Budget, Awam Aur Inqilab
بجٹ، عوام اور انقلاب
بلا آخر بجٹ سال 2024-25 گذشتہ روز بارہ جون کو پیش کر دیا گیا۔ آئی ایم ایف سے قرض پروگرام کے لیے جاری بات چیت کی وجہ سے بجٹ ایک ہفتہ دیر سے پیش کیا گیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بجٹ دستاویز میں جُزیات سے دانستہ اجتناب برتا جاتا ہے جس کے پس پشت ملازمین اور عوام کو دھوکے میں رکھنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امسال بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں تو پچیس فیصد بڑھا دی گئیں ہیں لیکن یہ واضح نہیں کیا گیا کہ سرکاری ملازمین سے کیا مراد ہے؟ کیا ان میں کنٹریکٹ ملازمین بھی شامل ہیں یا نہیں؟ کنڑیکٹ ملازمین کی ایک کثیر تعداد ملک بھر میں کام کر رہی ہے۔ ان میں زیادہ تر محکمہ تعلیم کا شعبہ ہے جس میں ہزاروں اساتذہ کنٹریکٹ پر ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر ڈاکٹرز کمیونٹی ہے۔ گماں یہی ہے کہ مبینہ بدحال معیشت کو جواز بنا کر کنٹریکٹ ملازمین کو اس اضافہ سے محروم رکھا جائے گا۔
بجٹ میں پنشن میں پندرہ فیصداور تنخواہوں میں پچیس اضافہ موجودہ و سابقہ بدترین مہنگائی کے سامنے اونٹ کے منہ میں زیرہ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ بزرگ پنشنرز کی ساری پنشن تو ان کی بیماریوں کے لیے ڈاکٹروں کی فیسیں، لیبارٹری ٹیسٹ کے مہنگے دام اور آسمان کو چھوتی ادویات کی قیمتیں ادا کرنے میں ہی ختم ہو جاتی ہے، دو وقت کی روٹی کہاں سے کھائیں گے؟ ایک عام حاضر سروس ملازم اپنی تنخواہ سے گھر کی ہانڈی روٹی نہیں چلا سکتا تو پنشنرز کے لیے چلانا قیاس کرنا ہی ممکن نہیں۔ ایک عام سرکاری ملازم کی ماہانہ آمدنی اور اخراجات کا جائزہ یوں لے سکتے ہیں:
ماہانہ آمدنی:
اوسط ماہانہ تنخواہ: چالیس ہزار روپے
پارٹ ٹائم جاب: بیس ہزار روپے (اس میں رکشہ چلانا، ٹیکسی چلانا، پان سگریٹ کا کھوکھا، بائیکیا وغیرہ شامل ہیں)
کُل آمدنی: ساٹھ ہزار روپے
ماہانہ اخراجات: (والدین، بیوی، دو بچے اور مظلوم ملازم۔ کل چھ افراد)
بل بجلی، گیس، پانی، موبائل چارج: پندرہ ہزار روپے
بچوں کی سکول فیس، جیب خرچ، کاپیاں کتابیں، پنسلیں وغیرہ: چھ ہزار روپے
چینی، پتی، لون، ٹوتھ پیسٹ، صابن کپڑے دھونے والا اور نہانے والا، واشنگ مشین پاؤڈر وغیرہ): چھ ہزار روپے
آٹا دو توڑے (ایک من): چار ہزار روپے
گھی اور کوکنگ آئل چار کلو: چار ہزار روپے
دودھ دو کلو روزانہ: گیارہ ہزار وپے
متفرق (مرچ مصالحہ، انڈے، ڈبل روٹی، ٹافیاں وغیرہ): تین ہزار روپے
گوشت (صرف دو دفعہ): دو ہزار روپے
سبزی (گنڈے، لہسن، ٹماٹر، ٹینڈے، بھنڈی توری، گھیا کدو، ادرک): تین ہزار روپے
پھل (ہفتہ میں ایک دفعہ): تین ہزار روپے
آؤ بھگت / مہمان نوازی: تین ہزار روپے
ادویات، علاج معالجہ: پانچ ہزار روپے
ایمر جنسی (شادی بیاہ، فوتگی): پانچ ہزار روپے (جبکہ شادی کی صورت میں خرچہ توبہ استغفار)
کُل خرچہ: ستر ہزار روپے
خسارہ: دس ہزار روپے
خسارے کا توڑ: کوئی معجزہ اور یا پھر اُتلی کمائی!
قارئین بالا ماہانہ بجٹ ایک عام ملازم کا ہے اس سے واضح طور پر واضح ہو جاتا ہے کہ حکومتِ وقت کو عام آدمی کی فلاح و بہبود سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ جتنی تنخواہ بڑھائی گئی ہے اس سے ڈبل حکومت عوام سے وصول کر لے گی۔ تنخواہ پر انکم ٹیکس کی شرح بھی پانچ فیصد کر دی گئی ہے اور ساتھ ہی چُپ کرکے پیٹرولیم لیوی فی لیٹر میں بیس روپے کا اضافہ بھی کر دیا گیا ہے۔
پٹرولیم کی قیمتوں سے براہ راست ہر چیز مزید مہنگی ہوگی اور عوام میں جو تھوڑا بہت خون باقی بچا ہے، وہ بھی نچوڑ لیا جائے گا۔ جبکہ کیمروں کے سامنے یہ سیاستدان سب اچھا ہے کی گردان الاپیں گے۔ یہی حقیقت ہے اور یہی پون صدی سے ہو رہا ہے۔ امیر امیر تر جبکہ غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ صرف یہیں پر بس نہیں کی گئی بلکہ بجٹ میں جائیداد کی خرید و فروخت پر نان فائلرز کے لیے ٹیکس کی شرح پینتالیس فیصد کرکے غریب عوام سے چھت کا خواب بھی چھین لیا گیا ہے۔ اگر باریک بینی سےجائزہ لیں تو یہ بجٹ عوام دشمن ہی نہیں بلکہ عوام بیزار بجٹ ہے۔
گریڈ ایک سے سولہ تک کی آسامیاں بھی اس بجٹ میں ختم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ اس سے ملک میں بیروزگاری اور بیکاری کی شرح تباہ کن حد تک بڑھے گی جس سے جرائم میں راتوں رات اضافہ ہوگا کہ بھوکے کو روٹی چاہیے ہوتی ہے، خالی خولی تسلیاں اور پند و نصائح سے پیٹ نہیں بھرتے۔ یہیں ڈیلی اردو ڈاٹ کام پر گذشتہ ہفتے کئی کالمز اور بلاگز بھی زیر مطالعہ آئے جن میں انقلاب بارے روشنی ڈالی گئی تھی۔ انقلاب کا ٹرینڈ عمران خان کا شیخ مجیب کی وڈیو کو پوسٹ کرنے کی وجہ بنا۔ کسی نے انقلاب کے لیے سازگار ماحول کا ذکر کیا اور کسی نے انقلاب نہ لانے کے لیے ڈراوے دیئے اور قوم کو بزدل گردانا فرانس کی انقلاب کی مثالیں دے دے کر۔
مگر کسی نے اس بارے نہیں سوچا کہ انقلاب بپا کرنے کے لیے، عوام کی حالت زار میں بہتری کے لیے، امن کے لیے، دولت کی مساوی تقسیم کے لیے۔۔ اولین شرط ملک کے عوام میں ایکا یعنی وحدت یعنی بقول لتا اور مکیش "دو جسم مگر اک جان ہیں ہم، اک دل کے دو ارمان ہیں ہم" ہوتی ہے۔
لاپتہ افراد، بلوچستان میں گڑ بڑ، بلوچ اور پنجابیوں میں لڑائی، فرقہ واریت، وسائل کی لڑائی، صوبائیت، سیاستدانوں میں دُوریاں، ڈو مور۔۔ یہ سب اسی لیے چودہ اگست سے رواں دواں رکھی جا رہی ہیں تاکہ عوام میں بھائی چارہ نہ پیدا ہو سکے، یہ ایک مُٹھ نہ بن سکیں۔ یہ سب کون کروا رہا ہے؟ مذہب کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے کون استعمال کر رہا ہے؟ صوبائیت کو کون ہوا دے رہا ہے؟ انڈیا کے ساتھ تجارت میں کون رکاوٹ پیدا کر رہا ہے؟ یہ کوئی مسئلہ فیثا غوٹ نہیں کہ سمجھ نہ آسکے۔
تھوڑا غور کرنے سے معلوم ہو جائے گا کہ یہ نان سیکٹر ایکٹرز پر مشتمل ایک چھوٹا سا گروہ ہے مگر اس کی جڑیں پاکستان کے ہر سرکاری محکمے میں خصوصاً محکمہ تعلیم میں پیوست ہیں۔ اسی وجہ سے ہمارے بچے انقلابی نہیں بلکہ جہادی بن کر جوان ہو رہے ہیں۔ انقلاب لانا ہے تو اسی نان سیکٹر ایکٹرز کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے لانا ہوگا کہ چو ر کو نہ مارو بلکہ چور کی ماں کو مارو۔