Audio Messages Ki Waba
آڈیو میسجز کی وبا

میں ایک سرکاری ادارے میں ملازم ہوں۔ یہاں دفتری معاملات کے لئے بنائے گئے مختلف واٹس ایپ گروپس میں روزانہ درجنوں تحریری و آڈیو پیغامات موصول ہوتے ہیں۔ کبھی نوٹیفکیشن، کبھی ہدایت، کبھی یاددہانی، کبھی حکم نامہ اور کبھی کسی وضاحت پر مشتمل میسجز سارا دن وقفے وقفے سے آتے رہتے ہیں اور موقع پر ضروری کاروائی کرنی پڑتی ہے۔
تحریری پیغامات بہت کم ہوتے ہیں لیکن آڈیو پیغامات دھڑا دھڑ واٹس ایپ گروپس میں بھیجنے کی عادت عام ہے۔ دفتر کے ماحول میں پہلے ہی فائلوں کے پلندے، پنکھوں کی آواز، سڑک پر ٹریفک کا شور، بیک گراؤنڈ گفتگو اور دور کہیں بجتی رِنگ ٹون ماحول کو شور آلود کیے رکھتی ہے۔ ایسے میں آڈیو پیغام سننا کسی امتحان سے کم نہیں لگتا۔ کچھ ساتھیوں کی سماعت کمزور ہے، کچھ کے کانوں میں پہلے ہی شور بھرا ہوتا ہے اور کچھ کے پاس ہیڈفون نہیں ہوتے۔ چنانچہ ایک آڈیو میسج کئی لوگوں کے لیے ذہنی بوجھ میں بدل جاتا ہے۔
دفاتر کی دنیا بظاہر تو فائلوں، نوٹ شیٹس اور احکامات کا نظام دکھائی دیتی ہے لیکن اس سسٹم کی بنیاد دراصل گفتگو کے معیار پر کھڑی ہوتی ہے۔ بات جس شائستگی، وضاحت اور شعور سے کی جائے، وہی دفتر کا ماحول تشکیل دیتی ہے۔
بدقسمتی سے آج دفاتر میں ٹیکنالوجی نے سہولت تو بڑھا دی ہے مگر گفتگو کے اسالیب کو بگاڑ بھی دیا ہے۔ واٹس ایپ جیسی ایپس نے دفتری رابطوں میں تیز رفتار اور مفت رسائی تو مہیا کر دی لیکن ساتھ ہی آڈیو میسجز کے ذریعے ان آفیشل رویّوں کو جنم دیا جو نہ صرف دفتری سسٹم کو متاثر کرتے ہیں بلکہ دفتر کے وقار، متانت، سنجیدگی، پرائیویسی اور پیشہ ورانہ فضا کو بھی مجروح کر رہے ہیں۔
تحریری پیغامات بہ نسبت آڈیو میسجز کے کہیں زیادہ جلدی اور درست طور پر انڈرسٹینڈ ہو جاتے ہیں۔ جبکہ آڈیو پیغامات ہر لحاظ سے گڑبڑ پیدا کرتے ہیں۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ آج لوگ تحریری میسجز کی بجائے آڈیو میسجز کو ترجیح کیوں دیتے ہیں؟
دراصل کوئی بھی تحریر ہو، واٹس ایپ تحریری میسج ہو، یہ انسان کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ تحریر میں ٹھہراؤ، ترتیب، الفاظ کا چناؤ اور دلیل کا تقاضا ہوتا ہے۔ لکھنے والا لفظ چنتا ہے، جملہ تولتا ہے اور پھر اسے بھیجتا ہے۔ یہ سارا عمل شعور کی نگرانی میں ہوتا ہے۔ اس کے برعکس آڈیو پیغام جذباتی لاپرواہی کی تیز ترین شکل ہے۔ بولنے والا بغیر رکے، بغیر سوچے، جو منہ میں آئے کہہ ڈالتا ہے اور بھیج دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آڈیو کلچر نے سوچنے، سمجھنے اور پرکھنے کی صلاحیت کو زنگ لگا دیا ہے۔
آڈیو پیغام کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اسے سنا جاتا ہے، پڑھا نہیں جاتا۔ ایک پیغام جسے تحریری صورت میں بیس سیکنڈ میں سمجھا جا سکتا ہے، وہی آڈیو کی صورت میں ایک سے ڈیڑھ منٹ لے لیتا ہے۔ اس دوران سننے والے کو کان، توجہ اور ماحول، تینوں آزاد رکھنے پڑتے ہیں۔ یعنی کام رکتا ہے، رفتار تھمتی ہے اور دفتر کا نظم متاثر ہوتا ہے۔ ایک جانب فائلیں منتظر رہتی ہیں اور دوسری جانب کوئی صاحب پوری توجہ سے آڈیو سنتے دکھائی دیتے ہیں، جیسے دفتر کے اوقات نجی مصروفیات کے لیے وقف ہوں۔
آڈیو پیغامات نے دفتری پرائیویسی کو بھی سب سے زیادہ خطرے سے دوچار کیا ہے۔ دفتر اجتماعی ماحول رکھتا ہے، جہاں کیبن یا میز کے آس پاس دوسرے ملازمین بیٹھے ہوتے ہیں۔ آڈیو چلتے ہی اردگرد موجود ہر فرد غیر ارادی طور پر اس گفتگو کا حصہ بن جاتا ہے۔ رازدارانہ نوعیت کی معلومات بھی یوں کانوں میں بکھر جاتی ہیں جیسے یہ کسی پرچی کی تحریر نہیں بلکہ کسی ٹی سٹال کی گپ شپ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آڈیو میسج کا سواگت زیادہ تر میں واش روم میں ہی کرتا ہوں۔
دوسری جانب تحریری پیغام میں یہ خطرات نہ ہونے کے برابر ہے۔ مانیٹر یا موبائل سکرین پر نظر صرف اسی کی پڑتی ہے جسے دیکھنے کا اختیار ہے۔ جبکہ آڈیو میسجز چادر اور چار دیواری کو تقدس پامال کرتے ہیں
ایک اور افسوس ناک پہلو یہ بھی جنم لے چکا ہے کہ کچھ افراد لیڈی افسران یا خواتین کولیگز کو آڈیو میسج بھیجنے میں عجیب سا اعتماد اور غیر ضروری برجستگی محسوس کرتے ہیں۔ جیسے آواز کے زیر و بم سے تعلقات کے دائرے وسیع ہو جائیں گے یا متاثر کن تاثر قائم ہو جائے گا۔ یہ رویہ ذہنی پختگی کی کمی اور پروفیشنل تربیت کی محرومی کا ثبوت ہے۔ دفتر میں صنف نہیں، صرف ذمہ داری اور کارکردگی دیکھی جاتی ہے۔ آڈیو پیغام کے ذریعے قربت، تاثر یا آواز کا بناوٹی حسن پیدا کرنے کی کوشش ایک ایسے ذہن کی نشانی ہے جو دفتری وقار اور پیشہ ورانہ حدبندیوں کو سمجھنے سے قاصر ہو۔
سوچنے کی بات یہ ہے جب ایک تحریری جملہ مقصد پورا کر سکتا ہے تو آواز پر اصرار آخر کیوں؟ اس لیے کہ یہ پیشہ ورانہ ضرورت نہیں بلکہ انا، توجہ طلبی اور لاشعوری سطح پر تعلق کی خواہش کا مسئلہ ہے۔
آڈیو پیغام کی ایک اور مشکل یہ ہے کہ اسے سننے کے لیے آواز اونچی کرنی پڑتی ہے اور اردگرد بیٹھے لوگ وہ باتیں بھی سن لیتے ہیں جو سرے سے ان کے دائرۂ کار میں آتی ہی نہیں۔ یوں ایک آڈیو میسج نہ صرف دفتری نظم و ضبط پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ پرائیویسی کا تصور بھی ملیامیٹ ہو جاتا ہے۔ تحریری پیغام میں انسان کم سے کم الفاظ میں اپنا مطلب واضح کر سکتا ہے، لیکن آڈیو پیغام اکثر غیر ضروری جملوں، بے ربط وضاحتوں اور کمزور سگنلز کی وجہ سے ادھے پچدے الفاظ کی وجہ سے یہ اکثر دو تین بار سنے بغیر پلے نہیں پڑتا۔
تھوڑا مزید غور کیا جائے تو نظر آئے گا کہ آڈیو کلچر نے دفتری نظم و ضبط کے ایک اور بنیادی اصول کو بھی کمزور کیا ہے اور وہ ہے ریکارڈ کی شفافیت۔ تحریری پیغام بعد میں حوالہ بن جاتا ہے، جواب مرتب کیا جا سکتا ہے، پرنٹ نکال کر فائل سے منسلک کیا جا سکتا ہے اور ضرورت پڑنے پر فیصلے کی بنیاد بھی بنتا ہے۔ جب کہ آڈیو کلچر اس پورے شفاف نظام کو غیر رسمی اور مبہم بنیادوں پر لے آتا ہے۔ یہ فرق معمولی نہیں ہرگز نہیں ہے۔ درحقیقت یہ فرق اداروں کی کارکردگی اور احتساب کے معیار کا فرق ہے۔
نفسیاتی طور پر دیکھا جائے تو آڈیو پیغام فوری اظہار کی اس جبلّت کو جنم دیتا ہے جس میں انسان اپنی آواز، اپنی موجودگی، جوانی، سمارٹنیس اور اپنی اہمیت کو محسوس کروانا چاہتا ہے۔ دفتر میں ایسے رویّے ادارہ جاتی نظم کو کمزور کرتے ہیں کیونکہ وہاں ملازم کی انا نہیں بلکہ ڈسپلن کی ضرورت کو فیصلہ کن ہونا چاہیے۔ دراصل کمزور منتظم اور غیر تربیت یافتہ افسر و ملازم وہ ہوتا ہے جو تحریر سے بھاگے اور آواز میں پناہ ڈھونڈنے لگے۔ جبکہ مضبوط منتظم وہ ہے جو گفتگو کو شفاف، مختصر اور تحریری رکھے تاکہ ہر بات اصول، منطق اور شائستگی کی حدود میں رہے۔
دفتری ابلاغ کا سب سے اعلیٰ معیار واضح، مختصر اور تحریری پیغام ہے۔ واٹس ایپ ہو یا ای میل، اداروں کو چاہیے کہ آڈیو کلچر پر واضح قدغن لگائیں۔ آڈیو صرف ہنگامی صورتِ حال یا ایسی تکنیکی تفصیلات تک محدود رہے جنہیں سمجھانا واقعی تحریر سے مشکل ہو۔ بصورتِ دیگر تحریر کو اصول اور آواز کو استثنا قرار دیا جائے۔
دفاتر کو ایک بار پھر اُس تہذیب کی طرف لوٹنا ہوگا جہاں گفتگو وقار رکھتی تھی، الفاظ ذمہ داری اٹھاتے تھے اور رابطہ ذہنی میچورٹی کی علامت تھا۔ پرائیویسی وہ دیوار ہے جو ہر دفتر کو محفوظ رکھتی ہے اور نظم وہ ریڑھ کی ہڈی ہے جو ادارہ کھڑا رکھتی ہے۔ ان دونوں کو آڈیو کلچر کی بدتہذیبی کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دفاتر اپنے SOPs میں ایک واضح لائن کھینچ دیں کہ پیشہ ور ادارے میں رابطہ تحریری ہوتا ہے، آڈیو صرف ضرورت کے تابع ہو۔ وہ دفاتر جن کے کام کی نوعیت پبلک ڈیلنگ ہو جیسے بینک کاونٹرز وغیرہ، ان میں آڈیو میسجز تو دور کی بات، سرے سے موبائل کلچر ہی نہیں ہونا چاھئیے تاکہ لمبی قطاروں میں لگی پبلک کی جلد باری ا سکے۔
اب جس کے جی میں آئے پائے وہی روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سرعام رکھ دیا

