Haq Mehar
حق مہر

عدالتوں میں خلع اور طلاق کے دن بہ دن بڑھتے ہوئے کیسز نے مشرقی خاندانی نظام کا شیرازہ بکھیر دیا ہے۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ یہ معاملات صرف رویوں یا ناچاقیوں تک محدود نہیں رہتے بلکہ "حق مہر" کو لے کر بھی شدت اختیار کر جاتے ہیں۔ کئی دفعہ نکاح کے وقت طے کیا جانے والا مہر بعد میں مقدمات اور تنازعات کا باعث بنتا ہے۔ یہ صورتحال سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ مہر کی اصل حکمت کیا تھی اور آج یہ کس رخ پر موڑ دیا گیا ہے۔ کیا یہ عورت کی عزت و تکریم کا ضامن ہے یا خلع کے وقت صرف مالی تلافی کا ہتھیار بن گیا ہے؟ انہی سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کے لیے آج ہم چند ورقے کالے کریں گے اس خیال کے ساتھ کہ بقول شاعر مشرق علامہ اقبال:
اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد
نہیں ہے داد کا طالب یہ بندۂ آزاد
نکاح کو عبادت بھی کہا جاتا ہے اور معاہدہ بھی۔ لیکن بدقسمتی سے آج یہ معاہدہ ہمارے پاکستان میں بتدریج کاروباری ڈیل بنتا جا رہا ہے اور اس ڈیل کی سب سے بڑی شق حق مہر ہے!
اسلام نے مہر کو عورت کا بنیادی حق قرار دیا۔ قرآن نے صاف حکم دیا ہے کہ عورتوں کو ان کے مہر خوشی خوشی دے دو۔ ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ بابرکت نکاح وہ ہے جس میں خرچ کم ہو۔ مگر آج کے دور میں جب قاضی یا نکاح خواں نکاح کے کاغذ پر پہنچتے ہیں اور مہر کا سوال اٹھاتے ہیں تو کئی گھروں یا میرج ہالز میں اچانک ایسا لگنے لگتا ہے کہ جیسے نکاح نہیں بلکہ نیلامی ہو رہی ہے۔
پہلے رشتہ طے کرتے وقت لڑکی والے مسکرا کر کہتے ہیں کہ جی بس تھوڑا سا سونا، کچھ کپڑا لتہ ہماری بچی کے لیے دعا کریں۔ لیکن جونہی نکاح کے وقت قاضی صاحب قلم سنبھالتے ہیں، اعلان ہوتا ہے "حق مہر، پچاس لاکھ روپے، ایک پلاٹ، ایک کار اور دو تولے سونا"۔ بارات والے حیران رہ جاتے ہیں کہ یہ نکاح ہے یا پراپرٹی ڈیل؟ دلہا اور اسکے والدین سوچوں میں ڈوب جاتے ہیں کہ انکار کریں تو بارات شرمندہ ہو جائے گی اور اگر مان لیں تو اگلے پچاس سال سود اور قسطوں میں گزریں گے۔ اس لمحے لاڑے کا چہرہ دیکھ کر لگتا ہے جیسے وہ نکاح نہیں بلکہ بینکار کے ہتھے چڑھ گیا ہو۔
ایسی صورتحال میں سوال جنم لیتا ہے کہ آخر زیادہ مہر رکھنے کی نیت نیک ہے یا بدنیت؟ اگر مقصد عورت کے مستقبل کا تحفظ ہے اور دولھا فیملی استطاعت رکھتیں ہو تو یہ ایک سنجیدہ بات ہے۔ مگر اگر پسِ پردہ سوچ یہ ہو کہ کل خلع لے کر یا کسی خانگی جھگڑے میں اس رقم سے فائدہ اٹھایا جائے تو یہ صاف دھوکہ دہی ہوتی ہے۔
اگرچہ نیت کا کھرا پن مکمل طور پر جانچنا ممکن نہیں۔ لیکن پھر کچھ اشارے پہچانے جا سکتے ہیں کہ نیت کھری ہے یا کھوٹی۔ اگر خاندان کا سارا زور صرف مال اور جائیداد پر ہو اور کردار، دین داری، بھائی چارہ، افہام و تفہیم یا ہم آہنگی پر بات نہ کی جائے۔ اگر لڑکی خود سادگی پر راضی ہو لیکن اس کے گھر والے ضد پر قائم ہوں۔ یا اگر عین نکاح کے لمحے اچانک رقم سو گنا بڑھا دی جائے تو یہ سب نکات نیک نیتی پر سوالیہ نشان ثبت کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بہتر یہ ہوگا کہ مہر کا معاملہ ہمیشہ نکاح سے پہلے ہی تحریری طور پر طے کر لیا جائے تاکہ بعد میں نہ کسی گڑ بڑ کا خدشہ رہے اور نہ کوئی ابہام باقی رہے۔ عین نکاح پر اچانک مہر بڑھانا دراصل سماجی دباؤ کے ذریعے بلیک میلنگ کا ایک طریقہ ہوتا ہے کیونکہ ایسے وقت میں انکار کرنے کا مطلب ہوتا ہے بارات کی واپسی اور سب کے سامنے شرمندگی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہی انکار اصل وقار کی علامت ہے۔ لیکن زیادہ تر دولھے والے اس دباؤ کو سہہ نہیں پاتے اور ہاں کہہ دیتے ہیں۔ بعد میں یہی ہاں زندگی بھر کا بوجھ بن جاتی ہے۔
عام طور پر جب کوئی خاندان مہر کو حد سے زیادہ بڑھا دیتا ہے تو اس کے پیچھے عموماً احساسِ کمتری یا دکھاوا ہوتا ہے، اپنی کمیوں کو چھپانے کی کوشش ہوتی ہے جسے عرف عام میں سماجی برتری کا ڈراما کہا جاتا ہے۔
اگرچہ دین اسلام نے مہر کی کوئی حد مقرر نہیں کی لیکن سادگی کو لازمی قرار دیا ہے۔ حضرت فاطمہؓ کا مہر ایک زرہ تھا۔ نبی آخرت زمان ﷺ کی بیشتر شادیاں نہایت سادگی سے ہوئیں۔ مقصد یہی تھا کہ نکاح کو سہولت بنایا جائے، مشکل نہیں۔ آج اگر ہم سنت پر عمل کریں تو شادی محبت اور اعتماد کا معاہدہ بنے گی۔ لیکن اگر ہم نے اسے کاروباری ڈیل میں بدل دیا تو نہ محبت باقی رہے گی نہ اعتماد اور بدقسمتی آج ملک میں زیادہ تر یہی کچھ ہو رہا ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں مہر کا ریٹ چلنے لگا ہے۔ کہیں بیٹی کا مہر لاکھوں میں بیان کیا جاتا ہے، کہیں پلاٹ اور کوٹھیاں شادی کے پیکج کا حصہ بنتی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ یہ نکاح نہیں بلکہ پراپرٹی ڈیلرشپ اور شادی بیورو کا مشترکہ منصوبہ ہے۔ اگر یہی روش جاری رہی تو نوجوان شادی سے بھاگنے لگیں گے اور اس کا نقصان صرف مرد کو نہیں بلکہ عورت اور پورے خاندانی ڈھانچے کو ہوگا۔ نیز یہ بھی کہ بقول احمد ندیم قاسمی:
خدا کے سامنے کس منہ سے جائیں گے خدا جانے
محبت کا کوئی دھبہ نہیں ہے جن کے دامن پر
جس تواتر سے خاندانی نظام کا شیرازہ بکھر رہا ہے تو یہ بعید از قیاس نہیں کہ آج نہیں تو کل اخبارات میں ایسی خبریں پڑھنے کو ملیں گی کہ "بارات شادی ہال سے واپس لوٹ گئی کیونکہ حق مہر کروڑوں میں جا پہنچا"۔ "کاش یہ رشتہ دلوں کا ہوتا، رقموں کا حساب نہ ہوتا۔ دولھا" یہ خیال آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے کہ آج ایک مقدس رشتے کو بازار کی بولی کیوں بنا دیا گیا ہے۔
مکدی گل یہ کہ مہر اپنی اصل روح میں عورت کی عزت اور وقار کی علامت ہے نہ کہ خاندانوں کی انا کا ہتھیار یا دکھاوے کا ذریعہ۔ اگر اسے اعتدال اور نیک نیتی سے رکھا جائے تو یہ رشتوں میں برکت کا سبب بنتا ہے۔ لیکن اگر اسے کاروباری شرط بنا دیا جائے تو یہی برکت زحمت میں بدل جاتی ہے۔ حکومت پاکستان کو بھی حق مہر کی رقم فکس کرنے کے لیے قانون سازی کرنے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کو ٹاسک سونپنی چاھئیے۔ ابھی صورتحال اتنی زیادہ نہیں بگڑی۔ اس لیے اب فیصلہ ہو جانا چاھئے کہ نکاح کو عبادت بنانا ہے یا سودا۔

