Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Jab Izhar e Ehteram Tanz Mein Dhal Jaye

Jab Izhar e Ehteram Tanz Mein Dhal Jaye

جب اظہارِ احترام طنز میں ڈھل جائے

مجھے ہمیشہ سے ذہین لوگ پسند آتے ہیں۔ ہجومِ انسانی میں ایسے افراد انگلیوں پر گنے جاتے ہیں جو اپنی بات، اپنی سوچ اور اپنی دانش سے دل و روح کو روشن کر دیں۔ آج انٹرنیٹ کے دور میں جب کتب بینی آخری سانسیں لے رہی ہے اور اکیسویں صدی کو کتابوں کی آخری صدی کہا جا رہا ہے تو ایسی صورتحال میں ہزاروں چہروں میں سے اگر چند ایک ذہین چہرے مل جائیں جو تو یہ خوش قسمتی کی علامت ہے اور کسی حد تک معجزہ بھی قرار دی جاسکتی ہے۔ ذہین دوست کا مل جانا میرے لیے کسی قیمتی خزانے سے کم نہیں، کیونکہ ذہانت ہمیشہ مجھے اپنی طرف کھینچتی ہے۔ یہ میری کمزوری بھی ہے اور میری قوت بھی، جہاں بھی جھلکتی ہے، دل کو بھا جاتی ہے اور دیرپا اثر چھوڑ جاتی ہے۔

لفظ ہماری زندگی کے سب سے طاقتور ہتھیار ہیں۔ یہ دلوں کو جوڑ بھی سکتے ہیں اور توڑ بھی سکتے ہیں۔ ایک نرم جملہ کسی زخمی دل کے لیے مرہم بن سکتا ہے جبکہ ایک غلط سمجھا جانے والا جملہ برسوں کے تعلقات کو کچا دھاگہ بنا دیتا ہے۔ یہی تجربہ اس وقت ہوا جب ایک دوست سے محض عزت و احترام کے اظہار کے لیے کہے گئے جملے، ان کے نزدیک طنز اور بناوٹ کا روپ دھار گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ خلوص کے ساتھ کہے گئے کلمات کو ڈرامہ سمجھا گیا اور دل آزردہ ہوگیا۔

گزشتہ شام کو اپنی ایک بہت محترم دوست سے سوشل میڈیا پر بات ہوئی تو ایک ناقابلِ توقع اور عجیب کیفیت سے گزرنا پڑا۔ یہ دوست نہایت ذہین، علم دوست اور کمال ذوق رکھنے والی ہیں۔ انگریزی زبان پر ان کا غیر معمولی عبور ہے اور وہ درجنوں انگریزی افسانوں کے ایسے عمدہ تراجم کر چکی ہیں جن میں زبان کی صفائی، خوبصورت اور گہرے الفاظ کا استعمال، لہجے کی صحت اور اصل متن کی روح پوری وقعت سے محفوظ رہتی ہے۔ میں مدت سے ان کی علمی جہت، مشاہدے کی باریکی اور زبان پر گرفت کا دل سے معترف ہوں۔ اسی نسبت سے میں نے ہمیشہ انہیں عزت کے ساتھ مخاطب کیا ہے۔

ہوا یہ کہ گفتگو کے دوران میں نے حسبِ عادت پرتکلف جملے استعمال کیے۔ لفظ "پرتکلف" کا مطلب ہے بناوٹ یا اہتمام سے بھرا ہوا انداز، جیسے "پرتکلف دعوت" یعنی ایسی دعوت جہاں ضرورت سے زیادہ اہتمام دکھائی دے، یا "پرتکلف الفاظ" یعنی ایسے جملے جو کچھ زیادہ ہی سنورے اور سجائے ہوئے لگیں۔ میرے لیے یہ جملے احترام اور قدردانی کے اظہار کا ذریعہ تھے، لیکن محترمہ نے ان پر ہلکی سی طنز کے رنگ میں کہا کہ آپ کے الفاظ بڑے ڈرامائی لگتے ہیں، اس میں طنز کا احساس ہے۔ اس جملے نے مجھے سوچ میں ڈال دیا کہ جو بات میرے نزدیک عزت افزائی تھی، وہ سننے والے کے لیے غیر فطری، مصنوعی، ایکٹنگ، ڈرامہ کیونکر محسوس ہوئی۔

یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اکثر سادہ جذبات کو بھی ہم اتنے رسمی پردوں میں لپیٹ دیتے ہیں کہ وہ اصلی چمک کھو بیٹھتے ہیں۔ خلوص کے اظہار کے بجائے وہ بناوٹی معلوم ہونے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی احترام بھی طنز کا نشانہ بن جاتا ہے۔ میں نے خود سے سوال کیا کہ کیا میرا انداز واقعی اتنا مصنوعی، بے رنگ، پھیکا، یا ملمع چڑھا ہے یا پھر محترمہ کی برداشت رسمی جملوں کے لیے کم ہوگئی ہے؟

ماہرینِ نفسیات اس کشمکش کو انسانی تعلقات کی بنیادی پیچیدگی قرار دیتے ہیں۔ بابائے نفسیات سگمنڈ فرائڈ کا کہنا ہے کہ انسانی رشتے، خواہشات اور خوف کے درمیان مسلسل جھولتے رہتے ہیں۔ شاید یہی کیفیت یہاں بھی تھی۔ میری خواہش تھی کہ اپنی دوست کو عزت دوں کہ جسکی وہ حقیقتاً حقدار ہیں، لیکن محترمہ نے اس میں خوشامد، ایکٹنگ، ڈرامہ، ملمع کاری یا مبالغہ محسوس کر لیا۔

اب سوال یہ ہے کہ اظہارِ جذبات کا درست طریقہ کیا ہے؟ کیا ہمیں پرتکلف جملوں کا سہارا لینا چاہیے یا سیدھے سادے الفاظ زیادہ اثر رکھتے ہیں؟ راقم کی دانست میں دونوں کو متوازن رکھنا چاہیے۔ اگر ہر بات میں محض رسمی شان دکھائی دے تو اس کی تاثیر ختم ہو جاتی ہے اور اگر ہر بات بے حد عام اور روزمرہ ہو تو تعلق کی گہرائی کم لگنے لگتی ہے۔ الفاظ میں وقار بھی ہونا چاہیے اور سچائی بھی۔ سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ دل کی سچائی ہمیشہ سب سے مؤثر زبان ہوتی ہے۔

علاوہ ازیں، الفاظ و جملوں کا استعمال کرتے وقت تخاطب کی تعلیم، رتبہ، عہدہ، سنیارٹی، مجموعی طبیعت کے رحجان مثلاً تحمل و برداشت، سنجیدگی، لکیر کی فقیری، بات کا بتنگڑ، حقیقت پسندی، جذباتی پن، اکھڑ و لا ابالی پن۔۔ کو بھی بطور خاص مدنظر رکھنا چاہئیے۔ لیکن اب سوال یہ پیدا ہوا کہ یہ سب مدنظر رکھنا کہیں منافقت کے کھوہ کھاتے میں تو نہیں آ جاتا۔ بہرحال آئے یا نہ آئے ایک الگ موضوع ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ بقول شاعر:

مرتکز کر لیجیئے اپنے خیالوں کو کہیں
کیا ملے گا زندگی میں نت نئی ترمیم سے

اس قصہ کہانی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ صرف کہنے والے پر نہیں، سننے والے پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اگر کوئی پرتکلف انداز میں عزت دیتا ہے تو ضروری نہیں کہ اسے فوراً خوشامد یا ڈرامہ سمجھ لیا جائے۔ بعض اوقات اس کے پیچھے واقعی خلوص ہوتا ہے، صرف انداز قدرے رسمی ہوتا ہے۔ ایسے میں سننے والے کا ظرف یہ ہونا چاہیے کہ وہ دل کی نیت تک پہنچے، نہ کہ محض الفاظ کے پردے میں الجھ جائے۔

لہٰذا دونوں طرف توجہ ضروری ہے۔ کہنے والے کو چاہیے کہ وہ اپنی بات کو ضرورت سے زیادہ آراستہ نہ کرے تاکہ اس کی سچائی برقرار رہے اور سننے والے کو بھی چاہیے کہ وہ جلد بازی میں ہر اظہار کو مصنوعی نہ سمجھے۔ یہی توازن رشتوں میں خوشبو بکھیرتا ہے۔

یہ ایک دوست کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ کبھی کبھی خلوص بھی غلط فہمی کے بوجھ تلے دب جاتا ہے۔ عزت دینے والا شخص اگر دکھی ہو جائے تو اس کا سبب یہ نہیں کہ اس کی نیت میں کھوٹ ہوتا ہے بلکہ یہ کہ تخاطب نے الفاظ کے تاثر کو اپنی عینک کے ساتھ مختلف زاویے سے پڑھا ہوتا ہے۔ جیسے بقول ظفر اقبال:

صاف و شفاف تھی پانی کی طرح نیت دل
دیکھنے والوں نے دیکھا اسے گدلا کرکے

Check Also

Pablo Picasso, Rangon Ka Jadugar

By Asif Masood