Islam Zinda Hota Hai Har Karbala Ke Baad
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

مولا محمد علی جوہر نے حضرت امام حسینؓ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے جب فرمایا تھا "اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد" تو گویا اسلام کے مزاج کے تعلق سے ایک اٹل حقیقت بیان کرنی تھی جس پر تاریخ اسلام صاد ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اسلام ایک سخت جاں دین و مذہب ہے۔ باطل نے ماضی میں بھی اسلام کو پامال کرنے اور حرفِ غلط کی طرح مٹانے کی پوری کوشش کی مگر ہر بار اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا۔
کربلا کے عظیم سانحہ کے بعد جس میں گلشن نبوت کی پامالی ہوئی، سخت جاں اسلام پر ہر دور میں کئی کربلائیں گزر چکی ہیں مگر امام حُسینؓ نے اپنی اور خانوادہ رسول کی بیش بہا جانوں کی قربانی دے کر مسلمانان عالم کے لیے رہتی دنیا تک جو مثال قائم کی وہ مسلمانوں کو جبرو استبداد کے خلاف صف آرا ہونے کا ایک نیا جذبہ اور تازہ ولولہ بخشتی ہے اور انہی کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے مسلمان عارضی شکست سے بد دل نہیں ہوتے بلکہ اسوہ حسینؓ سے یہ سبق لیتے ہیں کہ اگر انہوں نے سبط پیغمبر کی طرح جرات، اصول پرستی، دوستی، جذبہ عمل، یقین محکم، خود اعتمادی، آزادی خواہی، عزت نفس، جفاکشی، حق پرستی، فرض شناسی، سیاسی بصیرت، عزم راسخ، رجائیت پسندی، حق گوئی و بیباکی، مستقل مزاجی اور ایثار نفس سے کام لیا تو پھر حق ان کی طرفداری کرے گا اورفتح ان کے قدم چومے گی۔
اسلام کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پُکارے گی ہمارے ہیں حُسینؓ
اسلام کے بول بالا اور حق گوئی کے لیے سینکڑوں مثالیں تاریخ اسلام میں ملتی ہیں۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ نواسہء رسولؑ حضرت امام حسینؓ کو جو شہرت و بقائے دوام حاصل ہے اس کے پسِ پردہ کیا راز ہے؟ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ حضرت امام حسینؓ نے نہ تو حالات و ماحول کو بگڑتا دیکھ کر گوشہء عافیت اختیار کی اور نہ ہی حالات سے سمجھوتہ کیا۔ حالانکہ یہ دونوں ہی راستے اُن کے لیے کُھلے ہوئے تھے۔ انہیں علم تھا کہ باطل کی قوتیں اتنی زیادہ ہیں کہ وہ ان کے آگے بے بس ہیں۔ وہ حق پر یقین رکھتے تھے اور انہیں اس کا کُلی ادراک تھا کہ ممکن ہے کہ انہیں اپنے گُلشن کی آخری کلی تک کی قربانی دینی پڑے مگر یہ قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔ چنانچہ انہوں نے باطل کی قوت سے ٹکرانے اور ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا عزم کیا اور تمام قسم کے واقعات و مصائب کو صبر و سکون کے ساتھ برداشت کرتے ہوئے منزل مراد کی جانب بڑھتے چلے گئے۔ حضرت امام حسینؓ ایک سچے مسلمان تھے اور جانتے تھے کہ بقول علامہ محمد اقبال:
یہ شہادتِ گہہ اُلفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
حضرت امام حسینؓ کے ایثار، ان کی قربانی اور ان کے بلند کردار نے کارِزار کربلا میں ان کے ساتھیوں کے اندر حق طلبی، استقلال، صبر و رضا، نُصرتِ دین اور توکل علے اللہ کا زبردست ولولہ اور جوش پیدا کر دیا تھا اور اسی ولولے نے بھوک، پیاس، مشکلات، دشمن کی کثرت اور موت کی دہشت کو ختم کر دیا تھا۔ مرد تو مرد تھے ہی، کربلا میں خواتین اور بچے تک ہر قسم کی تکالیف و مصائب کو صبر کے ساتھ برداشت کرتے رہے۔ یقیناً اُن کے سامنے اسوہ اسماعیل تھا، اسوہ ابراہیم تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے سامنے بانی اسلام حضرت محمدؑ کا کردار تھا جو ان کی رہنمائی کر رہا تھا۔
قرآن بتاتا ہے کہ "اللہ کے دوست کبھی خوف و حزن کا شکار نہیں ہوتے"۔ بلکہ وہ موت کا خندہ پیشانی سے خیر مقدم کرتے ہیں کیونکہ ان کی ہمیشہ یہی خواہش ہوتی ہے کہ یہ فناء دراصل ان کے لیے بقائے دوام کا پیغام ہے۔ قرآن پاک میں بھی ارشاد فرمایا گیا ہے کہ "خدا کی راہ میں قتل ہونے والوں کو مردہ مت کہوں کیوں کہ وہ تو زندہ ہیں مگر تمہیں اس کا شعور نہیں"۔
سید الشہدا حضرت امام حسینؓ کی زندگی میں ہمیں علم اور عمل کا بہترین و حسین امتزاج ملتا ہے۔ ان کی شہادت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہمارے قول و فعل میں کبھی تضاد نہیں ہونا چاہیے کہ یہ تضاد دراصل منافقت کا واشگاف اظہار ہے اور قدرت منافقت کو کبھی معاف نہیں کرتی۔ شہادتِ حسین یہ سبق بھی دیتی ہے کہ ہمیں نیک نیتی اور خلوص سے حق کی مدافعت اور اس کے فروغ کے لیے ایک اٹل نصب العین متعین کر لینا چاہیے اور پھر اس کے حصول کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ اس کی ایک مثال ہماری تاریخ قیام پاکستان ہے۔
حضرت امام حسینؓ نے ساتھیوں کی کمی اور وسائل کی کمی اور اپنی بے سروسامانی کے باوجود مخالفت پر یہ حق جتا دیا کہ حق کے حصول کے لیے جدوجہد کی راہ میں نہ مادی وسائل کی فراوانی کوئی رکاوٹ بن سکتی ہے اور نہ افواج کی کثرت سے قدم ڈگمگا سکتے ہیں۔ عزمِ محکم، باری تعالیٰ پر یقین کامل اور قوتِ ارادی جہادِ زندگی میں مَردوں کی اصل شمشیریں ہوتی ہیں۔
نواسہء رسولؑ سیدنا حسینؓ نے یہ کوشش کی کہ مسلمانوں کا خون ناحق نہ بہے۔ آپؓ نے کربلا کی جنگ میں پہل بھی نہ کی اور نہ ہی آپؓ کا مقصد دنیاوی جاہ و اقتدار کا حصول تھا۔ آپؓ کا مقصد صرف اور صرف ایک تھا کہ آپؓ کے نانا نے اسلام اور حق کا جو شجر لگایا ہے وہ خُشک ہونے نہ پائے اور اس مقصد کے لیے آپؓ نے اپنے اور اپنے خاندان کے خون سے اس شجر کو سینچا۔ نتیجتاً آپؓ کی شہادت کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے اسلام پھر زندہ ہوگیا۔
قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

