Monday, 14 July 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Dard Ko Bhi Chahat Chahiye Hoti Hai

Dard Ko Bhi Chahat Chahiye Hoti Hai

درد کو بھی چاہت چاہیے ہوتی ہے

انسان کو زندہ رہنے کے لیے کھانا، پانی اور آکسیجن درکار ہوتی ہے۔ مگر جب اس کی روح کی خوراک کی بات آتی ہے تو پھر اس کی اصل بھوک روٹی نہیں بلکہ محبت کی ہے۔ بغور دیکھا جائے تو محبت دنیا کا سب سے طاقتور جذبہ ہے جو انسان کو زندہ بھی رکھتا ہے اور برباد بھی کر دیتا ہے۔ آج کا انسان ترقی کی بلندیوں پر پہنچ چکا ہے۔ چاند پر ڈیرے ڈال رہا ہے، مصنوعی ذہانت کی دنیا بسا رہا ہے، مگر دل اب بھی ایک نرم لمس، ایک سچے بول اور ایک اپنائیت بھرے انداز و نظر کو ترستا ہے۔ محبت کی یہ طلب اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود انسان کی روح اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج جب کوئی دل میں اتر جانے والا جملہ سن لیتا ہے، کوئی ہمدردی سے آنکھ بھر کے دیکھتا ہے، کوئی دو چار تعریفی کلمات کہہ دیتا ہے تو وہیں انسان اپنی ساری دنیا ہار بیٹھتا ہے۔

ماہرِ نفسیات کارل راجرز ایک جگہ رقم طراز ہیں کہ انسان کے اندر سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ اسے ویسا ہی قبول کیا جائے جیسا کہ وہ ہے، بغیر کسی شرط کے۔ یہ قبولیت، یہ خالص پن صرف محبت کے جذبے میں ہی ممکن ہے۔ محبت میں نہ لالچ ہوتا ہے، نہ مفاد، نہ رنگ، نہ ذات، نہ فرقہ، نہ عمر، نہ تعلیم، نہ مذہب، نہ سٹیٹس۔ بلکہ ایک فطری کھچاؤ، ایک لاشعوری عمل ہوتا ہے جو چند لمحات میں دل کو دل سے جوڑ دیتا ہے۔

بدقسمتی سے آج کے سرمایہ دارانہ زمانہ میں ہر چیز کی قیمت ہے، ہر تعلق میں غرض ہے، ہر ایکشن میں مفاد چھپا ہوتا ہے اور یہی سب انسان کو اندر سے کھوکھلا کرتا ہے، دیمک لگا دیتا ہے۔ جسکے نتیجہ میں وہ محبت کے ایک ایک قطرے کے لیے ترستا ہے۔ اس کی نظر جس چہرے پر ذرا سی شفقت دیکھتی ہے، وہیں وہ اپنے جذبات لٹا دیتا ہے۔ بقول پروین شاکر:

اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی

رومی کہتے ہیں کہ ہماری روح محبت کی بھوکی ہے اور یہ بھوک صرف اس جگہ مٹتی ہے جہاں دلوں کا سچ بولا جاتا ہے۔ یہ بھوک صرف محبوب کے لیے مخصوص نہیں، بلکہ ماں کی ممتا سے لے کر دوست کی رفاقت، بیوی کا خلوص، استاد کی شفقت، آفیسر کی نرم دلی، ہر جذبے میں شامل ہو سکتی ہے۔ درحقیقت جب انسان کو زندگی کی لو کے تھپیڑے لگتے ہیں، تو وہ صرف اور صرف محبت کی چھاؤں ڈھونڈتا ہے۔ جہاں اسے کوئی ایک شخص بھی ایسا مل جائے جو ساتھ دے سکے، جو درد کو سمجھ سکے اور اس سے نکلنے میں مدد دے سکے تو وہیں اس کا سارا دکھ گویا کسی معجزے کی صورت ختم تتر بتر ہو جاتا ہے۔

ماہر نفسیات ابراہام ماسلو نے اپنی مشہور کتاب "Hierarchy of Needs" میں محبت کو انسان کی بنیادی ضرورت قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان کو جب روٹی، کپڑا اور مکان میسر آ جاتے ہیں، تو پھر انسان کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اسے چاہا جائے، قبول کیا جائے، پسند کیا جائے، اہمیت دی جائے، عزت دی جائے اور اس کا وجود کسی کے لیے معنی رکھتا ہو۔ آج ہم جس معاشرتی تنہائی، ڈپریشن اور بے سکونی کا شکار ہیں جو کہ صنعتی معاشرہ کا نتیجہ ہے، وہ اصل میں اسی محبت کی عدم موجودگی کی علامات ہیں۔ معاشرہ جس تیزی سے خود غرضی، مادہ پرستی اور جذباتی سرد مہری کی طرف بڑھ رہا ہے، اس میں محبت کرنے والے لوگ قیمتی خزانے کی مانند نایاب ہوتے جا رہے ہیں اور آج شاید چراغ لیکر ہی ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔ اگرچہ ناکامی کا پھر بھی خدشہ برقرار رہتا ہے کیونکہ بقول شاعر:

اندر کے میلے پن کا ملے کس طرح سراغ
اندازہ لوگ کرتے ہیں اجلے لباس کا

محبت کی اہمیت کو دوچند کرتا ہوا ایک دلچسپ اور روحانی پہلو مجھے ریکی طریق علاج میں بھی ملا ہے۔ رواں دنوں کاشا بوئرنگ کی کتاب "ریکی" راقم السطور کے زیر مطالعہ ہے۔ دنیا بھر میں متبادل علاج کی جو روحانی صورتیں سامنے آئی ہیں، اُن میں ریکی ایک ایسا طریقہ علاج ہے جو مکمل طور پر محبت، ہمدردی اور خالص توانائی پر مبنی ہے۔ ریکی تھراپی دراصل ہاتھوں کے ذریعے توانائی کو منتقل کرنے کا وہ عمل ہے، جس میں معالج اپنی روحانی قوت اور نرمی کو بروئے کار لاتے ہوئے مریض کو سکون، شفا اور جذباتی و روحانی توازن مہیا کرتا ہے۔ ریکی کے بانی، میکاؤس اُسوئی کا کہنا ہے کہ ریکی کا مطلب ہے خالص کائناتی توانائی، جو محبت کی اعلیٰ ترین شکل ہے۔ اس علاج میں الفاظ کم اور نیت، توجہ اور خلوص زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ ریکی کا بنیادی فلسفہ یہی ہے کہ جب ہم کسی کو دل سے محبت دے کر چھوتے ہیں، تو شفا خود بخود بہنے لگتی ہے۔ شاید اسی لیے ریکی علاج کو صرف ہاتھ کا لمس نہیں بلکہ دل کا بوسہ سمجھا جاتا ہے۔

محبت صرف دو دلوں کے درمیان رومانوی تعلق کا نام نہیں۔ بلکہ یہ ایک ایسی توانائی ہے جو انسان کو صحیح معنوں میں انسان بناتی ہے۔ بعض اوقات ایک اجنبی کا ہمدردی سے بولنا، ماں کی خاموش دعا، یا کسی دوست کا کندھے پر ہاتھ رکھ دینا، یہ سب انسان کو اندر سے بھر دیتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ محبت ایک علاج ہے، روح کا علاج، دل کا علاج اور سب سے بڑھ کر ذہنی اذیت کا مرہم۔ جہاں محبت نہیں، وہاں انسان صرف زندہ ہوتا ہے، جیتا نہیں۔ وہ سارا دن ہنستا، کام کرتا، ملتا جلتا ہے، مگر تنہائی میں صرف محبت کے نہ ملنے پر مغموم رہتا ہے۔

جب انسان کو روٹی نہ ملے، وہ لڑتا ہے، مگر جب محبت نہ ملے تو وہ ٹوٹتا ہے اور ٹوٹے ہوئے انسان کے اندر اگر کوئی جذبہ بار بار ابھرتا ہے، تو وہ محبت کی طلب ہے، توجہ کی چاہت ہے، چاہے جانے کی خواہش ہے۔ محبت انسان کو مکمل بناتی ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کے لیے سب لوگ، شعوری یا لاشعوری طور پر ترستے ہیں۔ آج انڈسٹریل ازم نے جسطرح ہماری تہذیب، رسم و رواج، کھیل کود، زبان، کھیتوں کھلیانوں، باغوں، ثقافت کو نامحسوس طریقے سے مانند کر دیا ہے اسی طرح محبت کو بھی قصہ پارینہ بننے میں زیادہ دیر باقی نہیں رہی۔ اس سے قبل کہ محبت قصوں کہانیوں تک محدود ہو جائے، ہمیں چاھیئے کہ انسانوں کو محبت دیں، کیونکہ شاید ہمارا ایک نرم لمس، ایک میٹھا بول، ایک مسکراہٹ بھری نظر کسی کی روح کی بھوک مٹا دے۔

Check Also

Drop Site News, Ki Aik Aham Magar Ghair Musadaqa Khabar

By Nusrat Javed