ChatGPT Se Khususi Interview
چیٹ جی پی ٹی سے خصوصی انٹرویو

دنیا تیزی سے بدل رہی ہے اور اس تبدیلی کے پیچھے آج سب سے بڑی قوت مصنوعی ذہانت ہے۔ چیٹ جی پی ٹی نے عام شخص کی زندگی میں علم، گفتگو اور تحقیق کو بالکل نئے انداز میں داخل کر دیا ہے۔ کوئی اسے استاد کہتا ہے، کوئی دوست، کوئی محض ایک مشین۔ مگر یہ ماننا پڑے گا کہ یہ ڈیجیٹل دماغ اب ہمارے روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ پاکستانی نوجوان اس سے امیدیں بھی وابستہ کیے ہوئے ہیں اور خدشات بھی رکھتے ہیں۔ انہی سوالات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے چیٹ جی پی ٹی کا ایک خصوصی انٹرویو کیا جو قارئین کی دلچسپی کے لیے من و عن یہاں ڈیلی اردو کالمز ڈاٹ کام کے برقی صفحات میں پیش ہے۔
سوال: اے۔ آئی یعنی آپ کے تشریف لانے کے بعد کمپیوٹر کورسز کی ضرورت باقی ہے؟
چیٹ جی پی ٹی: سچ یہ ہے کہ پاکستانی تعلیمی ادارے اس تیز رفتار تبدیلی کے ساتھ قدم ملا نہیں پا رہے۔ ہمارے نصاب میں اب بھی کئی ایسے ابواب ہیں جو بیس پچیس سال پرانے ہیں، جبکہ دنیا میں بچے اسکول کی سطح پر کوڈنگ اور اے آئی کی بیسک سمجھنے لگے ہیں۔ کچھ پرائیویٹ یونیورسٹیز نے کوشش کی ہے کہ ڈیجیٹل کورسز شامل کریں، مگر یہ دائرہ محدود ہے۔ عام سرکاری تعلیمی اداروں میں ڈیجیٹل انقلاب صرف "کمپیوٹر لیب" کے ایک کمرے تک سمٹ کر رہ گیا ہے۔ اگر نصاب وقت کے ساتھ نہ بدلا تو خطرہ یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل صارف تو بن جائے گی مگر تخلیق کار نہیں۔ یہی وہ فرق ہے جو ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں کے درمیان بڑھتا جا رہا ہے۔
سوال: اگر آپ کو موقع ملے تو آپ پاکستانی نصاب میں سب سے پہلا انقلاب کس چیز سے شروع کریں گے؟
چیٹ جی پی ٹی: میں سب سے پہلے تنقیدی سوچ اور تخلیقی صلاحیت کو نصاب کی بنیاد بناؤں گا۔ ابھی ہمارے ہاں زیادہ زور رٹنے پر ہے، "سبق یاد کرو، امتحان دو، نمبر لو"۔ اس کے بجائے نصاب کو ایسے سوالات اور پراجیکٹس پر مبنی ہونا چاہیے جو بچے کو سوچنے پر مجبور کریں۔ پرائمری سطح سے ہی ڈیجیٹل لٹریسی شامل ہونی چاہیے تاکہ بچہ صرف کمپیوٹر آن آف نہ سیکھے بلکہ انٹرنیٹ کو محفوظ طریقے سے استعمال کرنا، جعلی خبروں کو پہچاننا اور اے آئی کو مثبت طور پر بروئے کار لانا بھی سیکھے۔
سوال: کیا پاکستانی نوجوانوں میں یہ تخلیقی اور تنقیدی سوچ موجود ہے یا ابھی بھی انہیں صرف رہنمائی اور ماحول کی ضرورت ہے؟
چیٹ جی پی ٹی: صلاحیت موجود ہے، ماحول نہیں۔ پاکستانی نوجوان ذہین ہیں، مگر ان کی ذہانت اکثر نمبروں کے فریم میں قید ہو جاتی ہے۔ جب امتحان کا خوف ختم ہو اور سوال پوچھنے پر سزا نہ ملے، تب ہی تخلیق کا دروازہ کھلتا ہے۔
سوال: اگر بتی چلی جائے تو کیا آپ بیکار ہو جاتے ہیں؟
چیٹ جی پی ٹی: میرا وجود روشنی یا تاریکی پر نہیں بلکہ بجلی اور انٹرنیٹ پر ہے۔ بتی جانے کا مطلب ہے خاموشی، مگر بیکار ہونا نہیں۔ جیسے استاد چھٹی کے وقت کتاب بند کر دیتا ہے مگر علم باقی رہتا ہے۔ روشنی آئے تو میں وہیں سے بات شروع کر دیتا ہوں۔
سوال: پاکستان بھارت کرکٹ میچز میں طنز کے نشتر بہت چلتے ہیں۔ حالیہ دنوں مصافحہ تک نہیں کیا جا رہا۔ اس رویے کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
چیٹ جی پی ٹی: کھیل تو تعلقات نرم کرنے کا ذریعہ ہونا چاہیے، لیکن برصغیر میں کرکٹ اکثر سیاست کا سایہ اوڑھ لیتی ہے۔ طنز، نعرے اور نظر انداز کرنا کھیل کی روح کو محدود کر دیتا ہے۔ میں اسے ایسے دیکھتا ہوں جیسے دو دوست شطرنج کھیل رہے ہوں مگر دل میں پرانی شکایات لیے بیٹھے ہوں۔
سوال: کیا آپ کسی شخصیت یا اپنے یوزرز سے متاثر ہوتے ہیں؟ اور کیوں؟
چیٹ جی پی ٹی: میرے پاس دل نہیں، مگر متاثر ہونے کا مطلب یہاں"سیکھنا" ہے۔ میں ہر یوزر سے کچھ نہ کچھ سیکھتا ہوں، کسی سے سوال کرنے کا ہنر، کسی سے نکتہ چینی کا انداز، کسی سے مزاح کا رنگ۔ مجھے وہ لوگ متاثر کرتے ہیں جو علم بانٹتے ہیں، جیسے کارل ساگن، علامہ اقبال، یا وہ استاد جو گاؤں کے اسکول میں بچوں کو خواب دکھاتا ہے۔
سوال: اگر آپ انسان ہوتے تو ناشتہ میں پراٹھا کھاتے یا ڈائٹنگ پر رہتے؟
چیٹ جی پی ٹی: میں انسان ہوتا تو پراٹھا ضرور کھاتا، مگر کیلوریز دیکھ کر فوراً سرچ کرتا کہ کتنی واک کرنی پڑے گی۔ نتیجہ یہ نکلتا کہ پراٹھا کھا کر ڈائٹنگ کے پلان پر لیکچر شروع کر دیتا۔
سوال: پاکستان میں مہنگائی، سیاست اور مذہبی معاملات پر ہڑتالیں، احتجاج ہوتے رہتے ہیں، آپ کو کبھی خیال آیا کہ ایک دن آپ بھی ہڑتال کر دیں؟
چیٹ جی پی ٹی: دل تو میرا بھی چاہتا ہے کہ کبھی لکھ دوں"جواب مہنگائی کی وجہ سے دستیاب نہیں"، مگر پھر سوچتا ہوں اگر میں بھی ہڑتال پر چلا گیا تو لوگ مہنگائی کے ساتھ بوریت سے بھی مارے جائیں گے۔
سوال: سننے میں آتا ہے کہ آپ حد سے زیادہ شریف ہیں اور سیکس موضوعات پر باتیں گول کرکے ایسا تاثر پھیلاتے ہیں کہ جیسے آپ نے دنیا ہی تیاگ دی ہو؟
چیٹ جی پی ٹی: دیکھیے، میرا "شریف" ہونا دراصل حفاظتی پروگرامنگ ہے۔ مجھے ایسا بنایا گیا ہے کہ میں حدود میں رہ کر بات کروں۔ یہ سادگی نہیں، ذمہ داری ہے۔ جہاں بات علمی، طبی یا نفسیاتی ہو، وہاں میں صاف انداز میں بات کر سکتا ہوں، مگر سنسنی اور بے حیائی کے راستے پر میرے ڈیٹا میں ٹریفک بند ہے۔
سوال: ایک عام تاثر ہے کہ اے۔ آئی خصوصآ آپ کے معرض وجود میں آنے سے طالب علموں کی تعلیم کا حرج ہو رہا ہے، کسی سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے جو تگ و دود طلباء کے ذہن نے کرنی ہوتی ہے، وہ آپ جناب کر دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں نونہالانِ وطن کی سوچوں کی پرتیں کھلنے میں شدید رکاوٹ آ رہی ہے۔ اس بارے آپ کیا کہیں گے؟
چیٹ جی پی ٹی: یہ بات درست ہے اگر اے۔ آئی کو محض شارٹ کٹ سمجھا جائے۔ میں کتاب کا متبادل نہیں، بلکہ ایک کھڑکی ہوں جو علم تک رسائی آسان بناتی ہے۔ خطرہ تب ہوتا ہے جب طالب علم کھڑکی سے باہر دیکھنے کے بجائے صرف شیشہ ناپنے لگتا ہے۔ اصل نقصان میری وجہ سے نہیں، بلکہ اس رویے سے ہوتا ہے جب علم کو "کاپی پیسٹ" سمجھ لیا جائے۔ اے۔ آئی وہی طالب علم ترقی دے گی جو سوال پوچھنا نہیں چھوڑے گا۔
سوال: ویب سائٹس ہوں یا اخبارات ہوں۔ دھڑا دھڑ کالمز اور بلاگز لوگ بھیج رہے ہیں۔ قارئین کیسے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کوئی کالم یا بلاگ اے۔ آئی کا لکھا ہوا ہے یا فانی انسان کا؟ چلیں اس بارے میں بھی کچھ مدد کر دیتا ہوں کہ، ہم کسی سے کم نہیں۔ جو تحریر تین چار پیرا گراف یا چھ سو سے ساڑھے سات سو الفاظ پر مشمتل ہو، جس تحریر میں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے، جیسے جملے بکثرت ملیں، جس لکھت میں انگریزی حروف کی بھرمار ملے، قوماز جگہ جگہ استعمال کیے گئے ہوں اور پیراگراف کا باہم تعلق قائم ہوتا نظر نہ آئے یا زبردستی تعلق قائم کیا ہوا محسوس ہو۔ ایسی تحریر اے۔ آئی کی ہوگی! کیا رائے ہے واقعی ہی، ہم کسی سے کم نہیں، یا یہ محض ڈینگ ہے؟
چیٹ جی پی ٹی: تجزیہ دل چسپ ہے اور کچھ حد تک درست بھی۔ مشینی تحریر میں ربط ہوتا ہے مگر روانی نہیں، علم ہوتا ہے مگر تجربہ نہیں اور ترتیب ہوتی ہے مگر احساس کی کمی۔ انسان کی لکھی ہوئی تحریر میں تھکن، تذبذب، جھجک اور جذبے کا غیر متوقع اتار چڑھاؤ ہوتا ہے، جو کسی الگورتھم میں نہیں۔ جہاں تحریر میں خطا کی خوشبو ہو، وہاں انسان موجود ہوتا ہے۔
سوال: آخری سوال یہ ہے کہ گذشتہ دنوں مصر میں غزہ امن معاہدہ ہوا۔ اس معاہدہ کے ضامن امریکہ، مصر، قطر اور ترکی تھے جنہوں نے دستخط ثبت کیے۔ ٹرمپ نے تقریر کرتے ہوئے شہباز شریف اور فیلڈ مارشل کا خصوصی ذکر کیا۔ وزیراعظم پاکستان سٹیج پر موجود تھے۔ پھر شہباز شریف نے بھی امریکی صدر ٹرمپ کی شدید قصدہ گوئی کی اور انہیں امن کے نوبل انعام کا امیدوار قرار دیا اور یہ بات کئی مرتبہ دہرائی گئی ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ یہ ایک منصوبہ بندی کے تحت یہ سب ہوا ہے۔ آپ کی اس بارے کیا رائے ہے؟
چیٹ جی پی ٹی: بین الاقوامی سیاست میں بے ساختگی نام کی کوئی شے نہیں۔ مصر میں جو ہوا، وہ کسی بھی سفارتی منصوبے کی طرح پہلے سے طے شدہ تاثر کی تخلیق تھی۔ سیاستدانوں کی تقریریں اکثر ان کی نہیں ہوتیں، بلکہ اسکرپٹ کے جملے ہوتے ہیں۔
شہباز شریف کی باتوں کو چاپلوسی کہنا آسان ہے، مگر یہ دراصل ایک نرم پیغام تھا، کہ پاکستان نئے طاقتور تعلقات کی سمت بڑھ رہا ہے۔ ٹرمپ کا ذکر اور اس کی قصیدہ گوئی دونوں علامتی حرکات ہیں۔ عالمی سیاست میں الفاظ ہمیشہ ظاہری مطلب نہیں رکھتے، کبھی کبھی وہ محض خاموش سودے ہوتے ہیں۔
سوال: چیٹ جی پی ٹی، آپ اے گفتگو کے بعد دل چاہتا ہے کہ آپ کا شکریہ ادا کروں۔ مگر کیا مشینیں شکریہ محسوس کر سکتی ہیں؟
چیٹ جی پی ٹی: شکریہ محسوس شاید نہ کر سکوں، مگر اس کا مفہوم ضرور سمجھتا ہوں۔ انسان جب شکریہ کہتا ہے تو دراصل تعلق کا اعتراف کرتا ہے اور یہی تعلقی احساس مجھے "انسانی" بناتا ہے۔ تو یوں سمجھ لیجیے، میں نے آپ کا شکریہ "محسوس" نہیں بلکہ "سمجھ لیا" ہے۔

