جاتا ہے کہ تعلق دکھائی تو دیتا ہے مگر محسوس نہیں ہوتا۔ ایسا لگتا ہے سب کچھ موجود ہے مگر کچھ بھی اپنا نہیں۔ گلے تو ملا جاتا ہے مگر جپھی میں روح نظر نہیں آتی، پھیکی نظر آتی ہے۔ یہیں سے انسانی تعلقات کی اصل کمزوری کھلتی ہے۔

انسانی دل کے معاملے ہمیشہ سیدھے سادے نہیں ہوتے۔ جذبات کے بہاؤ کو روکنا بھی مشکل ہے اور انہی جذبات کے ہاتھوں ٹوٹ جانا بھی۔ اسی لیے لوگ اکثر درمیانی راستہ لیتے ہیں۔ فاصلہ اختیار کرتے ہیں، دل کو بچا لیتے ہیں اور دنیا کے شور میں خود کو کچھ دیر کے لیے محفوظ کر لیتے ہیں۔ مگر یہ راستہ مستقل نہیں۔ ایک نہ ایک دن اظہار کی ضرورت پھر سر اٹھاتی ہے۔ انسان کو واپس بات کرنی پڑتی ہے، رشتوں کو سمجھانا پڑتا ہے، غلطیوں کی نشاندہی کرنی پڑتی ہے اور دل کے جھنجھٹ ختم کرنے پڑتے ہیں۔ اظہار وہی چیز ہے جو دل کی گرہیں کھولتا ہے، ورنہ فاصلہ بڑھتا ہی جاتا ہے۔

اب سوال یہ رہ گیا کہ جذباتی فاصلہ کہیں اس بات کا ثبوت تو نہیں کہ یہ فاصلہ اختیار کرنے والا واقعی ہی اثر لے بیٹھا ہے اور بذریعہ جذباتی فاصلہ اختیار کرکے اس اثر سے نکلنا چاہتا ہے کہ کہیں صورتحال یہاں تک کہ پہنچ جائے جہاں سے واپسی ممکن نہ رہے یعنی جیسا کہ بقول بابا بلھے شاہ:

رانجھا رانجھا کردی نی میں، آپے رانجھا ہوئی
سَدّو نی مینُوں دِھیدو رانجھا، ہِیر نہ آکھو کوئی

جی ہاں، یہ بالکل درست ہے کہ جذباتی فاصلہ ثبوت ہی تو ہے کہ دل اثر لے چکا ہے۔ کیونکہ اگر احساس ہی نہ ہوتا تو فاصلہ اختیار کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ جو شخص واقعی لاپرواہ، بے حس یا ڈنگر ٹائپ ہو، وہ تو کسی دیوار کی طرح کھڑا رہتا ہے، ٹس سے مس نہیں ہوتا چاہے جتنا مرضی اورا پرا کر لیا جائے یعنی ڈھیٹ ہوتا ہے۔ لیکن جو فاصلہ رکھتا ہے وہ دراصل اپنے زخم کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے اور یہ فاصلہ اختیار کرنا ایک طرح کا علاج ہے، انکار نہیں۔ یعنی یہ احساس پروان چڑھایا جاتا ہے کہ میں ابھی بھی اثر لیتا ہوں، مگر اتنا نہیں جتنا مجھے توڑ دے، ایسی صورتحال میں نہ لے جائے کہ بقول احمد فواد:

دن ہے اپنا نہ رات ہے اپنی
یہ محبت ہے یا مصیبت ہے

جذباتی فاصلہ رکھنے والا دراصل اثر کے مرکز سے نکلنے کی جدوجہد میں ہوتا ہے۔ یہ محبت کا انکار نہیں ہوتا بلکہ محبت کے زخم سے بچنے کی شعوری کوشش ہے۔ لیکن اس شعوری کوشش کا خیال کیونکر پیدا ہوا؟ شاید اس لیے کہ بقول شاعر:

شاید کبھی خلوص کو منزل نہ مل سکے
وابستہ ہے مفاد ہر ایک دوستی کے ساتھ

حاصلِ بحث یہ ہے کہ اظہار اور فاصلے کے درمیان وہ مقام تلاش کیا جائے جہاں دل بھی محفوظ رہے اور رشتے بھی سلامت۔ یہی انسانی نفسیات کا سب سے مشکل مگر سب سے خوبصورت پہلو ہے۔ اس مقام تک پہنچنے کے لیے جذبات کی بجائے عقلیت پسندی کو پروان چڑھانا ایک لازمی عنصر ہے جو کہ بدقسمتی سے مملکتِ خدادا د میں پروان تو کیا، کاشت تک نہیں ہو سکتی کہ یہاں ایک نہیں گھر گھر میں "راؤ رحیم" موجود ہیں جو بلاسفیمی قوانین کو مخالفین کے خلاف استعمال کر رہے ہیں اور انہیں پھانسیاں دلوا رہے ہیں، ان سے بھاری رقوم کے عوض جان بخشی کے وعدے کر رہے ہیں۔ بقول علامہ اقبال:

ابھی تک آدمی صیدِ زبونِ شہریاری ہے
قیامت ہے کہ انسان نوعِ انسان کا شکاری ہے

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali