Bangladeshi Tehreek Ke Pakistan Par Asraat
بنگلہ دیشی طلباء تحریک کے پاکستان پر اثرات
بنگلہ دیش میں طلباء تحریک نے ایک ماہ بعد کامیابی سمیٹتے ہوئے شیخ حسینہ کی عوامی تحریک کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا ہے۔ طلباء تحریک کا بنیادی مقصد صرف سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کا خاتمہ تھا۔ یہ کوٹہ سسٹم ناانصافی پر مشتمل تھا اور میرٹ کی دھجیاں اُڑاتا تھا۔ یہاں پیارے پاکستان میں بھی سرکاری ملازمتوں میں گھپلے سرعام مارے جاتے ہیں اور افسران و ملازمین اپنے بچوں کو ملازمتیں دلواتے ہیں۔
کوٹہ سسٹم کا ایک بڑا نقصان کم اہل یا نااہل ملازمین کی بھرتیوں سے محکموں میں بہتری کی بجائے ابتری در آنا ہے۔ اوپن میرٹ پر آسامیاں پُر کی جائیں تو قابل نوجوان سرکاری محکموں میں آئیں گے۔ جس کے نتیجے میں محکموں کی استعداد کار میں بہتری واقع ہوگی۔ پاکستان میں سرکاری دفاتر اسی وجہ سے دو نمبری کی آماجگاہ بن چکے ہیں کہ میرٹ پر بھرتیاں نہیں کی جاتیں۔
سوال یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں طلباء تحریک کی کامیابی کیا انقلاب ہے؟ مسلح افواج کے ہوتے ہوئے نہتوں میں اتنی جرات آ سکتی ہے کہ وہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو ملک سے بھاگنے پر مجبور کر دیں؟ کرفیو کے نفاذ کے باوجود تحریک تھمنے کی بجائے مزید تیز کیونکر ہوتی گئی؟ بنگلہ دیشی عدالت نے طلباء تحریک کی بدولت سرکاری ملازمتوں کا کوٹہ سسٹم تیس فیصد سے بہت کم کر دیا تھا پھر بھی تحریک جاری رہی، کیوں؟ ہر بالغ ذہن بآسانی اندازہ لگا سکتا ہے کہ طلباء تحریک بھی دراصل " فیض آباد دھرنا" کی طرز کی تھی اور جسے بنگلہ دیشی اسٹیبلمشنٹ کی آشیر باد حاصل تھی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ بنگلہ دیشی طلباء کی تحریک انقلاب نہیں بلکہ عدم استحکام پیدا کرکے اقتدار کی تبدیلی محض ہے۔ طلباء تحریک کا استعمال کرکے اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ نے اپنے عزائم حاصل کیے ہیں۔ تعجب ہے کہ پاکستانی سُرخے اسے انقلاب گردان کر کیش کروانے کی کوشش کرکے چی گویرا کہلوانے کی تگ و دود میں پیش پیش ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ انقلاب کوئی خالہ جی کا گھر نہیں کہ بائیک پر کک ماری اور آ گیا۔ بلکہ انقلاب ایک لانگ ٹرم منصوبہ بندی اور نامحسوس طریقے سے اسے عملی جامہ پہنانے کا نام ہے۔
انقلاب کے لیے سب سے پہلے زمین ہموار کرنی پڑتی ہے۔ جس طرح کھیت میں سہاگہ پھیر کر زمین ہموار کی جاتی ہے اسی طرح پہلے سندھو دیش، سرائیکستان، آزاد بلوچستان، گریٹر پنجاب جیسے سلوگنز کا خاتمہ کرکے زمین ایک جیسی کرنی پڑتی ہے، تمام طبقات کو ایک سڑک پر لانا ہوتا ہے۔ شیعہ، سُنی، وہابی کی لڑائیاں ختم کرکے فرقہ واریت کا تورا بور ا بنانا ہوتاہے۔ عوام کو اشرافیہ، سیاستدانوں، بیوروکریسی، اسٹیبلیشمنٹ کی چالوں اور ادارہ جاتی دہشتگردی بارے شعور دینا پڑتا ہے۔ انقلاب بارے کامریڈ ماؤزے تنگ کہتے ہیں کہ "انقلابی جنگ عوامی جنگ ہے۔ یہ جنگ فقط عوام کو متحرک کرکے اور ان پر بھروسہ کرکے لڑی جا سکتی ہے"۔ ایک دوسری جگہ ماؤ فرماتے ہیں کہ "اپنے فن جنگ کا پوری طرح مظاہرہ کریں یعنی میدانِ جنگ میں جرات سے لڑنا، ایثار سے نہ گھبرانا، تھکاوٹ محسوس نہ کرنا اور مسلسل لڑتے رہنا یعنی تھوڑے عرصے میں آرام کیے بغیر متواتر لڑنا"۔
صیہونی ریاست اسرائیل کی فلسطین اور غزہ پٹی پر نو ماہ سے جاری بربریت، گذشتہ ہفتے حماس کے سیاسی ونگ لیڈر اسمعیل ہنیہ کی ایران میں شہادت سے سارا عرب خطہ متاثر ہو رہا ہے، عین ممکن ہے کہ بنگلہ دیشی طلباء تحریک کے عملی نہ سہی کم از کم جذباتی اثرات ہی راولپنڈی میں جماعت اسلامی کے دھرنے پر اثر انداز ہوں۔ یا پھر عمران خان کو بنگلہ دیشی طلباء تحریک کا حوالہ دیکر دھمکی دینے کا جواز مل جائے۔ لیکن یہ محض دھمکی ہی ہوگی کیونکہ آئی ایس پی آر نے گذشتہ روز طویل پریس کانفرنس میں ایک دفعہ پھر اعادہ فرمایا ہے کہ نو مئی پر نہ کوئی سمجھوتا ہوا ہے اور نہ ہوگا۔
دوسری جانب راولپنڈی میں جماعت اسلامی کے آئی پی پیز کے خلاف دھرنے کو بارہ روز گزر چکے ہیں۔ حکومت سے مذاکرات کے ادوار بھی چلے مگر بے نتیجہ۔ اگرچہ جماعت اسلامی کے مطالبات کم از کم بجلی بلوں کے بارے میں عوامی امنگوں کے ترجمان ہیں لیکن حافظ نعیم کو اس بات کا بھی ادراک ہوگا کہ آئی پی پیزکی زیادہ تعداد جو کپیسٹی چارجز مفت وصول کر رہی ہے وہ حکومتی اور اپوزیشن سیاستدانوں کے ہیں۔ لہذا دھرنا اتنی جلدی اپنے مقاصد حاصل نہیں کر پائے گا۔ البتہ اگر بڑے حافظ صاحب کی توجہ لینے میں کامیاب ہو جائیں تو دھرنے میں بنگلہ دیشی تحریک کی روح حلول کر سکتی ہے! لیکن فی الحال ایسا نظر نہیں آرہا کہ عمران خان اپنے بیانیہ سے اگرچہ ہٹتے نظر آتے ہیں مگر غیر شعوری طور پرازخود شام کو کوئی بیان داغ دیتے ہیں جس سے نو مئی کی بُو تازہ ہو جاتی ہے۔ نیز جماعت اسلامی کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نمائندگی کی شرح بھی اس قابل نہیں کہ انہیں ہر ی تو دور کم از کم سوکھی گھاس ہی مل سکے۔