Bachon Par Sar e Aam Tashadud
بچوں پر سرعام تشدد

گذشتہ روز میں صبح آفس جا رہا تھا تو دوران ڈرائیونگ پونے آٹھ بجے ایک موٹر سائیکل سوار جو عمر، قد، ڈیل ڈول، گوگڑ اور حرکات و سکنات سے باپ دکھائی دیتا تھا، موٹر سائیکل پر پیچھے بیٹھے ہوئے آٹھ نو سال کے بچے کو بار بار زور زور سے ایک ہاتھ سے دھپے مار رہا تھا اور دوسرے ہاتھ سے بائیک کا ھینڈل کنٹرول کیا ہوا تھا۔ یہ سب دیکھ کر مجھے بچے کے ساتھ ہمدردی جبکہ اسکے باپ کی اس کم عقلی اور سرعام وحشت و بربریت پر شدید غصہ آیا۔ میں اُسے روکنے کی کوشش کرنے لگا لیکن وہ جلد ہی ٹرن لیکر کسی اور راہ پر چلا گیا۔ بچے پر تشدد کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جذبات، نفسیاتی اثرات، خوف، باپ کے خلاف پیدا ہونے والی نفرت اور انتقامی جذبہ، سرعام تضحیک کے خیالات وغیر ہ بارے درجنوں سوالات میرے ذہن میں گردش کرنے لگے۔
تشد د کو ہم نہ چاہتے ہوئے بھی چند لمحات کے لیے اگر درست بھی سمجھ لیں تو بھی کم از کم سرعام تشدد کسی بھی طور پر قابل قبول نہیں گردانا جا سکتا۔ سرعام تشدد ایسی ہی بات ہے جیسے گھر کی باتیں محلے والے سُنیں۔ اس سے مظلوم جو شرمندگی محسوس کرتا ہے وہ اسکے لاشعور میں ڈیرے ڈال لیتی ہے اور ساری زندگی ساتھ ساتھ رہتی ہے۔
اسی پس منظر میں ایک حکایت کا ذکر یہاں بے جا نہ ہوگا۔ کہتے ہیں کہ ایک مولوی صاحب نذر نیاز کی کوئی چیز نہیں کھاتے تھے۔ سارا محلہ اور نمازی ان کی اس عادت سے اچھی طرح واقف تھے۔ ایک روز مولوی صاحب گلی میں گزر رہے تھے تو ایک گھر کے سامنے ایک شخص نے انہیں اندر بیٹھک میں بیٹھنے کے لیے دعوت دی۔ مولوی صاحب بیٹھک میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ محلے ہی کے چند اور یار دوست بھی بیٹھک میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ شخص نے مولوی صاحب کو کھانا کھانے کا کہا تو مولوی صاحب نے پوچھا کہاں سے آیا ہے کھانا، نذر نیاز کا کھانا تو نہیں؟ تو شخص نے جواب دیا کہ مولوی صاحب یہ گھر میں تیار کیا گیا کھانا ہے، نذر نیاز کا ہرگز نہیں ہے۔
مولوی صاحب نے کھانا کھانے سے انکار کیا تو سب دوستوں نے مل کر کہا کہ مولوی صاحب بے فکر ہو کر کھانا کھائیں۔ یہاں کوئی بھی نہیں دیکھنے والا۔ بار بار اصرار کرنے پر مولوی صاحب نے کھانا شروع کرتے ہوئے پہلا لقمہ ہی کھایا تو سب دوستوں نے بلند آواز میں کہا "مولوی صاحب اج پھڑے گئے"۔ یہ سُنتے ہی مولوی صاحب اٹھے اور تیز تیز چلتے ہوئے اپنے گھر پہنچے۔ کئی دن تک مولوی صاحب نہ مسجد گئے اور نہ ہی گھر سے باہر نکلے۔ لوگ ملنے بھی آتے تو مولوی صاحب ملنے سے انکار کر دیتے۔
بیٹھک کے دوستوں نے مشورہ کیا اور سب مولوی صاحب کے گھر گئے۔ مولوی صاحب نے پہلے تو ملنے سے انکار کر دیا لیکن بہت اصرار پر انہیں گھر میں لے گئے۔ دوستوں نے پیار سے مولوی صاحب کو کہا کہ وہ تو از راہ مذاق کہا تھا کہ مولوی صاحب آج پکڑے گئے۔ یہ سُن کر مولوی صاحب نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ میں نے کھانا نہیں کھایا مگر جب آپ نے زور سے کہا کہ مولوی صاحب پکڑے گئے تو گلی میں گزرنے والے نہ جانے کتنے لوگوں نے یہ سنُا ہوگا اور سوچنے لگے ہوں گے کہ پتہ نہیں مولوی صاحب کس بات پر پکڑئے گئے ہیں؟ ایک دو لوگ ہوتے تو انہیں سمجھایا جا سکتا تھا لیکن بھری گلی میں گزرنے والوں میں سے کس کس کو میں سمجھاؤں گا کہ یہ صرف از راہ مذاق کہا گیا تھا۔ اس لیے بہتر ہے کہ لوگوں کا سامنا ہی نہ کروں۔ دوست واپس چلے گئے اور کہتے ہیں کہ مولوی صاحب گھر سے کبھی باہر نہیں نکلے، نکلا تو صرف اُن کا جنازہ۔
اس حکایت سے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ سرعام کسی کی تضحیک چاہے لفظی ہو، جسمانی ہو، نفیساتی ہو، غیر ارداری ہو، ہرگز نہ کی جائے کہ انسانی دل لوہے کا نہیں بلکہ گوشت پوست سے بنا ہے جو معلوم نہیں کب ڈھے جائے۔ اسی لیے لتا نے گنگنایا تھا "شیشہ ہو یا دل، ٹوٹ جاتا ہے"۔
بات ہو رہی تھی بچے پر سڑک پر تشدد کی۔ تو قارئین باپ کا اپنے بیٹے کے ساتھ ایسا رویہ، حقارت اور تشدد کی بڑی وجہ یہی ہے کہ والد جذباتی تھا کیونکہ جذباتی ہونے کی وجہ سے انسان اکثر غلطی کرتا ہے۔ نہ اس نے بچے کی عمر کو دیکھا، نہ اس کی جذباتی، روحانی اور نفسیاتی صحت کو ذہن میں بٹھایا۔ نہ برداشت سے کام لیا اور فوراََ تشدد پر اتر آیا۔ جذباتی غلطی کا احساس تب ہوتا ہے جب جذبات ٹھنڈے ہو جائیں کیونکہ جذبات کی رو میں انسان کا دماغ بالکل کام نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ سب معاملات میں بالخصوص بچوں کے معاملات میں کوئی بھی قدم پھونک پھونک کر اٹھانا پڑتا ہے وگرنہ بچے ہاتھ سے گئے۔
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ اگر بچے کے ساتھ زیادہ سختی سے پیش آیا جائے تو بعض اوقات ان میں لڑاکا پن در آتا ہے۔ کیونکہ جب تشدد، تضحیک اور حقارت ہی کا بچوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ اگر میں بُرا ہوں تو دنیا کو بُرا بن کر ہی دکھا دوں گا۔ ایسے بچے بڑے ہو کر لڑاکے بن جاتے ہیں اور برداشت کا مادہ ان میں مفقود ہوتا ہے۔ ایسے بچے زیادہ تر اپنی عمر، مرتبے اور سماجی لحاظ سے بلند لوگوں سے لڑتے ہیں۔
کئی دفعہ تشدد، سختی، رعب و دبدنہ، حقارت اور توہین آمیز رویوں کا سامنا کرنے والے بعض بچوں میں ایسی عادات پیدا ہو جاتی ہیں جو بالا عادات کے عین اُلٹ ہوتی ہیں۔ یعنی مظلوم بچے حد سے زیادہ فرماں بردار بن جاتے ہیں۔ والدین، بڑوں اور اساتذہ کی بات کو مکمل ہونے سے قبل ہی لبیک کہہ دیتے ہیں۔ جو کام کرنے کو کہا جائے فوری طو ر پر کر دیتے ہیں اور اپنے والدین، اساتذہ اور بزرگوں کو خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ والدین کی ناراضگی ایسے بچوں کے لیے زندگی اور موت کا سوال بن کر رہ جاتی ہے۔
ایسی طبیعت کے بچے خاموش رہتے ہیں اور صرف انتہائی ضرورت کے وقت مختصر بات چیت کرتے ہیں۔ کھیل کود میں دلچسپی نہیں لیتے۔ دوسرے بچوں کے ساتھ میل جول رکھنا پسند نہیں کرتے۔ اُکھڑے اُکھڑے سے رہتے ہیں۔ ہر وقت ان کی آنکھیں سوچوں میں گم رہتی ہیں۔ کسی چیز کے لیے والدین کو فرمائش نہیں کرتے۔ نہ ہی سکول جاتے وقت والدین سے سکول کی کینٹین سے سموسے پکوڑے کھانے کے لیے پیسے مانگتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ایسے بچوں کی بے تعلقی بڑھتی جاتی ہے۔ اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں۔ ڈے ڈریمز دیکھنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔
حاصل کلام یہ کہ بچوں پر تشدد کی کسی بھی طرح سے طرفداری نہیں کی جا سکتی۔ والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ فرینڈلی رویہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ بچوں کی تمام تر پوشیدہ صلاحیتیں بیدار ہو سکیں۔ سختی، تشدد، مارپیٹ، گالم گلوچ، سرعام رعب و دبدبہ بچوں کو روحانی اور نفسیاتی طور پر مفلوج کر دیتا ہے۔ ایسے بچے یا تو نفسیاتی مریض جاتے ہیں یا باغیانہ روش اختیار کرکے سب کے لیے وبال جان بن جاتے ہیں۔ والدین کی بے جا مداخلت بچے میں خود اعتمادی پیدا نہیں ہونے دیتی۔
اگر بچے کو نفسیاتی اور روحانی طور پر صحتمند بنانا ہو تو انہیں آزادانہ طور پر کھیلنے، کودنے اور پڑھنے دیا جانا چاہیے۔ اگر بچہ کوئی الٹی سیدھی حرکت کر بھی لیتا ہے تو مارپیٹ کے ذریعے اس میں خوف و نفرت و بغاوت و سرکشی کی فضا قائم کرنے کی بجائے پیار محبت سے سمجھایا جائے۔ بچوں کی تربیت کے دوران والدین کو اپنے اخلاقی معیار کا عصا مضبوطی سے تھامے رکھنا چاہیے اور اگر عصا دستیاب نہیں ہے تو اس کو حاصل کرنے کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ بچوں کو ملکیت سمجھنے کی روش ترک کر دی جائے اور ان کے انفرادی وجود کو قبول کیا جانا چاہیے۔

