Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Insaniyat Kis Simt Ja Rahi Hai?

Insaniyat Kis Simt Ja Rahi Hai?

انسانیت کس سمت جا رہی ہے؟

یقیناً کسی سوال کو مکمل سمجھ لینا دراصل آدھا جواب تیار کر لینے کے مترادف ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موضوع ہذا کو گرفت میں لانے سے قبل ضروری ہے کہ دیکھا جائے انسانیت کا مطلب کیا ہے؟

انسانیت صرف انسان ہونے کا حیاتیاتی نام نہیں ہے بلکہ دراصل وہ بلند تر شعور ہے جو انسان کو خود غرضی، نفرت اور تکبر و تعصب سے اوپر اٹھا کر رنگ، نسل، زبان، مذھب، فرقہ، ذات کا فرق کیے بغیر محبت، عدل و انصاف، احترام، بھائی چارہ اور ہمدردی کی راہ دکھاتا ہے۔

برٹرینڈ رسل اپنی کتاب "ہیومن سوسائٹی ان ایتھکس اینڈ پالیٹکس" میں رقمطراز ہیں کہ "انسانیت کا اصل امتحان یہ نہیں کہ انسان کیا جانتا ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ اپنی دانائی کو دوسروں کی بھلائی کے لیے کس طرح استعمال کرتا ہے"۔

المختصر، انسانیت احساس، عقل اور کردار کا وہ حسین امتزاج ہے جو انسان کو مخلوقِ خدا کے ساتھ محبت کرنے، ان کے دکھ درد کو اپنا سمجھنے اور عدل و انصاف، درگزر، برداشت کو اپنی فطرت کا حصہ بنانے پر آمادہ کرتا ہے۔ انسان اور حیوان میں بنیادی فرق بھی بس یہی ہے۔

اب سوال کہ انسانیت کس طرف جا رہی ہے؟ دنیا اور پاکستان دونوں کے تازہ ترین حالات حاظرہ پر ایک سرسری سی نظر ڈال کر دیکھیں تو ہم اس سوال کا جواب یوں دیں گے کہ بقول علامہ اقبال:

ابھی تک آدمی صید زبون شہریاری ہے
قیامت ہے کہ انسان نوع انسان کا شکاری ہے

اگرچہ انسان نے سائنس و ٹیکنالوجی میں بے حد ترقی کر لی ہے مگر دل کی گہرائیوں میں ایک خاموش خلا بھی پیدا کر دیا ہے۔ آج کا انسان عقل میں آگے تو ہو رہا ہے مگر احساس میں پیچھے ہوتا جا رہا ہے۔ مشینوں نے انسان کی زندگی آسان بنائی ہے مگر دوسری طرف روح کو بے روح کرکے رکھ دیا ہے۔

کارل یونگ نے ایک جگہ کہا تھا کہ انسان روح کی تلاش میں ہے۔ آج یہ جملہ پہلے سے بھی کہیں زیادہ سچا لگتا ہے۔ انسان نے زمین، سمندر اور خلا کو فتح تو کر لیا مگر اسکے اپنے اندر کی دنیا آج بھی اجنبی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کہکشائیں کتنی دور ہیں، مگر یہ نہیں جانتا کہ اپنے ہی دل تک کیسے پہنچا جائے۔

یہ زمانہ بظاہر روشنی کا دور ہے مگر اندر سے دھندلا۔ ترقی کے شور میں معنی کی آواز دب چکی ہے۔ تعلیم جوں جوں بڑھ رہی ہے ویسے ہی شعور کم ہوتا جا رہا ہے۔ محبت اب احساس کا نام نہیں رہا بلکہ اظہار بن گئی ہے۔ شاید اسی لیے فیملی کورٹس محبت کے مقدمات سے بھری پڑی ہیں۔

سماجی تناظر سے دیکھا جائے تو انسانیت کسی دو راہے پر کھڑی ہے۔ ایک طرف انسانی حقوق، انصاف، آزادئی اظہار رائے اور سائنسی ترقی سانسیں لے رہی ہیں (اگرچہ ان میں بھی ملاوٹ کا شائبہ ہے)، دوسری طرف لالچ، مفاد پرستی اور خود غرضی کی اندھیر نگری پھیلتی جا رہی ہے۔ انسان نے بم سے زیادہ طاقتور دماغ تو بنا لیے مگر دل کو موم کی طرح نرم کرنے کی کوشش نہیں کی۔

الفریڈ ایڈلر کا خیال تھا کہ انسان کی عظمت اس کے "سماجی مفاد" میں پوشیدہ ہے، یعنی دوسروں کے لیے جینے میں۔ مگر آج کا انسان اپنی ذات کے حصار میں قید ہے۔ وہ دوسروں سے نہیں، اپنی تصویر سے محبت کرتا ہے۔ اس کے لیے دوسروں کی تکلیف محض ایک خبر ہے، احساس نہیں۔

برٹرینڈ رسل نے لکھا تھا کہ "انسان کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ محبت کے بغیر جینا سیکھ گیا ہے اور نفرت کے ساتھ جینا برداشت کر گیا ہے"۔

سچ تو یہ ہے کہ جب زندگی کا مطلب گم ہو جائے تو انسان سب کچھ کھو دیتا ہے۔ آج زندگی بے مقصد ہے۔ لوگ کامیاب ہیں مگر خوش نہیں۔ روزمرہ کی دوڑ نے انسان کو خود سے ہی اجنبی بنا دیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ انسانیت کا مسئلہ سمت سے زیادہ توازن کا ہے۔ آج عقل اور دل کے درمیان، علم اور ضمیر کے درمیان، ترقی اور احساس کے درمیان توازن بگڑ گیا ہے۔ علم نے بہت کچھ سکھایا مگر صبر نہیں۔ ٹیکنالوجی نے فاصلوں کو ختم کیا مگر قربتوں کو گھٹا دیا۔

آج لوگ عبادت کرتے ہیں مگر انسانیت بھول گئے ہیں۔ امن کے نعرے تو لگاتے ہیں مگر دلوں میں زہر ہے۔ تعلقات قائم کرتے ہیں مگر قربت سے گھبراتے ہیں۔ انسان بظاہر تو آزاد ہے مگر اندر سے قیدی مگر اسے شعور نہیں۔

انسان اپنی خودغرضی، دکھاوا، مصنوعیت اور بےحسی کو جب پہچان لے گا تو سمت درست ہو جائے گی۔ لیکن کیپیٹلزم کے ہوتے ہوئے یہ پہچان آنا ممکن نہیں کیونکہ اس نظامِ کی ہانڈی روٹی ہی انہی سماجی بیماریوں کے پیدا کرنے سے ہوتی ہے۔

مجموعی تناظر سے دیکھا جائے تو انسانیت بتدریج ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ پاکستان اس مد میں کہیں آگے ہے۔ انسانیت تب سے ہی ڈگمگا رہی ہے جب سے سرمایہ دارانہ نظام نے اپنی جڑیں مضبوط کرنا شروع کین۔

حاصل کلام یہ کہ نیاز فتح پوری اپنی کتاب بعنوان من و یزداں میں رقمطراز ہیں کہ "انسان آگے بڑھ رہا ہے، انسانیت پیچھے ہٹ رہی ہے۔ دماغ ترقی کر رہا ہے، روح تنزل کر رہی ہے۔ اس وقت کا انسان ایک ایسا مستسقی (پیاسا) ہے جس کے سامنے دریا جاری ہے اور وہ پانی پینے کے لیے آزاد، لیکن اُس کی روح جس چیز کے لیے بےتاب ہے اُس کا کہیں پتا نہیں"۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz