Iran Ka Israel Par Hamla Aur Islami Block
ایران کا اسرائیل پر حملہ اور اسلامی بلاک
شکست و فتح میاں اتفاق ہے لیکن
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا
ایران کا صیہونی ریاست پر حملہ بیشک اپنے اہداف حاصل نہ کر سکا ہو لیکن اس براہ راست حملے نے مشرقِ وسطیٰ کے شیوخ کو شرمساری میں ضرور مبتلا کر دیا ہے اور ان کی غیرت و ایمان کو بخوبی للکارا ہے اور ایرانی حملے سے شیوخ سر اٹھا کر چلنے سے قاصر رہیں گے۔ ایران نے صیہونیوں کی طرح غزہ میں براہ راست آبادی کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ اسرائیلی فوجی تنصیبات پر ٹارگٹڈ حملے کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی حقوق کا علمبردار دراصل ایران ہے۔
ایران کا یہ حملہ ناقابل تصور تھا کہ عرب کے بڑے ممالک بالخصوص سعودی عرب امریکی اتحادی ہیں۔ بلاشبہ یہ بہادری کی، حق سچ کی ایک واضح مثال ہے جس کی گونج تادیر دنیا میں گونجتی رہے گی۔ ایران کو یقینا معلوم تھا کہ دمشق میں ایرانی سفارتخانے پر اسرائیلی حملے کو خاموشی سے سہہ جانا، صیہونیت کو مزید شہہ دینے کے متراد ف ہوگا کہ سُننے والے کا شوق ہی بولنے والے کو اُکساتا ہے۔
کیا ایرانی حملہ مردہ ضمیر اور خرگوش کی نیند سوئے ہوئے عرب شیوخ کے اندر سامراجی طاقتوں کے خلاف عرب نیشنلزم کی روح پھونک سکتا ہے؟ تاریخ بتاتی ہے کہ مصر کے صدر جمال عبدالناصر، فلسطینی حریت پسند پی۔ ایل۔ او کے سربراہ یاسر عرفات، لیبیا کے کرنل قذافی اور سعودی عرب کے شاہ فیصل نے اپنی پوری کوشش کی مگر عرب نیشنلزم میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ نے "پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو" کی پالیسی مشرق وسطیٰ میں اپنا رکھی ہے۔ جونہی عرب ملک اکٹھے ہونے لگتے ہیں، ان میں پھوٹ ڈلوا کر اپنی فوجیں دفاع کے نام پر بھیج دیتا ہے۔
جب عراق نے ایران پر حملہ کیا تو امریکہ نے عراق کو ہر طرح کی معاشی و فوجی طاقت مہیا کی۔ لیکن جب عراق نے کویت پر حملہ کرکے قبضہ کر لیا تو امریکہ نے اپنے ہی سابقہ دوست عراق کے خلاف سعودی عرب کے ہوائی اڈے حاصل کرکے حملہ کر دیا بالکل جیسے طالبان کو روس کے خلاف استعمال کیا اور کام نکل جانے کے بعد امریکہ نے انہی طالبان کو دنیا کے لیے خطرے کا الارم قرار دے دیا اور افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اسی طرح عرب خطہ میں چھوٹے سے اسرائیل کو بٹھا کر عربوں کو ریگستانوں کی خاک چھاننے تک محدود کر دیا۔ اسرائیل کو آتشیں اسلحے سے لیس کرکے عرب دنیا میں ایک خوف کی فضا پیدا کر دی۔ او۔ آئی۔ سی اسرائیل کو اپنے ہی گڑھ میں لگام ڈالنے میں بے بس نظر آئی۔
او۔ آئی۔ سی مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم ہے جس کے ستاون ممبر ہیں اور یہ اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی بڑی تنظیم ہے۔ اس کا مقصد مسلم ممالک کے مابین باہمی اتحاد، یکجہتی، اتفاق، سلامتی، انسانی حقوق اور ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔ ایران کے حملے میں یہ صرف گومگو کی حالت میں ہی نہیں بلکہ حالتِ نذع میں بھی ہے اور یقینی طور پر کسی جانے انجانے خوف سے نیوٹرل رہنا چاہتی ہے جس سے اس کی اندرونی کمزوری صاف عیاں ہو جا تی ہے۔ اس کے برعکس عالمی سامراج کی یو۔ این تنظیم ہے جسے بیشک انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہ غزہ میں نظر آتی ہیں، نہ تورا بورا میں نظر آئیں، نہ کشمیر میں نظر آتی ہیں، نہ صدر صدام حسین کے عراق میں نظر آئیں، نہ عراق کی ایران پر جارحیت کے دوران نظر آئیں، نہ نائن الیون کے بعد نظر آئیں، لیکن کم از کم یو۔ این منافق تو نہیں ہے، یہ سرعام عالمی سامراج کی طرفداری، چاہے غلط ہی کیوں نہ ہو، تو ضرور کرتا ہے۔
تاریخ اور موجودہ تازہ سیاسی و عسکری صورتحال کے پیش نظر ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ دونوں تنظیمیں درحقیقت غیرفعال ہیں، ان کی ڈوریں امریکہ و برطانیہ کے پاس ہیں۔ یہ دونوں تنظیمیں بھی وہی حیثیت رکھتی ہیں جیسے پیارے پاکستان میں رویت ہلال کمیٹی رکھتی ہے جو صرف چاند دیکھنے کے لیے کروڑوں روپے تنخواہیں ھڑپ کر جاتی ہے۔ ان سب کا موجود رہنا یا نہ رہنا ایک برابر ہے جسے عرف عام میں مردہ بدست زندہ کہا جاتا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ اسلامی بلاک کا باوا آدم بننے کے لیے عرب ورلڈ ایک دوسرے کے خون کی پیاسی رہی ہے اور اسی وجہ سے ان میں اتحاد پیدا نہیں ہو سکتا۔ گویا کرسی کا سارا کھیل ہے! تاریخ ہمیں بھی بتاتی ہے کہ مصر کے ناصر اور سعودی عرب کے شاہ فیصل میں شدید چپقلش رہی، مصر کی اخوان المسلمین کو شاہ فیصل نے اپنے ساتھ ملایا اور ناصر کے خلاف استعمال کرنا شروع کیا۔ ناصر عرب قوم پرستی کا خواہشمند اور بائیں بازوکی طرف جھکاؤ رکھتا تھا تاکہ امریکی مداخلت کو خطہ عرب سے پاک کیا جاسکے۔ مصر کے ناصر نے سعودی عرب اوراسکے اتحادیوں کو امریکی گماشتے قرار دیا۔ جبکہ سعودی عرب، خطہ کا چوہدری بننا چاہتا تھا اس لیے اس نے امریکی سامراج سے مدد کو کھلے دل سے قبول کیا۔
امریکہ نے سعودی عرب کا محض اس لیے ساتھ دیا کہ یہاں پر مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات شامل ہیں اور شاہ کو ایک "روحانی بادشاہ" کے روپ میں مسلم دنیا میں پیش کرکے مفادات سمیٹے جا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روس کے خلاف امریکہ نے سعودی عرب کے "جہاد" کو خوب استعمال کیا اور افغانستان سے روس کو دھکیل باہر کیا۔ سعودی عرب کی اسرائیل سے دشمنی محض ایک دکھاوا ہے، درپردہ اسرائیل ہی سعودی عرب کو خطے کا وڈیرہ بنائی رکھے ہوئے ہے، جونہی کوئی عرب قوم پرستی کی تحریک پنپنے لگتی ہے، اسرائیل کو استعمال کرکے اسے تہس نہس کر دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری دانست میں ایران کا اسرائیل پر حملہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی عرب ملکوں پر شدیدگراں گزرا ہے۔
ہیں جال وہ ہوا میں کہ آتے نہیں نظر
خوشبو بھی ہو نہ جائے گرفتار دیکھنا
انصاف کا تقاضا ہے کہ ایرانی حملہ کو جوابی کاروائی سمجھتے ہوئے معاملہ رفع دفع کر دیا جائے اور اسرائیل اور اسکے اتحادی اسے انا کا مسئلہ نہ بنائیں۔ فوجی جارحیت کسی بھی مسئلے کاحل نہیں ہوتی۔ "جیو اور جینے دو"کے اصول کو تھاما جائے۔ امریکہ کو اب اکیسویں صدی میں داخل ہو جانا چاہیے اور اپنی خون آلود تاریخ پر بند باندھ دینا چاہیے کہ امریکہ نے دنیا کا کوئی خطہ نہیں چھوڑا جہاں بلاواسطہ اوربلواسطہ دہشتگردی نہ کی ہو۔ اگر اسرائیل اور اس کے اتحادی ایران کے خلاف کوئی بھی عسکری کاروائی کرتے ہیں تو عرب ملکوں کو ایران کا ساتھ دینا چاہیے۔ اگرا یسا نہیں کیا جاتا تو دنیا کی نظر میں ایران ڈار سے بچھڑی ہوئی ایک کونج ہوگی مگر جس کا افسوس سب کو ہوگاجیسے صدام حسین کے عراق کا ہوا تھا۔
ایک دل میں بھی مِری یاد اگر زندہ ہے
کیا ضروری ہے کہ چرچا رہے گھر گھر اپنا