Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Dakuon Ke Sath Samjhota

Dakuon Ke Sath Samjhota

ڈاکوؤں کے ساتھ سمجھوتہ

ریاست جب بندوق کی گولی اور امن کی خواہش کے درمیان پھنسی ہو تو فیصلے اکثر عقل کی بجائے زیادہ تر مجبوریوں میں کیے جاتے ہیں جسے عرف عام میں گوڈے ٹیکنا کہا جاتا ہے۔ حکومت سندھ کی کچے کے علاقوں میں ہتھیار ڈالنے والے ڈاکوؤں کو معافی اور روزگار دینے کی پیشکش پہلی نظر میں صلح جوئی کا قدم لگتی ہے مگر اس فیصلے کے اندر کئی سوال ایسے دبے پڑے ہیں جو کسی بھی لمحے سر اٹھا سکتے ہیں۔

ڈاکوؤں کو ہتھیار ڈالنے کی پیشکش یا معافی کا اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کئی سالوں کی گولی، تاوان، اغوا اور خوف کی فضا نے ریاست کی رٹ کو متزلزل کیا اور قانون کی عملداری مذاق بنتی رہی۔ اب سندھ حکومت چاہتی ہے کہ تشدد کی مہم کو محبت کی پالیسی سے شکست دے جو کہ عجیب و غریب لگتا ہے جب ہزاروں مظلوموں کی آہ و بکا تصور میں آتی ہے۔

ذرا گہرائی میں جا کر دیکھیں تو نظر آئے گا کہ کچے کے علاقے کی پوری کہانی طاقت کی نفسیات سے جڑی ہے۔ ڈاکو محض بندوق نہیں اٹھاتے، وہ اس خوف پر حکومت کرتے ہیں جو عام لوگوں کے ذہنوں میں پیوست ہو جاتا ہے۔ جب کسی خطے میں پولیس کئی دہائیوں تک طاقتور زمینداروں کی نوکری اور کمزور شہریوں کی نگرانی کرتی رہے تو وہاں جرائم پیشہ لوگ خود کو متبادل ریاست سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔

سگمنڈ فرائیڈ کا کہنا ہے کہ انسان کے اندر چھپا ہوا خوف، طاقت ملتے ہی انتقام میں ڈھل جاتا ہے۔ ڈاکو بھی دراصل اسی انتقامی نفسیات کا شکار ہوتے ہیں۔ پہلے محرومی، پھر اثر و رسوخ، پھر وسائل اور آخر میں ہولناک غرور و تکبر۔ یہی غرور انہیں اس مقام تک لے آتا ہے جہاں ریاست کے ساتھ مقابلہ ان کے لیے حلوہ ہو جاتا ہے۔ کیا ایسے مجرم محض روزگار کی ٹریننگ سے بدل جائیں گے یا یہ سب وقتی پیکج کے بعد دوبارہ پرانی پناہ گاہوں میں جا گھسیں گے؟ اس کا جواب دینا آسان نہیں۔

اگرچہ معافی کا سارا عمل بظاہر اچھا لگتا ہے، مگر زمینی حقائق میں پولیس اہلکاروں کی لاشیں بھی شامل ہیں، وہ بچے بھی شامل ہیں جو تاوان ادا نہ ہونے پر برسوں قید رہے۔ اب اگر انہی علاقوں کے مجرم ہتھیار رکھ کر باعزت روزگار پائیں تو اس معاشرے میں قانون پسند شہری کو یہی پیغام جائے گا کہ پہلے جرم کرو، شہرت پاؤ، پھر رعایت حاصل کر لو۔ عدالتوں کے چکر کاٹنے والا غریب چور جیل میں سڑتا رہے اور قتل کے مقدمات والا گروہ ریاستی بحالی مرکز کا مہمان بن جائے، تو یہ منظر کس طرح انصاف کا چہرہ ثابت ہوگا؟ یہی تضاد معاشرے میں خطرناک پیغام چھوڑے گا کہ قانون کمزور کے لیے ہے اور سمجھوتا طاقتور کا حق ہے۔ یہ الگ بات کہ یہ پیغام پہلے ہی پاکستانیوں کو مل چکا ہے۔

درست کہ کچھ ممالک نے ایسے تجربات کیے اور کہیں کامیابی بھی ملی۔ کولمبیا میں ایف اے آر سی نے برسوں کی خونریزی کے بعد ہتھیار پھینکے اور کئی جنگجو بحالی مراکز کے ذریعے معاشرے کا حصہ بنے۔ افغانستان میں بھی جنگجوؤں کو ہتھیار ڈالنے کے بدلے معاونت دی گئی، مگر وہاں بہت سے لوگ دوبارہ پرانی راہوں پر چل پڑے شاید اس لیے کہ بقول ذوق۔

چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔۔

ان ماڈلز کی کامیابی کی بنیاد سخت نگرانی، سزا کا واضح اصول اور متاثرین کی مکمل داد رسی تھی۔ وہاں ریاست نے رحم ضرور کیا مگر اختیار کا ڈنڈا ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ جبکہ پیارے پاکستان میں ایسی مضبوط نگرانی، شفاف نظام اور غیر سیاسی فیصلہ سازی صرف معجزہ ہی ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ حکومت کا کچے کے ڈاکوؤں کو معافی کا یہ منصوبہ تھکے ہوئے نظام کا ایک تازہ نعرہ بظاہر دکھائی دیتا ہے۔

کچے کے ڈاکو کوئی دودھ پیتے بچے نہیں ہیں کہ انہیں سلائی، کڑھائی، ترکھان، حجام، یا موچی کا ہنر سکھا کر ان کے مستقبل کی تعمیر کر دی جائے۔ یہ ڈاکو ادھیڑ عمر کے مسلح لوگ ہوتے ہیں جن کی ہنر سیکھنے کی عمر گزر چکی ہوتی ہے۔ یہ پکی عمر کے گھاگ ڈاکو ہیں۔ سماجی رتبہ اور جرائم کے ذریعے ملنے والا اثر ان پر سے غائب نہیں ہوگا۔ ڈاکوؤں میں محض کسی ورکشاپ یا روزگار پروگرام کے ذریعے تبدیلی تیزی سے ممکن نہیں ہو سکتی۔ ان گروہوں کے لیے جو برسوں سے ایک مخصوص "پیشہ" چلاتے آئے ہیں، روزگار کے وعدے محض کسی تیاری یا ڈرامے کا حصہ بن سکتے ہیں۔

معروف ہے کہ چور چوری سے جائے مگر ہیرا پھیری سے نہ جائے۔ یہ اکھان اس سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جرم کے ذریعے حاصل کی گئی مہارت اور نفسیاتی ساخت آسانی سے معاشرے کے متبادل کردار میں تبدیل نہیں ہوتی۔

بجا کہ کچے کے ڈاکو اگر واقعی ہتھیار پھینک دیں تو یہ یقیناً مثبت بات ہوگی، مگر اصل امتحان یہ ہے کہ حکومت سندھ ان ڈاکوؤں کے اعتراف جرم، متاثرین کی دلجوئی اور دوبارہ جرم کی روک تھام کے لیے کون سا ایسا ناقابلِ لچک طریقہ وضع کرے گی جو آنے والے برسوں تک چل سکے۔ اگر مجرم کو یہ اشارہ مل جائے کہ ہتھیار ڈال کر آسان معافی مل سکتی ہے، تو کل کوئی اور گروہ بھی پہاڑ، دریا یا جنگل میں جا کر اپنی چھوٹی سی حکومت قائم کر لے گا اور پھر رعایت مانگ لے گا۔ دنیا کے ترقی یافتہ معاشروں کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ وہاں جرم کرنے والا مجرم ہمیشہ غیرت مند نہیں، خوف زدہ ہوتا ہے، کیونکہ اسے معلوم ہے کہ ریاست سزا دینے میں تردد نہیں کرے گی۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ریاست اگر واقعی سنجیدہ ہے تو اسے معافی کے بدلے چند بنیادی شرائط لازم بنانی ہوں گی۔ ملزمان کو مکمل نگرانی میں رکھ کر طویل بحالی پروگرام، خاندانوں کی مالی تلافی، مقدمات کا ریکارڈ محفوظ اور دوبارہ ہتھیار اٹھانے پر فوری اور فیصلہ کن کارروائی وغیرہ۔ اس کے بغیر بحالی محض ایک سیاسی نعرہ بن جائے گا جیسا کہ گزشتہ سالوں میں پچاس لاکھ گھر بنانے کا نعرہ لگا تھا۔

ڈاکوؤں کو دن دھاڑے ہتھیار ڈال کر معافی تلافی کی حکومتی پالیسی کے کچھ اور خطرناک نتائج کا امکان بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ڈاکوؤں کی بحالی کے بادل اگر شہروں کی جانب منتقل ہو جائیں تو امن و امان کا مسئلہ بڑھ سکتا ہے۔ وہ لوگ جو اب تک کچے میں خود ساختہ حکمرانی کرتے رہے ہیں، اگر شہر میں سماجی، معاشی اور سیاسی روابط بنا لیں تو شہری زندگی میں نئے تناؤ پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس صورت حال میں جس کا امکان نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، سندھ حکومت کو "لینے کے دینے نہ پڑ جائیں" یاد کروا سکتا ہے۔ اس کا مطلب صرف خوف کا دوبارہ جنم نہیں بلکہ شہر کے روایتی مجرموں اور نو وارد مسلح افراد کے درمیان طاقت کے نئے توازن کا بن جانا بھی ہو سکتا ہے۔ ریاستی معافی ایک بار جب ایک روایت بن جائے گی تو وہی لوگ جو پہلے پہاڑ یا دریا کی پناہ میں رہ کر بندوق چلاتے تھے، اب شہری علاقوں میں اپنا اثر بڑھانے کے لیے سنجیدہ کوشش کریں گے۔ یہ عمل قانون کے زوال کا باعث بن سکتا ہے۔

امن صرف ہتھیار رکھنے سے نہیں آتا، امن اس وقت آتا ہے جب جرم کا راستہ بند، انصاف کا دروازہ کھلا اور ریاست کی رٹ غیر مبہم ہو۔ سندھ میں اگر ہتھیار ڈالنے والا ڈاکو واقعی سلائی مشین پر آ کر روزی کمائے تو یہ تبدیلی مثالی ہو سکتی ہے، مگر خطرہ یہ بھی ہے کہ کہیں سلائی مشین کے نیچے پھر بندوق ہی دفن نہ ہو جو وقت آنے پر دوبارہ نکل آئے کہ انسانی سرشت کبھی نہیں بدلتی۔

معافی اگر طاقتور کے لیے آسان اور کمزور کے لیے مشکل ہو تو معاشرے میں قانون نہیں، بددلی پیدا ہوتی ہے۔ آج سندھ میں فیصلہ حکومت کرے گی، مگر کل اس فیصلے کا نتیجہ عوام بھگتیں گے۔ لوگ انتظار کریں گے کہ امن لوٹ آیا یا رعایت نے جرم کو نئی طاقت دے دی۔ وقت بتائے گا کہ یہ قدم عقل کی پالیسی تھا یا مصلحت کی مجبوری۔

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail