Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Expired Cricket Team

Expired Cricket Team

اکسپائرڈ کرکٹ ٹیم

دبئی میں بھارت کے خلاف میچ میں پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کو جو شکست ہوئی ہے وہ حیران کن اور ناقابل توقع ہے۔ یہ اس لیے کہ بھارت کے اہم ترین فاسٹ باؤلر جسپریت بمرا میچ میں نہیں کھیل رہے تھے جبکہ یہ بھارت کے واحد فاسٹ باؤلر ہیں جو دنیائے کرکٹ کے بیٹیسمین کے لیے درد سر بنتے ہیں۔ پاکستانی ٹیم ہر مخالف ٹیم کے سامنے میچ جیتنے کے لیے نہیں بلکہ میچ ہارنے سے بچنے کے لیے کھیلتی ہے اور یہی سب سے بڑی خرابی ہے۔ ہمارے کھلاڑیوں اور کوچز کسی کو بھی علم نہیں کہ کھیل صرف جیتنے کے لیے نہیں بلکہ مضبوط عزم اور عمدہ کردار کا مظاہر ہ کرنے کے لیے کھیلے جاتے ہیں۔

پاکستان کے سابق مایہ ناز فاسٹ باؤلر وسیم اکرم نے بجا فرمایا ہے کہ پاکستانی ٹیم سن اسی کی دہائی کی کرکٹ کو آج کھیل رہی ہے۔ یہ الگ بات کہ پاکستان ہر معاملہ میں دنیا خصوصاً ترقی یافتہ ممالک کے سامنے صدیوں پیچھے ہی چل رہا ہے۔ دوڑ میں پیچھے رہ جانے کی بنیادی وجہ صرف کرپشن زدہ معاشرہ ہے۔ کرکٹ میں بھی پاکستانی ٹیم کے کئی کھلاڑی کرپشن یعنی بال ٹیمپرنگ وغیرہ میں ماضی میں سامنے آ چکے ہیں۔

بھارت سے شکست کی چیدہ وجوہات میں بیٹرز کی بال کو سٹروک لگانے میں ناہلیت، آؤٹ ہونے کا خوف، پاور پلے اور سنگل رن کی اہمیت سے ناواقفیت، غیرذمہ داری کا مظاہرہ اور بھارت کی عمدہ بیٹنگ لائن اور پے در پے شکستوں کا نفسیاتی خوف ہیں۔ دیکھا جائے تو پہلے دس اوورز میں بال کو دائرے میں موجود فیلڈرز کے سروں سے اوپر سے ھٹ کرنا کوئی زیادہ مشکل نہیں ہوتا اور نہ ہی اس میں بیٹر کو زیادہ طاقت لگانی پڑتی ہے۔ لیکن ہمارے بیٹرز کے بازوؤں میں جان ہی نہیں جو کہ روہت شرما کے بازؤں میں ہے۔ حالانکہ پاکستانی کرکٹرز گوشت کھانے والی قوم کے کھلاڑی ہیں جبکہ بھارتی کھلاڑی دال کھانے والی قوم کے۔ پھر بھی جان نہیں تو سوچنا تو چاہیے۔

پہلے دس اوورز میں ہماری قومی ٹیم پانچ رنز کی اوسط ہی حاصل کر پائی۔ بیٹنگ لائن فلاپ ہونا تو ایک طرف رہا لیکن شاہین آفریدی کا پہلی ہی گیند پر ایل بی ڈبلیو آؤٹ ہونا اور فوری ریویو لے لینا غیرسنجیدگی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ ایک طرف ریویو ضائع کیا اور دوسری طرف آفریدی کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ الگ بات کہ شرمندہ ہونے والا شخص شرمندگی کا باعث بننے والی کوئی حرکت کرتا ہی نہیں۔

میچ کے آخر میں بھارت کو جیت کے لیے آٹھ رنز درکار تھے اور اتنے ہی رنز ویرات کوہلی کو اپنی سنچری مکمل کرنے کے لیے درکار تھے۔ کوہلی نے اپنے ساتھی بیٹر پاٹل کو باؤلر کا سامنا ہی نہیں کرنے دیا اور دو دو رنز کے ساتھ سنچری کی جانب بڑھے۔ اوور کی آخری گیند پر سنگل لیکر پھر بیٹنگ کے لیے تیار ہو گئے۔ یہ سب پاکستانی فیلڈرز اور باؤلرز دیکھ بھی رہے تھے لیکن انہوں نے اس بات کا نوٹس تک نہیں لیا کہ میچ تو ہارنا ہی ہے کم از کم ویرات کوہلی کو سنچری تک پہنچنے تو روکا جائے۔ حالانکہ ایسا کرنا بہت آسان تھا کہ دو چار نو بالز یا وائیڈ بالز کروا کر ٹارگٹ پورا کروا دیتے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری ٹیم صرف کھیلنے ہی میں کمزور نہیں ہے بلکہ ذہنی طور پر بھی بہت کمزور واقع ہوئی ہے۔

اگر کوہلی کا پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ برادرانہ سلوک، تسمے باندھنا وغیرہ کو دیکھا جائے تو اسے پاکستانی کھلاڑی خصوصاً باؤلرز اپنی ذہنی پستی کا مداوا کرتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ حُسن سلوک کا جواب سنچری بنوا کر دیا۔ بظاہر یہ مانا جا سکتا ہے لیکن یہ بھی غلط نہیں ہوگا کہ عین ممکن ہے کوہلی نے اپنا برادرانہ سلوک واری وٹہ کی امید کی وجہ سے اختیار کیا ہو! البتہ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ کوہلی نے سپورٹس مین شپ کا عمدہ مظاہرہ کیا جو کہ پاک بھارت میچز میں بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کو گولڈن شیک ھینڈ دے کر فارغ کر دینا چاہیے کہ یہ ایکسپائرڈ ہو چکی ہے اور نئی ٹیم بنانی چاہیے۔ پاکستان سُپر لیگ کا جلد ہی آغاز ہونے والا ہے، پی سی بی کو اس سپر لیگ سے پاکستانی ٹیم کا چناؤ کرنا چاہیے اور غیرملکی فیزیو، کوچز وغیرہ سے کنڑیکٹ کرنے کی بجائے لوکل ٹیلنٹ سے استفادہ کرنا چاہیے جس سے پی سی بی کا بجٹ بھی کم خرچ ہوگا اور کرکٹ کا معیار بھی بہتر ہوگا کیونکہ پاکستانی تاریخ شاہد ہے کہ جس ادارے میں بھی سی ایس ایس، پی سی ایس آفیسرز داخل ہوئے، وہ محکمہ خسارے میں گیا، اس کے ملازمین کو سر پلس یا گولڈن شیک ھینڈ دیکر بیروزگار کر دیا گیا۔

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed