Barsi Muhammad Rafi Ki, Matam Hamari Moseeqi Ka
برسی محمد رفیع کی، ماتم ہماری موسیقی کا

سن اسی کی دہائی میں جب میں دس برس کا تھا، تو ابا جی کے پاس نیشنل کمپنی کا ریڈیو ہوتا تھا جو کہ زیادہ تر صرف بی بی سی سیر بین یا کرکٹ کمنٹری کے لیے ابا جی نے رکھا تھا۔ گویا ریڈیو سارا دن میرے کنٹرول میں رہتا تھا۔ تب آل انڈیا ریڈیو سے نغمات کے دو پروگرام لگتے تھے جو ایک گھنٹہ جاری رہتے تھے۔ صبح سات بجے اور سہ پہر تین بجے۔ ان کے نام "آپ کی فرمائش" اور "آپ کی پسند" تھے۔ یہ دونوں پروگرام مجھے نغمات کا چسکا لگا بیٹھے۔ چھوٹے سے ریڈیو پر کان لگائے، میں دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر ان سروں میں گم ہو جاتا جو دل کے تار چھیڑ دیتے تھے۔ انہی دنوں ایک آواز میرے دل میں اتر گئی، نرم، مہربان، درد و محبت سے لبریز اور دل کے نہاں خانوں تک رسائی رکھنے والی آواز او ر وہ آواز تھی محمد رفیع کی۔
میرے لیے رفیع کی یہ آواز نہیں بلکہ ایک روحانی لمس تھا جو کانوں سے ہوتا ہوا دل تک پہنچتا تھا اور وہیں گھر کر گیا۔ میں نہ تب یہ سمجھ سکا، نہ آج پوری طرح بیان کر سکتا ہوں کہ وہ کون سی کشش تھی، مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ میری موسیقی سے محبت کی پہلی کرن، میری روح کی پہلی طمانیت، محمد رفیع کی آواز کے وسیلے سے ہی ملی۔ وہ آواز آج بھی میرے بچپن کے سنہرے دنوں کی خوشبو کی طرح میرے وجود میں بسی ہوئی ہے۔
آج 31 جولائی کو محمد رفیع کی پینتالیسیویں برسی ہے۔ محمد رفیع 24 دسمبر 1924 کو کوٹلہ سلطان سنگھ (امرتسر) میں پیدا ہوئے اور محض پچپن سال کی عمر میں 31 جولائی 1980 کو وفات پا گئے۔ تقسیم کے بعد وہ ممبئی آ گئے اور فلمی صنعت میں اپنی ریاضت، عاجزی اور غیر معمولی خلوص کی بدولت وہ مقام حاصل کیا جو کسی بھی فنکار کے خوابوں کی انتہا ہو سکتی ہے۔ ان کی آواز میں ایک فطری مٹھاس، تہذیب اور رچاؤ تھا۔ وہ جب گاتے تو سننے والا بھول جاتا کہ یہ گانا ہے یا دعا۔ ان کی گائیکی میں کسی ایک جذبے کا راج نہ تھا۔ وہ رومانس بھی گاتے، رنج بھی، دعا بھی۔ وہ بھجن بھی اتنی ہی عقیدت سے گاتے تھے جتنی شدت سے کسی عاشق کی پکار۔
رفیع کی آواز مجھے اس لیے پسند ہے کہ اس میں کوئی بناوٹ نہیں ہے۔ وہ آواز میں داخل ہو کر گاتے ہیں، باہر سے نہیں۔ جب میں ان کے نغمے سنتا ہوں تو مجھے لگتا ہے جیسے کوئی مہربان انسان میرے قریب آ کر بیٹھ گیا ہو اور مجھ سے میرے دل کی کیفیت سمجھنے لگا ہو۔ ان کے نغمے محض سُر نہیں، بلکہ وہ جذبات ہیں جنہیں بیان کرنا مشکل اور سننا سکون ہے۔ محمد رفیع کی آواز برصغیر کے سروں کی وہ گنگا ہے، جس میں لاکھوں دل دھلتے، مہکتے اور خود کو بھول جاتے ہیں۔ ان کی برسی پر جب ہم ان کے فن اور شخصیت پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ احساس اور گہرا ہو جاتا ہے کہ رفیع صرف گلوکار نہیں تھے بلکہ آواز کی روحانی تجسیم تھے۔ ان کا گانا سننا محض ایک نغمہ سننا نہیں بلکہ دل کی کسی چھپی ہوئی پرت سے مکالمہ کرنا ہوتا تھا۔ رفیع کی آواز سنتے ہوئے ایک عجیب سی سرشاری طاری ہو جاتی ہے۔ جیسے ہم اندر سے ہولے ہولے ہلکے ہوتے جا رہے ہوں۔ اُن کے گیت صرف سماعت سے نہیں، دل کی دھڑکن سے سنے جاتے تھے او ر ہیں۔
محمد رفیع کے فن سے جڑی ایک حیرت انگیز مثال اس وقت سامنے آئی جب فلم "بیجوباورا" کے لیے نوشاد کی دھن پر وہ "او دنیا کے رکھوالے، سُن درد بھرے میرے نالے" گانے کی ریکارڈنگ کے دوران اس قدر جذباتی اور بلند سروں پر گئے کہ ان کے حلق سے خون بہہ نکلا۔ اسے راگ درباری میں گایا گیا تھا اور کہا جاتا ہے کہ محمد رفیع نے اس گانے کے لیے پندرہ دن ریاض کیا تھا۔
محمد رفیع کی انفرادیت ان کے ہم عصر گلوکاروں سے بالکل مختلف تھی۔ کشور کمار، مکیش اور مہندر کپور اپنے اپنے رنگ کے بادشاہ تھے، مگر رفیع ہر رنگ میں گھل جانے والے فنکار تھے۔ کشور مزاحیہ اور شوخ طبیعت کے تھے، مکیش سادگی اور درد کے نمائندہ، مگر رفیع ہر کردار، ہر منظر، ہر موڈ میں ڈھل جاتے تھے۔ وہ پروفیشنل سنگر نہیں بلکہ وہ فن کا درویش تھے۔ چاہے بھجن ہو یا قوالی، غزل ہو یا غم کا نغمہ، رفیع ہر جگہ پورے وجود سے اترتے تھے۔
آج کے دور میں موسیقی سُنی نہیں بلکہ دیکھی جاتی ہے، اس وجہ سے محمد رفیع کی آواز کی افادیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ آج گانے سے زیادہ گلیمر کو دیکھا جاتا ہے، جبکہ رفیع کے گانے ایسے ہیں جنہیں آنکھ بند کرکے سنا جائے تو دل کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ ان کے نغمے نظر نہیں، سماعت مانگتے تھے۔ ان کی موسیقی سادگی کی وہ معراج تھی جس میں نہ کیمرہ تھا، نہ کوریوگرافی، صرف آواز کی بے داغ روشنی تھی۔ وہ موسیقی کو روح کا رزق سمجھتے تھے اور واقعی ان کی آواز آج بھی تھکے ہوئے دلوں کی غذا ہے۔ محمد رفیع نے ایک موقع پر کہا تھا کہا "اگر میری آواز کسی کے زخم پر مرہم رکھ سکے، تو یہی میری سب سے بڑی کامیابی ہے" اور وہ آج بھی، ہر سننے والے کے زخم پر، محبت، دعا اور امید کا مرہم رکھ رہے ہیں۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ محمد رفیع کے گانوں کے جتنے بھی ری مکس بنے، وہ اصل گائیکی کے مقابلے میں محض دھندلے سائے ثابت ہوئے۔ ری مکس کرنے والے چاہے کتنے ہی جدید ساز استعمال کریں، آواز کو کتنا ہی بلند کر لیں، لیکن رفیع کی آواز کا جو جادو، جو دل سوزی، جو فطری لطافت تھی، وہ کسی تکنیکی چالاکی سے پیدا نہیں کی جا سکتی۔ درحقیقت، یہ ری مکسز بسا اوقات رفیع جیسے لیجنڈ کو کم تر ثابت کرنے کی ایک بھونڈی اور سطحی کوشش لگتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی شہنشاہ کے تاج کو چمکانے کے بجائے اس پر مصنوعی نگینے جوڑ کر اسے سستا دکھانا چاہتا ہو۔ محمد رفیع کا گیت ایک مکمل روحانی تجربہ ہے جس میں نئی آمیزش، اس کی اصل روح کو مجروح کرتی ہے۔ رفیع کو رفیع رہنے دیا جانا چاہیے، انہیں کسی ری مکس، کسی ری ریکارڈنگ کی حاجت نہیں۔
اگر ذرا تہہ آب جا کر استغراق کیا جائے تو برآمد ہوگا کہ آج کی نسل کی اخلاقی، جذباتی اور روحانی بے راہ روی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ محمد رفیع جیسے روح پرور گلوکار کے نغمات کو سننے سے محروم ہے، یا دانستہ نظر انداز کرتی ہے۔ رفیع کے گیت صرف تفریح نہیں تھے، وہ تربیت بھی تھے۔ ان میں محبت کی تہذیب، دکھ کی شائستگی، وفا کی عظمت اور عاجزی کی خوبصورتی سکھائی جاتی تھی۔ مگر آج کا نوجوان کان میں جھنجھٹ ڈالنے والے بے ترتیب شور کو موسیقی سمجھ بیٹھا ہے، جس کا نہ سُر ہے نہ پیغام یعنی نہ منہ نہ متھا، تے جن پہاڑوں لتھا۔ محمد رفیع کی آواز میں جو اخلاقی توازن اور جذباتی طہارت تھی، وہ آج کی نسل کی روح کی وہ غذا ہے جس کی غیر موجودگی سے یہ نسل اندر سے کھوکھلی ہوتی جا رہی ہے۔ اگر آج کے نوجوان رفیع کے نغمات کی طرف لوٹیں، تو ممکن ہے وہ صرف موسیقی ہی نہیں، زندگی کی روش بھی پا لیں۔
کئی دہائیوں بعد بھی محمد رفیع کی آواز کی عظمت پر سوال اٹھانا نہ صرف بے انصافی ہے بلکہ ایک گمراہ کن فکری انحراف بھی۔ مشہور فلمساز کرن جوہر نے ایک موقع پر اپنی فلم میں ایک مکالمہ شامل کیا جس میں رفیع کی آواز کو "رونے والی آواز" کہا گیا۔ اس جملے نے نہ صرف کروڑوں رفیع مداحوں کے جذبات کو مجروح کیا بلکہ خود موسیقی کی نزاکت کو بھی پامال کیا۔ رفیع کی آواز میں اگر درد تھا تو وہ زندگی کی سچائیوں سے جڑا ہوا درد تھا، جو دلوں کو چھوتا تھا، آنکھوں کو نم کرتا تھا اور روح کو پاکیزگی دیتا تھا۔ اسے رونا کہنا اس عظیم فنکار کی معنویت کو سمجھنے سے قاصر ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔ بعد ازاں شدید عوامی ردِ عمل کے بعد کرن جوہر کو معذرت بھی کرنا پڑی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ رفیع کی آواز محض ایک گلوکار کی آواز نہیں بلکہ ایک جذباتی ورثہ ہے، جسے دنیا تسلیم کرتی ہے اور جسے نظر انداز کرنا تاریخ سے بے وفائی کے مترادف ہے۔
محمد رفیع نے چھبیس ہزار سے زائد گانے گائے۔ ان کے نغمات کی وجہ ہی کسی فلم کی ہٹ ہونے کی ایک نشانی سمجھی جاتی تھی۔ رفیع کے تمام نغمات ہی اعلیٰ پائے کے شہکار ہیں۔ لیکن کچھ لازوال بول جنہوں نے دلوں پر نقش چھوڑا، وہ یہ ہیں:
"چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے"
"اے میری زہرہ جبیں "
"بہارو پھول برساؤ، میرا محبوب آیا ہے"
"تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤ گے"
"آج کی رات میرے دل کی سلامی لے لے"
"تیرے میرے سپنے اب ایک رنگ ہیں "
"دل کے جھروکے میں تجھ کو بٹھا کے"
"او دنیا کے رکھوالے، سن درد بھرے میرے نالے"
"وقت سے دن اور رات، وقت کا ہر شے پہ راج"
"رنگ اور نور کی بارات کسے پیش کروں "
"یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں "
"کوئی پردیسی آیا پردیس میں "
"آ جا تجھ کو پکارے میرا پیار"
"آدمی مسافر ہے، آتا ہے اور جاتا ہے "
"بابل کی دعائیں لیتی جا، جا تجھ کو سُکھی سنسار ملے"
"سب کے رہتے، لگتا ہے جیسے، کوئی نہیں ہے میرا"
"میری کہانی بھولنے والے، تیرا جہاں آباد رہے"
"یہ زندگی کے میلے، دنیا میں کم نہ ہوں گے، افسوس ہم نہ ہوں گے"
یہ گیت محض فلمی نغمے نہیں بلکہ زندگی کے ہر رنگ کی سچی تصویریں ہیں۔ ان میں کبھی عاشق کی تڑپ، کبھی ماں کی دعا، کبھی سپاہی کا حوصلہ، کبھی فقیر کی فریاد اور کبھی انسان کی آخری ہچکی سنائی دیتی ہے۔
محمد رفیع کے نغمات انسانی روح کی وہ غذا ہیں جو نہ صرف دل کو سکون دیتی ہیں بلکہ ذہن کو جلا بخشتی ہیں۔ ایک اچھا نغمہ نہ صرف وقت کا بہترین ساتھی ہوتا ہے بلکہ یہ یادوں کی گرہ میں بندھا ایک ایسا تحفہ ہے جو برسوں بعد بھی دل کو ویسا ہی گرماتا ہے جیسے پہلی بار۔ رفیع کے نغمے ہمارے دکھ میں مرہم، خوشی میں خوشبو، تنہائی میں ہم نوا اور محبت میں خاموش اظہار ہیں۔ سقراط سے لے کر علامہ اقبال تک، ہر بڑے مفکرنے نغمات و ساز کی روحانی اور نفسیاتی اثرپذیری کو تسلیم کیا ہے
محمد رفیع کی آواز فقط تفریح نہیں، بلکہ سننے والے کی جذباتی تربیت کا ذریعہ بھی ہیں۔ رفیع کے نغمات محبت، قربانی، سوز و گداز اور انسانیت کے اعلیٰ جذبات سے لبریز ہیں اور معاشرے میں حساسیت اور فکری پختگی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور یہی موسیقی کی اصل افادیت ہے۔ نئی نسل کو اگر انسان دوست، حساس، فرض شناس، ذمہ دار، ہمدرد و خیرخواہ اور بھلہ مانس بنانا ہے تو محمد رفیع کے نغمات سننے کا ان میں شعور پیدا کرنا ہوگا اور مجھے یقین ہے کہ یہ نسخہ ضائع نہیں جائے گا اور اسے اب آزما لینا چاہیے کہ جب گلی گلی مذہبی ادارے اپنا کردار ادا نہ کر سکے بلکہ الٹا نسل مزید بگڑتی جائے تو پھر اس نئے نسخے کو آزمانے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے اور یہی سائنس ہے کہ جب ایک تجربہ ناکام ہو جاتا ہے تو پھر دوسرا کیا جاتا ہے۔

