Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Iqtibas Aur Zindagi

Iqtibas Aur Zindagi

اقتباس اور زندگی

کتابیں انسان کی فکری اور روحانی ترقی کا سب سے بڑا ذریعہ اور سہارا ہیں۔ یہ محض کاغذ اور لفظوں کا مجموعہ نہیں ہوتیں بلکہ انسانی تجربے، مشاہدے اور دانائی کی صدیوں پر محیط تاریخ کا نچوڑ اپنے اندر سمیٹے ہوتی ہیں۔ ایک اچھی کتاب قاری کو اپنے آپ سے مکالمہ کرنے پر مجبور کرتی ہے، اسے سوچ کے نئے دریچے عطا کرتی ہے اور زندگی کی پیچیدہ گرہوں کو سلجھانے میں مدد دیتی ہے۔

اچھی کتاب کا سب سے نمایاں وصف یہ ہے کہ وہ قاری کے دل و دماغ کو وسعت دیتی ہے، اس میں برداشت اور تفکر پیدا کرتی ہے، جذبات کو پس پشت رکھنے کی تلقین کرتی ہے اور حقیقت کے قریب لے جاتی ہے۔ جیسا کہ وولٹئیر نے کہا تھا: "کتابیں وہ کھڑکیاں ہیں جن سے انسان ایک وسیع تر دنیا کو دیکھتا ہے"۔ اس کے برعکس بری کتاب بظاہر پرکشش اسلوب رکھتی ہے مگر اس کا حاصل الجھاؤ، تعصب اور سطحی لذت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ وہ حقیقت کو دھندلا دیتی ہے، خود غرضی کو بڑھاتی ہے اور انسان کو سوچنے کی بجائے بہکانے لگتی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کتاب کا انتخاب دراصل زندگی کے رخ کا انتخاب ہے۔

رواں دنوں بابو ویجندر لال رائے (بنگال) کا لکھا ہوا ڈرامہ، "قوم پرست" جسکا اردو ترجمہ سُدرشن نے کیا ہے، راقم السطور کے زیر مطالعہ ہے۔ یہ ڈرامہ انارکلی، لاہور سے فٹ پاتھ پر فروخت کی جانے والی پرانی کتابوں سے ملا تھا۔ اس ڈرامہ کے ناشر تاج کمپنی لمیٹڈ، ریلوے روڈ ہیں اور کتاب پر قیمت دو روپے چھپی ہوئی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ سن ساٹھ کی دہائی میں شائع ہوئی ہوگی۔ ڈیلی اردو کالمز کے قارئین کے ذوق اور دلچسپی کے لیے اس ڈرامہ سے اقتباس پیش کیا جا رہا ہے۔

رانی: یہ آپ اس قدر بے پرواہ کیوں رہتے ہیں؟ ہر کام میں اور ہر جگہ یہ بے پروائی اچھی نہیں معلوم ہوتی۔

سورتان: بے پروا کیوں رہتا ہوں۔ میری پیاری رانی! اس زمین پر مصیبتوں کے طوفان میں گِھرے ہوئے انسان کے لیے بے پروائی ہی ایک ایسی چیز ہے جو اُسے بچا سکتی ہے ورنہ وہ پاگل ہو جائے۔

رانی: آپ کی یہ بات میں بالکل نہیں سمجھ سکی۔

سورتان: یہ دنیا کیا ہے؟ اس میں انسان کیا ہے؟ یہ ایک میدان کارزار ہے۔ جس کی مخالف اور مواقف طاقتوں کے درمیان انسان کھڑا ہے۔ ہر ایک طاقت اُسے اپنی طرف کشش کرتی ہے۔ انسان کو اگر بچنا ہے تو اُسے مرکز میں کھڑا رہنا چاہیے۔ ورنہ جدھر جُھکے گا، وہی طاقت اُسے نگل جائے گی۔

رانی: کیوں؟

سورتان: دو بیویوں کا شوہر کیا کر سکتا ہے؟ دونوں عورتیں لڑتی اور جھگڑتی ہیں۔ ایک دوسرے کو شکست دینے کی پوری پوری کوشش کرتی ہیں۔ اگر خاوند سمجھدار ہے تو دونوں سے الگ کھڑا رہتا ہے اور یہ تماشا دیکھ دیکھ کر مُسکراتا جاتا ہے۔ لیکن اگر وہ کسی کی طرفداری کرتا ہے تو پھر اُس کی تباہی میں کسی کو شبہ نہیں رہتا۔ اسی طرح یہ دنیا، یہ قُدرت۔۔

رانی: تو پھر آپ اس زندہ جیتی جاگتی دنیا میں پتھر کی مانند خاموش کھڑے رہنا چاہتے ہیں؟

سورتان: مجھے یقین ہے کہ جو ہوتا ہے وہ لازمی طور پر ہو جائیگا اور اُس کے رستہ میں کوئی طاقت، کوئی مخالفت، کوئی مزاحمت نہیں ٹھہر سکتی اور جو نہیں ہو سکتا، اُس کے لیے دنیا بھر کو زیر و زبر کر دینا بھی بیکار ہے۔

رانی: بہت اچھا خیال ہے۔ کانوں میں سیسہ ڈال کر بیٹھے رہو اور دنیا کی جدوجہد میں کسی قسم کا بھی حصہ نہ لو۔

سورتان: فضول طاقت خرچ کرنے کا کیا فائدہ ہے۔ طاقت فراہم کرنا چاہیے۔

رانی: مگر اُس کی ضرورت کیا ہے؟ جب ہم اُسے خرچ کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے؟

سورتان: تم بہت سادہ لوح ہو۔ یہ نہایت لطیف فلسفہ ہے۔ تم اسے نہیں سمجھ سکتی۔

رانی: اور پرماتما کرے میں اسے کبھی نہ سمجھوں۔

تارا: آپ نے دیکھا؟

سورتان: کیا بیٹی؟

تارا: شیر کا بچہ؟

سورتان: کہاں ہے؟

تارا: ہم سب نے اسے شیرنی کی گود سے چھینا ہے۔۔ وہ دیکھیئے۔ آہ! کتنا خوبصورت ہے۔

سورتان: تارا۔ یہ تم نے کیا حماقت کی۔ شیرنی بچہ چھن جانے پر نہایت خونخوار ہو جاتی ہے اور اس وقت اسے اپنی جان کی ذرا بھی پرواہ نہیں رہتی۔ دیکھ لینا! تھوڑی دیر کے بعد وہ تمہارے دروازہ پر دہاڑ رہی ہوگی۔

تارا: اوں! دہاڑ رہی ہوگی۔ میں اس کے جبڑے چیر دونگی۔

سورتان: بیٹا! کہنا آسان ہے۔ پر کرکے دکھانا مشکل ہے۔ تم شیرنی سے لڑو گی؟ بھولی بیٹی! تم اس سے لڑ سکو گی؟

تارا: وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔

سورتان: شیرنی اگر سونگھنا اور دھاڑنا ہی جانتی تو معمولی بات ہوتی۔ مگر وہ کچھ اور بھی کر سکتی ہے۔ کیا تم نے نہیں سنا کہ وہ آدمی کے گوشت کو بہت پسند کرتی ہے۔

تارا: مگر آپ ڈرتے کیوں ہیں؟ چلئیے میں آپ کے ساتھ ہوں۔

سورتان: کیا دیکھوں گا۔ شیر کا بچہ شیر ہی کی مانند ہوگا مگر۔۔ ہاں دیکھو تارا! اب تمہیں یہ مردانہ لباس زیب نہیں دیتا۔

رانی: کیوں زیب نہیں دیتا؟ جب مرد جنگ سے بھاگ کھڑے ہونے میں شرم محسوس نہیں کرتے۔ جب ان کی مونچھیں مردانگی کھو کر بھی کھڑی رہتی ہیں۔ جب ان کی آنکھوں میں دلیری، بازوؤں میں طاقت نہیں رہی۔ جب ان کے دل بہادری سے محروم ہو گئے ہیں اور وہ پھر بھی اپنا وہی لباس پہن رہے ہیں۔ تو اس لڑکی کو یہ لباس کیوں زیب نہیں دیتا؟

سورتان: رانی! تمہارا خیال نہایت ہی ذلیل قسم کا اور سخت گمراہ کن ہے۔ کاش تم نے نیائے شاستر (منطق) پڑھا ہوتا۔

تارا: تو پتا جی! کیا آپ شیر کا بچہ نہیں دیکھیں گے؟

رانی: بیٹی کسے کہہ رہی ہو۔ شیر کا نام نہ لو۔ یہ ڈر جائیں گے۔ ان کا دل دہل جائے گا۔ خوف سے ان کی آنکھیں بند ہو جائیں گی اور عجب نہیں کہ یہ غش کھا کر گر جائیں۔ یہ شیر کے بچے کے پاس کس طرح جا سکتے ہیں؟ یہ مرد ہیں۔ شیرنی کے بچے کو عورت پکڑ سکتی ہے۔ اس کے ساتھ کھیل سکتی ہے اور اگر شیرنی غضب کی حالت میں سامنے آ جائے تو اس کے پنجے مروڑ سکتی ہے۔ آؤ۔ چلو۔ تمہارا شیرنی کا بچہ میں دیکھوں گی۔ (رانی اور تارا کی روانگی)۔

سورتان: عورت کی طبیعت کو میں نے آج تک نہیں سمجھا۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan