Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Iran Israel Kasheedgi, Jang Ya Difa?

Iran Israel Kasheedgi, Jang Ya Difa?

ایران اسرائیل کشیدگی، جنگ یا دفاع؟

سن زو کہتا ہے کہ ہر جنگ دھوکہ دہی پر مبنی ہوتی ہے۔ یہ صرف قول نہیں بلکہ سن زو کی اس بات کی صداقت دنیا میں بار بار دیکھی گئی ہے۔

امریکہ نے عراق پر حملہ ایٹمی ہتھیاروں کا بہانہ بنا کر کیا۔ نائن الیون کو جواز بنا کر افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ بھارت نے پلوامہ واقعے کو بنیاد بنا کر پاکستان کی فضائی حدود کو چیلنج کیا۔ اسرائیل نے حماس کی کارروائیوں کو بہانہ بنا کر فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے اور اب ایران پر ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کا الزام لگا کر جنگ چھیڑ دی ہے۔ یہ سب جنگیں دفاع، کے نام پر لڑی گئیں اور لڑی جا رہی ہیں، حالانکہ دفاع اور جنگ، دو متضاد حقیقتیں ہیں۔

دفاع وہ عمل ہے جو اپنی سرزمین، عوام اور اقدار کے تحفظ کے لیے کیا جاتا ہے۔ دفاع میں مقصد دشمن پر حملہ نہیں بلکہ اپنی بقا ہوتی ہے۔ جبکہ جنگ اکثر مفاد، طاقت کے اظہار، یا سیاسی و جغرافیائی تسلط کے لیے لڑی جاتی ہے۔ دفاع فطرت کا حصہ ہے جبکہ جنگ سیاست کا ہتھیار۔ بدقسمتی سے طاقتور ممالک نے دفاع کو ایک نعرہ بنا دیا ہے، جس کے نیچے جنگ چھپتی ہے۔

آج کی دنیا میں سب سے بڑا ہتھیار شاید ہتھیار خود نہیں، بلکہ بیانیہ ہے۔ طاقتور ملک جب بھی کسی کمزور ریاست پر حملہ کرتے ہیں، تو پہلے میڈیا کے ذریعے ذہن سازی کی جاتی ہے۔ ایک دشمن تراشا جاتا ہے، اس پر الزامات کی گٹھری رکھی جاتی ہے، پھر اسے دفاع کے لبادے میں لپیٹ کر تباہی کے منصوبے پر عمل کر لیا جاتا ہے۔

آج مشرقِ وسطیٰ ایک نئی جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ایران اور اسرائیل کی کشیدگی عروج پر ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنا رہا ہے، جبکہ ایران اس الزام کو رد کرتا ہے۔ اسرائیل کے لیے محض ایران کا جوہری پروگرام نہیں، بلکہ اس کی نظریاتی مزاحمت بھی ایک خطرہ ہے۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ جب اسرائیل، غزہ کو کھنڈر میں بدل دیتا ہے، یا ایران پر حملے کرتا ہے، تب عرب دنیا خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ اس خاموشی کی وجہ ہم سب جانتے ہیں کہ بہت سے عرب ممالک اب اسرائیل سے سفارتی تعلقات، معاشی معاہدے قائم کر چکے ہیں۔ تیل کی سیاست اور مغربی حمایت یہ سب کچھ امت کے نام پر قربان کر دیا گیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کیا کرے؟ جذبات میں آ کر کسی ایک فریق کی عسکری حمایت کرنا یا سڑکوں پر نعرے لگانا تو آسان ہے، مگر ریاستیں نعروں سے نہیں بلکہ تدبر سے چلتی ہیں قطع تعلق بقول شاعر مشرق:

تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے

خطے اور عالمی سیاسی و عسکری حالات اور ٹرمپ کے جارحانہ رویہ کو مد نظر رکھ کر دیکھا جائے تو پاکستان کو اس وقت نہایت متوازن، دانشمندانہ اور ذمہ دارانہ پالیسی اختیار کرنی چاہیے۔ کسی بھی عالمی یا علاقائی تنازع میں عملی مداخلت سے اجتناب برتنا چاہیے کیونکہ ہمارا ملک پہلے ہی معاشی، سیاسی اور سیکورٹی بحرانوں سے نبرد آزما ہے۔ بہتر یہ ہوگا کہ پاکستان اقوامِ متحدہ، او آئی سی اور دیگر عالمی فورمز پر ایران کے خلاف کسی ممکنہ حملے کی کھل کر مخالفت کرے۔ ساتھ ہی ساتھ ثالثی اور مکالمے کی راہیں نکالنے کے لیے سفارتی کوششیں تیز کرے، تاکہ خطے میں امن قائم رکھا جا سکے۔

اس موقع پر ملکی میڈیا، جامعات اور دینی قیادت کو بھی آگے آ کر عوام کو یہ باور کرانا ہوگا کہ اصل جنگ بندوق سے نہیں، بیانیے سے جیتی جاتی ہے۔ پاکستان کو ہر فیصلہ اپنی خودمختاری، سالمیت اور قومی مفاد کے تناظر میں کرنا ہوگا، نہ کہ جذباتی نعروں کی بنیاد پر۔

اسرائیل کی موجودہ جنگی پالیسی وقتی ردعمل سے زیادہ، ایک طویل المدتی منصوبہ بندی کا حصہ دکھائی دیتی ہے۔ وگرنہ یہ ممکن نہیں تھا کہ اسرائیل ایک ہی وقت میں بہت سے محاذ کھول دیتا۔ وہ چاہتا ہے کہ خطے میں اس کا مکمل سیاسی، عسکری اور معاشی تسلط قائم ہو جیسا کہ بھارت کے مودی کی خواہش تھی جو پاکستان کے آپریشن بنیان مرصوص نے خاک میں ملا دی تھی۔

علاوہ ازیں، فلسطین کی مزاحمت کو ختم کرنا، ایران کو تنہا کرنا اور عرب ریاستوں کو اپنے زیرِ اثر لانا، یہ سب اسرائیل کے اسٹریٹیجک مقاصد ہیں۔ اسرائیل سمجھتا ہے کہ اگر ایران کمزور ہوگیا تو اس کے بعد خطے میں کوئی بھی طاقت ایسی باقی نہیں رہے گی جو اسے للکار سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران پر حملہ صرف جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے تک محدود نہیں ہوگا، بلکہ ایران کے سیاسی اثرورسوخ کو بھی کچلنے کی کوشش کی جائے گی۔

حقیقت یہ ہے کہ دفاع کا مطلب دشمن پر وار کرنا نہیں، بلکہ خود کو بچانا ہے۔ آج جو ممالک جنگ کو دفاع کے نام پر بیچ رہے ہیں، وہ انسانیت کو اندھے کنویں میں دھکیل رہے ہیں۔

ایران ہو یا فلسطین، شام ہو یا یمن، پاکستان ہو یا بھارت، مرنے والا عام انسان ہی ہے۔ کسی کا بچہ، کسی کا شوہر، کسی کا والد اور جو لوگ خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں، وہ کل خود بھی اس آگ کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔

یہ وقت ہے کہ پاکستان جذبات سے نہیں، بصیرت سے فیصلے کرے۔ ایک ایسی بصیرت جو ہمیں اپنی زمین، اپنے لوگوں اور اپنے مستقبل کو بچانے کے قابل بنائے۔ بقول شاعر مشرق علامہ محمد اقبال:

اندھیر شب میں چراغِ نظر ہے مردِ بصیر
وہی امینِ حرم، وہی نگہبانِ حجاز

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz