Heart Attack Ka Khof
ہارٹ اٹیک کا خوف

کبھی کبھار ایک وڈیو پوری قوم کی نبض پر آ بیٹھتی ہے۔ ایک لمحہ، ایک منظر اور ایک چیخ ہمارے اندر کے کسی خوف کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔ چند دن پہلے ایک ایسی ہی وڈیو دیکھنے کو ملی جس میں کریسنٹ ماڈل سکول کے ٹیچر نیاز احمد ایک ٹریننگ سیشن کے دوران لیکچر دیتے ہوئے اچانک دل کے دورے کے سبب انتقال فرما گئے اور یوں وہ منظر جو ہال میں تعلیم کی علامت ہونا تھا، اچانک موت کی گواہی بن گیا۔ یہ وڈیو دیکھ کر کچھ لوگ رو پڑے، کچھ سہم گئے اور کچھ کے دل اپنی دھڑکنوں پر جم گئے۔
مگر ایک بڑا طبقہ وہ تھا جو فوراً خود کو اس مقام پر تصور کرنے لگا اور دل کی دھڑکنوں کا جائزہ، سینے کے بائیں طرف ہلکی سی بے چینی، ہاتھ کی انگلیوں میں خفیف جکڑن اور پھر وہ سوال کہ کہیں میرے ساتھ بھی تو ایسا ہی نہیں ہونے والا؟ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب انسان حقیقت سے نہیں، امکان سے ڈرنا شروع کر دیتا ہے اور جب خوف، امکان کی شکل میں سوچ میں سرایت کرتا ہے، تو جسم کو بھی قائل کر لیتا ہے کہ کچھ نہ کچھ تو گڑبڑ ہے۔ نتیجتاً شخص ایسی صورتحال میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ جیسے بقول احمد فواد:
دن ہے اپنا نہ رات ہے اپنی
یہ محبت ہے یا مصیب ہے
شاید اسی وجہ سے ہمارے دو آفس کولیگز جواد اور ابو ذر نے گذشتہ ہفتے دوپہر کو سینے میں مبینہ درد، بے چینی اور گھبراھٹ کی شکایت کی۔ حالانکہ یہ درد نہیں تھا بلکہ معدے کی تیزابیت کا اثر تھا کیونکہ دونوں موصوف چٹ پٹا لنچ کرتے ہیں اور وہ بھی بازار سے خرید کر۔ کبھی سموسے، کبھی نہاری، کبھی پکوڑے، کبھی برگر اور کبھی کچھ۔ ہم نے متعدد دفعہ الا بلا کھانے سے دور رہنے کے پند و نصائح جاری کیے مگر موصوف حضرات سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ یا اس بات سے ناواقف ہیں کہ سیانے کا کہا اور اولے کا کھایا بعد میں سواد دیتا ہے۔
ہم کو بھی بعض دفعہ خصوصاً جب کھانا بچنے کا امکان نظر آئے، دعوت طعام دے دیتے ہیں جس کو ہم شکریہ کہہ کر معذرت کر لیتے ہیں کیونکہ اول تو ہم ملایشیا کے سابق وزیر اعظم اور عالمی شہرت یافتہ سیاستدان مہاتیر محمد جنہوں نے گذشتہ دنوں اپنی 100 ویں سالگرہ منائی کی اس بات کو فالو کرتے ہیں کہ کم کھائیں اور پڑھنا لکھنا جاری رکھیں، دوم بازاری کھانے سے پرہیز ہی کرتے ہیں اور سوم اس لیے معذرت کر لیتے ہیں کہ جنہوں نے پیسے خرچ کیے ہیں، لنچ انہی کا حق ہے، یہ نہ ہو کہ ہمارے شاملِ طعام ہونے سے وہ بھوکے ہی رہ جائیں۔
لکھنے کا مقصد یہ کہ کسی بھی بات کو پلے باندھ لینا، بار بار اس پر سوچنا دراصل دور جدید کا نفسیاتی ہارٹ اٹیک ہے۔ نیاز احمد کی وڈیو اور ہارٹ اٹیک کی خبروں پر فوکس کرنے کی وجہ سے نہ خون کی رکاوٹ اور نہ شریان کی سوجن ہوتی ہے بلکہ صرف دماغ کی مسلسل دھڑکنیں اپنا کام دکھا جاتی ہیں جو جسم کو قائل کرتی ہیں کہ وہ بیمار ہے اور یوں ایک صحتمند انسان دن میں تین بار دل پر ہاتھ رکھ کر سوچتا ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ حالانکہ زیادہ تر اوقات میں کچھ نہیں ہو رہا ہوتا بس صرف ہم ہو رہے ہوتے ہیں۔
بابائے نفیسات سگمنڈ فرائیڈ کا کہنا ہے کہ ذہنی خلفشار اکثر جسمانی علامتوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور جب معاشرے میں اچانک ہارٹ اٹیک کی خبریں عام ہو جائیں، تو یہ خلفشار صرف ذاتی نہیں رہتا، اجتماعی بن جاتا ہے اور اسی صورتحال میں ہمارے کولیگز مبتلا تھے۔ بہرحال اس میں کوئی مبالغہ والی بات نہیں کہ رواں سال سے نوجوانوں میں خصوصاً اور بڑوں میں عموماً ہارٹ اٹیک سے انتقال کی خبریں آ رہی ہیں، اس کی وجہ سے اب حال یہ ہے کہ جو لوگ خبروں سے بچنا چاہتے تھے، وہ بھی دل تھامے بیٹھے ہیں۔ کوئی رات کو سونے سے پہلے سینے پر ہاتھ رکھتا ہے، کوئی صبح ناشتہ چھوڑ کر ڈاکٹر کے پاس دل کا ای سی جی کرانے جاتا ہے اور کوئی یوٹیوب پر"ہارٹ اٹیک کی علامات" لکھ کر خود کو آدھا مرحوم سمجھ لیتا ہے۔
کسی سیانے نے بہت خوب کہا تھا کہ جو ہر وقت موت کا سوچے، وہ زندگی کی سانس نہیں لے پاتا۔ لہذ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم خوف کو ڈرائیں۔ نیاز احمد کی ویڈیو ہمیں یہ نہیں سکھاتی کہ ہم مرنے والے ہیں، بلکہ یہ بتاتی ہے کہ ہم زندہ ہیں اور جتنی دیر زندہ ہیں، جینا سیکھیں۔ ورنہ وہم کا ہارٹ اٹیک، بیماری سے پہلے ہی ہمیں شکست دے جائے گا۔
اور یہاں ایک اور لمحہء فکریہ ہے کہ ہم خود کو مریض تو بنا لیتے ہیں، مگر علاج سے گریز کرتے ہیں۔ ہم ڈاکٹر کو نہیں، یوٹیوب کو پوچھتے ہیں اور یا پھر ڈاکٹر گوگل سے بیماری پر گُگلی پھینکنے کا کہتے ہیں۔ ہم دعا نہیں کرتے، بلکہ دل کی دھڑکن کی آوازیں سننے کے لیے سناٹا تلاش کرتے ہیں اور جب کوئی کہتا ہے کہ سب خیریت ہے، تو ہمیں شک ہوتا ہے کہ شاید سب خیریت ظاہر میں ہے، اصل میں نہیں۔ گویا گومگو کی ایسی صورتحال میں مبتلا ہو جاتے ہیں یعنی:
میں کیہڑے پاسے جانواں
میں منجی کِتھے ڈانواں
حقیقت یہ ہے کہ دل کا مسئلہ زیادہ تر دل کا نہیں ہوتا، بلکہ وہم کا ہوتا ہے۔ یہ وہ وہم ہے جو تھکن کو مرض سمجھتا ہے، بے چینی کو اشارہ اور نیند کی کمی کو دل کا الارم۔ ہم سب کسی نہ کسی درجے میں ایسے مریض ہو چکے ہیں جو رپورٹس کے نارمل آنے پر بھی مطمئن نہیں ہوتے اور پھر کہنے لگتے ہیں کہ پتہ نہیں، بس دل ٹھیک نہیں لگ رہا، کچھ تو گڑ بڑ ہے۔
اگر بغور جائزہ لے کر دیکھیں تو شاید ہم بیماری سے نہیں ڈرتے، بلکہ موت کے اچانک پن سے خوفزدہ ہیں۔ وہ اچانک پن جو نیاز احمد ٹیچر کی ویڈیو میں نظر آیا، زندگی سے لبریز ایک انسان، اگلے لمحے خاموش۔ یہی تصور ہمیں ہارٹ اٹیک سے زیادہ ہارٹ ٹوٹنے کا سبب بنتا ہے اور یہی وہ لمحہ ہے جہاں سے ہمیں اپنے خوف کا علاج شروع کرنا چاہیے۔ کیونکہ اگر ہم صرف خوف سے بھاگتے رہے تو ہو سکتا ہے ہم موت سے پہلے ہی مر جائیں اور یہ مرنا ایک ایسا مرنا ہے جو قہقہوں کو دبا دیتا ہے، چہروں کو بُجھا بُجھا کر دیتا ہے اور دل کو مسلسل شک میں مبتلا رکھتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دل کو محبت، ہنسی اور یقین چاہیے، موت کا سائرن نہیں۔
زندگی کے بند دروازوں سے ٹکرانے کے بعد
راستے کچھ عقل و دل کے درمیاں سے مِل گئے

