Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Jamhuri Libade Mein Moroosi Raj

Jamhuri Libade Mein Moroosi Raj

جمہوری لبادے میں موروثی راج

لاہور کے انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اینڈ اکنامک آلٹرنیٹیوز کی 2018ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 2010 تک پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلی میں موروثی سیاست کا حصہ 53 فیصد تھا۔ جبکہ آج یعنی جون 2025ء تک تو یہ حصہ لازمی طور پر کہیں سے کہیں پہنچ گیا ہوگا! گویا پاکستان میں جس طرح دولت اور ذرائع پیداوار پر چند خاندان قابض ہیں، اسی طرح ملکی سیاست بھی چند خاندانوں کی ملکیت بن چکی ہے۔

میاں نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ نواز، مریم نواز، اسحاق ڈار، پرویز الہیٰ اور ان کے بیٹے مونس الہیٰ، سرگودھا سے چوہدری انور چیمہ کا خاندان، بینظیر بھٹو، آصف زرداری اور ان کے بیٹا بلاول بھٹو زرداری، فریال تالپور، یوسف رضا گیلانی اور ان کے بھائی احمد مجتبیٰ گیلانی اور بیٹے موسیٰ گیلانی اور عبدالقادر گیلانی، سائیں قائم علی شاہ اور ان کی بیٹی نفیسہ شاہ، مخدوم جاوید ہاشمی اور ان کی بیٹی میمونہ ہاشمی، ناہید خان اور ان کے شوہر صفدر علی عباسی، فہمیدہ مرزا اور ان کے شوہر ذوالفقار مرزا، چوہدری شجاعت حسین اور ان کے بھائی چوہدری وجاہت حسین اور خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی خواجہ سلمان رفیق۔۔ نام برائے نمونہ لکھے گئے ہیں، اگر جامع تحقیق کی جائے تو سینکڑوں نام منظر عام آئیں گے جس سے عیاں ہو جائے گا کہ پاکستان میں وراثتی یا خاندانی سیاست کس قدر تیزی سے جاری ہے اور دن بہ دن اسے مزید تقویت مل رہی ہے۔

کہنے کو تو آزاد خطہ مل گیا لیکن درحقیقت عوام کے لیے یہ آزادی بھی "نیا جال لایا پرانا کھلاڑی" ہی تھی اور جسکا ثبوت سن سنتالیس میں ہی جائیدادوں کی بندر بانٹ سے ملتا ہے جس میں لکھ پتی عوام کو ککھ پتی اور ککھ پتیوں کو لکھ پتی بنا دیا گیا تھا۔ جب شروعات ہی ڈنڈی مارنے سے ہو تو اختتام تو "نیک پروین" میں ہرگز برآمد نہیں ہو سکتا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی طرح استاد دامن نے بھی ان حالات کو پرکھ لیا تھا اور کہا تھا:

ایس جگ دی اُلٹی گنگا وچ

پُھل ڈبدا، پتھر تَر دا اے

ایتھے دن نوں گُھپ ھنیرے نیں

راتاں نُوں سورج چڑھدا اے

کجھ کہن نوں جی پیا کردا اے

کجھ کہن توں وی پیا ڈردا اے

کوئی بھی نیا پرانا اخبار اٹھا کر دیکھ لیں تو معلوم ہوگا کہ جونہی اسمبلی میں کسی ممبر کی فوتگی یا نااہلی یا استعفیٰ دینے کی وجہ سے کوئی سیٹ خالی ہوتی ہے تو ضمنی انتخاب میں بھی اسی ممبر کے خاندان کے لوگ کھڑے ہوتے ہیں، کبھی بیٹا، کبھی بھائی، کبھی بہو اور کبھی بیٹی۔ حالانکہ ان نووارد لوگوں کا سیاست میں کوئی اہم مقام بھی نہیں ہوتا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں میرٹ نام کی کوئی چیز نہیں۔ جدی پشتی خاندان نسل در نسل سیاست کا عصا تھامے ہوئے ہیں۔

ان چند خاندانوں کو بیوروکریسی کی بھی بھرپور سپورٹ میسر ہوتی ہے کہ دہائیوں سے حکومتوں میں رہ کر یہ سیاستدان بیوروکریسی میں اپنا اثرورسوخ قائم کر چکے ہوتے ہیں۔ معروف ناول نگار لیو ٹالسٹائی ایسی موروثی سیاست کی سخت مذمت کرتے ہیں اور انہوں نے موروثی سیاست کو ایک قسم کی خودغرضی اور ظلم قرار دیا ہے جہاں طاقتور خاندان اور افراد اپنی جمہوریت سے باہر اور عوامی مفاد کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی اجارہ داری قائم کرتے ہیں، اپنے مفاد کے لیے کام کرتے ہیں۔

ہر کوئی بخوبی جانتا ہے کہ کسی کا کاروبار تباہ کرنا ہو، سرکاری محکموں کی اہمیت کم کرنی ہو، سرکاری ہسپتالوں اور سکولوں پر سے عوام کا اعتماد اٹھانا ہو تو پہلے ان کے خلاف پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے، خودساختہ کہانیاں گھڑی جاتی ہیں، کرائے کے گواہوں کی طرح کرائے کے کہانی سازوں کے ذریعے ان اداروں کے خلاف زہر اُگلا جاتا ہے تاکہ ملک کی سیاہ و سفید کی مالک مٹھی بھر اشرافیہ ان اداروں کے خلاف عوامی نفرت پیدا کرکے اپنے پرائیویٹ ہسپتال اور سکول چلا سکیں، کورئیر کمپنیاں بنا کر محنت کشوں کی محنت کا استحصال کرکے اپنا منافع کا بندوبست کر سکیں۔ بالکل اسی طرح ملک کی سیاست پر براجمان چند خاندان اپنی موروثی سیاست کو زندہ رکھنے کے لیے بھی باقاعدہ منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ برادری سسٹم کے گُن گاتے ہیں اور سب سے بڑھ کر ان خاندانوں نے طلباء کی سیاست کو ختم کر دیا ہے اور یہ طلباء کی سیاست ہی خاندانی سیاست کی راہ میں بڑا روڑہ تھی۔

سن اسی اور نوے کی دہائی میں کالجوں میں باقاعدہ یونینز ہوتی تھیں اور طلباء کے مسائل اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف بھرپور متحرک رہتی تھیں۔ انہی کالجوں سے کئی معروف سیاستدان ابھرے۔ بعدازاں طلباء تنظیموں پر پابندیاں عائد کر دی گئیں اور کالجز میں یونیفارم لازمی کرکے طلباء کو سکولیانہ ذہینت میں محصور کردیا گیا۔ اسی زمانہ سے خاندانی سیاست نے سپیڈ پکڑی کہ عوام میں سے عوامی طلباء کی سیاست کو شجرِ ممنوعہ بنا دیا گیا تھا۔ اس کے لیے یہ پراپیگنڈہ کیا گیا کہ طلباء کا کام اپنی توجہ تعلیم پر دینا ہے نہ کہ سیاست پر۔ سیاست ہوس انگیز لوگوں کا کام ہے، طلباء کو اس سے دور رہنا چاہیے جیسے نعرے تخلیق کیے گئے۔

حقیقت یہ ہے کہ سیاست کے بغیر زندگی بیکار ہے۔ طلباء کے لیے سیاست تو اور بھی زیادہ ضروری ہے کہ سیاست سے طلباء قومی مسائل اور عوامی سماجی و معاشی حقوق سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کی پامالی کی صورت میں بوجہ گرم خون، وہ بہتر طور پر انہیں حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ سیاست سے طلباء میں قائدانہ صلاحیتوں کو جلا ملتی ہے، ووٹ کی اہمیت اور استعمال کو بہتر جان سکتے ہیں۔ غیر جمہوری رویوں اور آمریت کے خلاف آہنی دیوار ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی کہ طلباء کو میدان سیاست سے باہر کر دیا گیا ہے۔

جس طرح ہر کھیل کے قوانین ہوتے ہیں، ہر کام کرنے کے اصول و ضوابط ہوتے ہیں، اسی طرح ہم بھی طلباء کے سیاست میں حصہ لینے، ان کی تنظیموں کی بحالی کے حق میں بھی اس شرط پر ہیں کہ سیاسی سرگرمیوں میں صرف اس قدر حصہ لیں کہ نہ تو ان کی تعلیم میں حرج ہو، نہ وہ اپنی جان و مال کو خطرے میں ڈالیں، نہ وہ کوئی ایسی حرکت کریں کہ جس سے املاک کو نقصان پہنچے اور جس سے ملک کے مفاد کو خطرہ ہو اور نہ ہی طلباء ایسی سیاسی تحریک میں حصہ لیں جس کے سامنے کوئی اعلیٰ منشور و ہدف یا مقصود نہ ہو۔

طلباء میں صحیح سیاسی شعور کا پیدا کرنا ملک و عوام کے لیے ایک بڑی خدمت ہے اور اس کے لیے والدین اور اساتذہ دونوں کو اپنی کوششیں کرنی چاہئیں۔ نوجوان قوم کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ ہمیں ان کی قیمت کا احساس ہر وقت اپنے دل میں رکھنا چاہیے کہ اس کے باہر قوم کا کوئی مستقبل نہیں۔ موروثی سیاست کا قلع قمع کرنے کے لیے طلباء تنظیموں کی بحالی اور ان کو مکمل سپورٹ مہیا کرنا پہلا قدم ہے، یہ قدم اٹھائے بغیر چوبیس کروڑ عوام حقیقی آزادی کا مزہ نہیں لے سکتے۔

Check Also

Gumshuda

By Nusrat Sarfaraz