Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Bardasht Kahan Gai?

Bardasht Kahan Gai?

برداشت کہاں گئی؟

ہمارے معاشرے میں برداشت کا چراغ دن بہ دن بجھتا جا رہا ہے۔ معمولی اختلاف بھی دشمنی میں بدل رہا ہے یہاں تک کہ جانیں تک لے رہا ہے۔ یہ سوال آج ہر ذی شعور کو کچوکے مار رہا ہے کہ آخر برداشت گئی کہاں؟

ایک چھوٹی سی بات پر غصہ، معمولی اختلاف پر لڑائی اور ذرا سا دباؤ آتے ہی برہکوں فیل ایک دوسرے پر چڑھ دوڑنے کا رجحان روزمرہ کا حصہ بن چکا ہے۔ آخر برداشت کی صفت جو کبھی ہماری تہذیب و مذہب کا طرہ امتیاز ہوتی تھی، وہ کیوں دم توڑ گئی ہے؟

حالیہ دنوں میں صرف تیس روپے کے تنازعہ پر دو جوان بھائیوں کے افسوسناک قتل نے ملک میں عدم برداشت کی بحث کو پھر سے ہرا کر دیا ہے اور سنجیدہ نوعیت کے اقدامات اور پالیسی سازی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ غالباً سن پچاسی کی بات ہے جب میں بچہ تھا اور لائلپور میں دادکے اور نانکے کے ساتھ پنڈ میں رہتا ثھا۔ ایک شام ہم بچوں نے پلاننگ کی کہ صبح سورج نکلنے سے قبل امرودوں کے باغ میں جا کر امرود توڑ کر لانے ہیں کیونکہ اس وقت باغ کا مالک باغ میں نہیں پہنچتا۔ پلاننگ کے مطابق ہم چار بچے باغ میں پہنچے اور جلدی جلدی خوف کی حالت میں امرود توڑ کر جھولیاں بھریں اور واپس گھر لوٹنے لگے تو باغ کا مالک دور سے آتا ہوا نظر آیا۔

یہ دیکھتے ہی ہم نے دوڑ لگا دی مگر مالک نے پکڑ لیا اور پہچان بھی لیا کہ ہم کس گھر کے نیانے ہیں۔ مالک نے ہمیں چوری کے نقصانات سے آگاہ کیا اور ہمیں امردوں سمیت گھر جانے کے لیے چھوڑ دیا کہ وہ ہمارے ابا جی کو شکایت کرے گا۔ یہ سن کر ہم سب سہم گئے کہ اب تو خیر کا سوال ہی نہیں۔ بعد ازاں گھر سے ہم نے گالیاں اور دبکے کھائے جسکے نتیجے میں ہم میں احساس ندامت و شرمندگی اجاگر ہوا۔ اسی طرح نہر سے کھیتوں میں آنے والے پانی کو رستے میں توڑنے پر بھی جھگڑے ہوتے تھے جو کہ نمبردار تک پہنچتے اور فیصلے کیے جاتے۔

اس دور میں برداشت کا مادہ موجود تھا۔ حیران کن امر ہے کہ تب تعلیم بھی خال خال ہی تھی پھر بھی لوگ تحمل و برداشت کا مظاہرہ کرتے تھے۔ اس دور میں مولوی صرف اپنی جگہ یعنی حجرے تک محدود تھا۔ تب فرقہ واریت نہیں تھی۔ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے۔ تب ضیائی اسلام اپنی جڑیں اچھی طرح نہیں پکڑ سکا تھا۔ تب فتوے جاری نہیں ہوتے تھے۔ رواداری کا دور دورہ تھا۔ بچے کھیلتے کھیلتے کسی دوسرے گھر میں سو جاتے تو کوئی تشویش کی بات نہیں سمجھی جاتی تھی۔ جبکہ آج بچہ کسی دوسرے گھر تو کیا دوسرے کمرے میں ہی سو جائے تو والدین پریشان ہو جاتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مہنگائی، بجلی بلوں، دودھ کی بڑھتی قیمتوں، بے روزگاری اور مستقبل کا خوف آج کے انسان کو اندر سے توڑ دیتا ہے۔ ایک شخص جو صبح سے شام تک روزی کمانے کی جدوجہد کرتا ہے، جب اسے ہر جگہ ناامیدی اور مشکلات ملیں تو اس کے اعصاب میں برداشت باقی نہیں رہتی۔ ایسے میں چھوٹی سی بات بھی بڑے غصے میں بدل جاتی ہے۔ گویا معاشی دباؤ نے برداشت کو اندر ہی اندر کھا لیا ہے۔

پہلے محلے، گلی اور خاندان میں ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹا جاتا تھا۔ لوگ مل بیٹھ کر مسئلے سلجھاتے تھے۔ آج ہر شخص اکیلا ہے اور سوشل میڈیا کی ورچوئل دنیا میں پناہ لیتا ہے۔ یہ دنیا بظاہر رابطے کا ذریعہ ہے، مگر حقیقت میں تنہائی اور بے سمتی بڑھا رہی ہے۔ یہاں اختلافِ رائے لمحوں میں دشمنی میں بدل جاتا ہے۔ زبان کی تلخی بڑھ جاتی ہے اور یہی رویہ حقیقی زندگی میں منتقل ہو کر برداشت کو ختم کر دیتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے گھروں میں بزرگوں کا کردار کمزور پڑ گیا ہے۔ جو صبر، برداشت اور حکمت ہم نے کبھی اپنی نانی، دادی یا والدین سے سیکھی تھی، وہ اب موبائل اور انٹرنیٹ کی تیز دنیا نے نگل لی ہے۔ تربیت جب کمزور ہو تو برداشت بھی کمزور پڑ جاتی ہے۔

ماہرِ نفسیات ایڈلر کے مطابق انسان کے رویوں کے پیچھے اکثر احساسِ کمتری کارفرما ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص اپنے آپ کو دوسروں سے کمتر محسوس کرتا ہے تو وہ برداشت کھو بیٹھتا ہے اور ہر وقت ردعمل دینے پر آمادہ رہتا ہے۔ اسی طرح ژونگ کہتا ہے کہ ہر انسان کے اندر ایک سایہ ہوتا ہے، جو دبے ہوئے جذبات، حسد اور غصے کا مجموعہ ہے۔ اگر ہم اس سایے کو پہچان نہ سکیں اور اسے قابو نہ کریں تو یہ سایہ آتش فشاں کی مانند پھٹ کر عدم برداشت میں بدل جاتا ہے۔

سگمند فرائیڈ کے نزدیک انسان کا لاشعور دبی ہوئی خواہشات اور محرومیوں سے بھرا پڑا ہوتا ہے۔ جب یہ دباؤ بہت بڑھ جائے تو چھوٹی سی بات پر انسان شدید ردعمل دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں معمولی اختلاف بھی بڑے فساد میں بدل جاتا ہے۔ تیس روپے پر دو قتل اس کی تازہ مثال ہے۔

آج اختلاف کو برداشت کرنے کا حوصلہ کم ہوگیا ہے۔ آج ہر کسی نے یہ سیکھ لیا ہے کہ میری رائے ہی حتمی ہے، پتھر پر لکیر ہے اور دوسرے کی رائے کو برداشت کرنا گویا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ یہ سوچ بحث و مباحثے کو علمی عمل کے بجائے ذاتی دشمنی بنا دیتی ہے۔ جبکہ دنیا کے مہذب معاشروں میں اختلاف کو تنوع اور ترقی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

اگر جائزہ لیکر بغور دیکھا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ پاکستان کا عدم برداشت معاشرہ دراصل اس کے تعلیم و تربیت نظام کے یکسر فیل ہونے کا ثبوت بہم پہنچاتا ہے۔ کیونکہ تعلیم دراصل منطق کے استعمال کا نام ہے جبکہ عدم برداشت دراصل منطق کی ناپیدگی کا ثبوت ہے۔ اس لیے پاکستانی معاشرہ کو عدم برداشت کی بڑھتی شرح کی وجہ سے تعلیم یافتہ معاشرہ کہنا ایک سفید جھوٹ ہوگا۔ واضح رہے کہ خواندگی و ناخواندگی کا تعلیم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اگر ہوتا تو پڑھی لکھی جہالت جیسی اصطلاحیں معرض وجود میں نہ آتیں۔

انسان صرف جسم اور عقل کا نام نہیں بلکہ دل اور روح بھی اس کا حصہ ہیں۔ صوفیاء کرام ہمیشہ کہتے آئے ہیں کہ برداشت محبت کی پہلی سیڑھی ہے۔ جب دل محبت سے خالی ہو اور انسان خدا سے غافل ہو جائے تو برداشت بھی رخصت ہو جاتی ہے۔ عبادت، دعا اور ذکر سے انسان کے اندر سکون پیدا ہوتا ہے اور یہی سکون برداشت کو جنم دیتا ہے۔

ملک میں برداشت دوبارہ زندہ کرنے کے لیے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے جو کسی سیاسی و مذہبی مصلحت کے تابع نہ ہوں۔ سب سے پہلے ہمیں اپنی انفرادی زندگی میں تبدیلی لانا ہوگی۔ گھر میں بچوں کو صبر، تحمل اور اختلاف کو خوش اسلوبی سے قبول کرنے کی تربیت دینی ہوگی۔ تعلیمی اداروں میں کردار سازی کو نصاب کا حصہ بنانا ہوگا۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر برداشت کو ایک مثبت قدر کے طور پر اجاگر کرنا ہوگا اور سب سے بڑھ کر ہمیں روحانیت اور خود احتسابی کو اپنی روزمرہ زندگی میں جگہ دینی ہوگی۔

حاصل بحث یہ کہ برداشت کا ختم ہونا کئی عوامل کا نتیجہ ہے۔ معاشی دباؤ، خاندانی تربیت کی کمزوری، نفسیاتی دباؤ، روحانی خلا اور ضیائی نصاب۔ یہ سب مل کر معاشرے کو عدم برداشت کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔ اگر ہم اپنی اصل اقدار کی طرف پلٹ آئیں، تو برداشت کو دوبارہ زندہ کیا جا سکتا ہے۔ برداشت صرف ایک صفت نہیں بلکہ یہ معاشرے کے امن، محبت اور ترقی کی بنیاد ہے۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali