Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Helmet Ke Neeche Dabe Shehri

Helmet Ke Neeche Dabe Shehri

ہیلمٹ کے نیچے دبے شہری

قارئین نے بھی مشاہدہ کیا ہوگا کہ آئے روز ٹریفک پولیس اور سول پولیس دھمکی آمیز ویڈیوز، اخباری اشتہارات اور سوشل میڈیا وارننگز کے ذریعے موٹر سائیکل سواروں، رکشہ چلانے والوں اور غریب طبقے کے دوالے ہوئی رہتی ہے۔ کبھی ہیلمٹ کو موضوعِ جرم بنا لیا جاتا ہے اور جب سب نے ہیلمٹ پہننا شروع کر دیا تو گلی محلوں میں سودا سلف لینے کے لیے ایک منٹ کی ڈرائیو پر ہی ہیلمٹ نہ پہننے والوں کے خلاف کارروائیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ کبھی جرمانے اس قدر غیر معمولی رقم کے ہوتے ہیں کہ بندہ سر پکڑ کر بیٹھ جائے اور کبھی مقدمات درج کرنے کی دھمکیاں عام کر دی جاتی ہیں۔ لگتا ہے کہ حکومت کے یہ اقدامات محفوظ سفر کے ڈھکوسلے تلے نااہل پولیس کو اہل دکھانے کا ایک تماشہ ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب غریبوں کو مزید کچلنے، ان کی معمولی خوشیوں کو ضبط کرنے اور انہیں مسلسل خوف کی فضا میں رکھنے کا ایک حربہ ہے۔ عوام کا سکون تو مہنگائی پہلے ہی نگل چکی ہے، اب ان کا باقی اطمینان بھی جرمانوں، مقدموں اور دھمکیوں سے ختم کیا جا رہا ہے۔

لاہور کے ہر چوک پر کوئی نہ کوئی "ہیلمٹ وارڈن" کھڑا ملے گا۔ کلمہ چوک سے لبرٹی، لکشمی چوک سے جی پی او چوک تک، جہاں جہاں رش ہے، وہاں پولیس بھی "کارکردگی" کے نام پر نظر آتی ہے۔ عجب تماشا یہ ہے کہ جہاں ٹریفک سب سے زیادہ جام ہوتی ہے مثلاً ٹھوکر نیاز بیگ، سگیاں پل یا فیروزپور روڈ وہاں عموماً پولیس غائب ہوتی ہے۔ شہریوں کی زبان میں اب "ٹریفک پولیس" نہیں بلکہ "چالان پولیس" مشہور ہو چکی ہے۔ ان کا کام یہ نہیں کہ حادثہ روکا جائے بلکہ یہ ہے کہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر جرمانہ وصول کیا جائے۔

حکومت اور پولیس دونوں ہی جانتے ہیں کہ غریب موٹر سائیکل والا یا رکشہ ڈرائیور مزاحمت نہیں کرتا۔ یہ نہ وکیل کی فیس دینے ھوگا ہے اور نہ ہی عدالت کے چکروں میں جوتے گھسانے کا سٹیمنا ہے، اس لیے وہ آسان شکار ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قانون کا نفاذ اب طاقتوروں پر کم یا برائے نام اور کمزوروں پر زیادہ ہوتا ہے۔ بڑے بڑے شیشے چڑھائے لینڈ کروزر، پراڈو والے قانون شکنی کے باوجود عزت سے گزر جاتے ہیں جبکہ ایک محنت کش جس کی موٹر سائیکل ہی اس کی روزی ہے، چند سو روپے نہ ہونے کے باعث ذلیل و خوار ہوتا ہے۔ پولیس کا یہ رویہ "طاقت کی نفسیات" کہلاتا ہے جس کے مطابق اختیار رکھنے والا ادارہ کمزور پر اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے قانون کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے۔

حالانکہ پولیس کی اصل کارکردگی تو وہاں دیکھی جانی چاہیے جہاں چوری، ڈکیتی، گاڑی چھیننے یا قتل جیسے جرائم بڑھ رہے ہیں۔ مگر ان جرائم کی روک تھام میں کارکردگی صفر ہے۔ اس صفر کو ڈھانپنے کے لیے پولیس اب غریبوں کے سر پر لاٹھی لے کر چڑھی ہوئی ہے۔ ہر تھانے کی کارکردگی اب گاڑیوں کے چالانوں اور ڈرائیوروں پر مقدمات کے حساب سے ناپی جاتی ہے۔ اگر کوئی سپاہی روزانہ پچاس موٹر سائیکل والوں کو نہ روکے تو شاید اس کا افسر ناراض ہو جاتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ وہ عام شہریوں کو خوفزدہ کرنے میں مصروف ہیں اور جو ڈکیت، چور یا قاتل ہیں، وہ اطمینان سے دندناتے پھرتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر بھاری جرمانوں اور مقدمات کے باوجود لاہور میں ایکسیڈنٹ ختم نہیں ہو رہے تو پھر اس ناکامی کا بوجھ بھی پولیس پر کیوں نہ ڈالا جائے؟ اگر ٹریفک قوانین کے باوجود روزانہ درجنوں حادثات ہوتے ہیں، تو پھر ان حادثات کے رونما ہونے کی پاداش میں ٹریفک پولیس سے بھی جرمانے وصول کیے جانے چاہئیں اور خزانے کو اس طرح بھرنے کے حربہ کو بھی حکومت پنجاب کو استعمال کرنا چاہئیے۔ اتنے قانون، اتنی وارننگز اور اتنی سختیاں کرنے کے بعد بھی اگر سڑکیں محفوظ نہیں، تو اس کا سیدھا اور صاف مطلب ہے کہ نظام ناکام ہے۔

لاہور کے اعداد و شمار چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ مسئلہ چالانوں کا نہیں، نظام کا ہے۔ صرف 2024 میں شہر میں دو ہزار سے زائد ٹریفک حادثات رپورٹ ہوئے جن میں درجنوں ہلاکتیں ہوئیں۔ ان میں سے بیشتر واقعات ناقص سڑکوں، خراب سگنلز، یا غیر تربیت یافتہ ڈرائیوروں کی وجہ سے پیش آئے۔ لیکن حادثات کی ان بنیادی وجوہات پر ٹریفک پولیس نے غور نہیں کیا۔ فیروزپور روڈ اور وحدت روڈ کی روزمرہ ٹریفک بتاتی ہے کہ وہاں مسئلہ ہیلمٹ نہیں، انتظامی بدنظمی ہے۔

یہی بدنظمی شہریوں کے ذہنوں میں یہ احساس جاگزیں کر رہی ہے کہ قانون ان کے لیے نہیں بلکہ ان کے خلاف ہے۔ شہری قانون سے خوفزدہ ہیں۔ قانون اب دھونس بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج شہری پولیس سے تعاون کے بجائے اسے دور سے دیکھ کر راستہ بدل لیتے ہیں۔

بجا کہ خوف انسان کی جبلّت ہے، مگر ریاست کا کام اس خوف کو قابو میں رکھنا ہے نہ کہ اسے پھیلا دینا۔ مگر یہاں الٹی روش ہے۔ پولیس عوام کی محافظ کے بجائے ان کے اعصاب کی دشمن بن چکی ہے۔ وہ شہری جو ٹیکس دیتا ہے، قانون پر یقین رکھتا ہے، آخر وہ کب تک خوف میں جئے گا؟

اگر حکومت واقعی عوام کی حفاظت چاہتی ہے تو اسے "پرفارمنس پولیسنگ" کے بجائے "انسانی پولیسنگ" کی طرف آنا ہوگا۔ عوام کو قانون کے ذریعے سہارا چاہیے، دھمکی نہیں۔

ہم مانتے ہیں کہ ٹریفک قوانین ضروری ہیں، مگر ان کے نفاذ کا لہجہ حیوانی نہیں انسانی ہونا چاہیے۔ جرمانے ایک عام آدمی کی ماہانہ امدنی، قوت خرید اور مہنگائی کو مدنظر رکھ کر متعین کرنے چاھئیں۔ ٹریفک قوانین کی آگاہی کے لیے سوشل میڈیا پر لیکچر آپ لوڈ کرنے سے قبل لیکچرر کی باڈی موومنٹ، لب و لہجہ، الفاظ کا اتار چڑھاؤ اور آئی کیو کا جائزہ لینا چاھئے تاکہ دیکھنے سننے والے یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ لیکچرر میں چنگیز خاں کی روح حلول کر گئی ہے۔

قصہ کوتاہ آج ہر پاکستانی بالخصوص لاہور کا شہری مہنگائی سے، پٹرول قیمتوں سے، بے یقینی سے تھکا ہوا ہے اور اب اس "ہیلمٹ و لائسنس ریاست" نے تو ہلکان کر دیا ہے۔ اگر یہی طرزِ حکمرانی جاری رہا تو ایک دن عوام سڑکوں پر نہیں، دلوں میں قانون سے بھاگیں گے اور جب قانون سے اعتماد اٹھ جائے تو پھر نہ ریاست سلامت رہتی ہے نہ سماج۔ یقین نہیں آتا تو امسال بنگلہ دیش، سری لنکا، مراکش اور نیپال میں عوامی مزاحمت کا لاوا اُبلتا تصور کیا جا سکتا ہے۔

Check Also

Gumshuda

By Nusrat Sarfaraz