Arthur Schopenhauer Bamuqabala Motivational Speakers
آرتھر شوپنہار بمقابلہ موٹیویشنل اسپیکرز

آج کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ سچائی کی تلخی کو تسلیم کرنے کے بجائے خواب بیچنے کا کاروبار عروج پر ہے۔ موٹیویشنل اسپیکرز ہر اسٹیج پر، ہر سکرین پر اور ہر کمپنی کے اندر ہمیں یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر ہم چاہیں تو سب کچھ ممکن ہے۔ کیا واقعی سب کچھ ممکن ہے؟ کیا انسان خواہشوں کے بھنور میں رہتے ہوئے کبھی سکون پا سکتا ہے؟ اسی مقام پر جرمن فلسفی آرتھر شوپنہار سامنے آتا ہے جو اعلان کرتا ہے کہ زندگی اپنی اصل میں دکھ کا دوسرا نام ہے۔ دیگر الفاظ میں بقول پروین شاکر:
زمیں کی پشت تحمل سے دوہری ہو جائے
اگر وہ بوجھ اٹھائے جو ہم اُٹھاتے ہیں
شوپنہار 1788ء میں جرمنی میں پیدا ہوا اور اس نے ایک ایسے دور میں آنکھ کھولی جب یورپ میں عقل پرستی، روشن خیالی اور ترقی کے نعرے بلند تھے۔ مگر وہ ان تمام رجحانات کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ عقل ہمیں دھوکہ دیتی ہے، خوشی ایک فریب ہے اور دنیا کی اصل حقیقت دکھ ہے۔ یہی وہ انوکھا موڑ تھا جس نے شوپنہار کو باقی فلسفیوں سے جدا کر دیا۔ اس کا فلسفہ دراصل انسان کو خوابوں سے جگانے کی ایک بے رحم کوشش ہے۔ بقول شاعر:
خواب ہوتے ہیں دیکھنے کے لیے
ان میں جا کر مگر رہا نہ کرو
شوپنہار کا کہنا ہے کہ انسان کی سب سے بڑی مصیبت اس کی خواہش ہے۔ ایک خواہش پوری ہوتی ہے تو دوسری پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ لامحدود خواہشیں انسان کو کبھی قرار نہیں لینے دیتیں۔ انسان کو پیاس لگتی ہے، پانی پیتا ہے اور عارضی خوشی حاصل کرتا ہے مگر کچھ دیر بعد پھر پیاس لگ جاتی ہے۔ اس کی زندگی خوشی اور دکھ کے درمیان جھولتے ہوئے پینڈولم کی مانند ہے۔ وہ موٹیویشنل اسپیکرز کے اس دعوے کو کہ سوچو اور حاصل کرو محض ایک فریب سمجھتا ہے۔ کیونکہ سوچنے سے حقیقت نہیں بدلتی بلکہ حقیقت تو اپنی سختیوں اور تلخیوں کے ساتھ ویسی ہی کھڑی رہتی ہے۔
ہمارے عہد کے موٹیویشنل اسپیکرز مسلسل یہ پیغام دیتے ہیں کہ "کل" بہتر ہوگا۔ مگر شوپنہار کے مطابق یہ "کل" محض ایک سراب ہے۔ انسان آج بھی دکھ میں ہے، کل بھی دکھ میں ہوگا۔ اصل آزادی اس وقت آئے گی جب انسان اپنی خواہشوں کو قابو میں لائے، ان کے جال سے نکلے۔ شوپنہار کی فکر بدھ مت سے قریب ہے، جہاں خواہش کو دکھ کی جڑ قرار دیا گیا ہے۔ مہاتما بدھ نے جس "نروان" کی بات کی تھی، وہی شوپنہار کی زبان میں خواہش کے بوجھ سے نجات ہے۔
سوال یہ اخذ ہوتا ہے کہ انسان اس خواہش کو مارے کیسے؟ اس کا جواب آسان نہیں۔ مہاتما بدھ نے بھی یہی کہا کہ خواہش کو مکمل طور پر ختم کرنا مشکل ہے لیکن اسے پہچاننا اور اس کے دھوکے سے آزاد ہونا ممکن ہے۔ شوپنہار کے مطابق یہ پہچان ہی اصل نجات کی پہلی سیڑھی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ آرٹ، موسیقی اور جمالیاتی تجربات انسان کو وقتی طور پر خواہش سے آزاد کر سکتے ہیں اور اسی لمحے میں انسان دکھ سے ہلکی سی نجات محسوس کرتا ہے۔
نفسیات کی دنیا بھی شوپنہار کی فکر کی تائید کرتی ہے۔ فرائیڈ نے کہا ہے کہ انسان، لاشعور میں خواہشوں کا قیدی ہے اور یہ خواہشیں ہی اس کی تمام نفسیاتی الجھنوں کا سبب ہیں۔ لگ بھگ تمام ماہرین نفسیات تسلیم کرتے ہیں کہ انسان کے اندر ایسی قوتیں ہیں جو اس کے قابو میں نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جدید نفسیات بھی بالواسطہ طور پر شوپنہار کے فلسفے کو تقویت دیتی ہے۔
اگر زندگی واقعی دکھ کا نام ہے تو پھر اس فلسفے کا نتیجہ کیا ہے؟ کیا یہ محض مایوسی نہیں؟ شوپنہار کے ناقدین یہی کہتے ہیں کہ اس کا فلسفہ زندگی کو جینے کے قابل نہیں چھوڑتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ شوپنہار نے مایوسی نہیں بلکہ حقیقت شناسی دی ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ انسان خوابوں اور فریب سے نکل کر حقیقت کا سامنا کرے تاکہ وہ جھوٹی امیدوں کے بجائے حقیقت کی بنیاد پر اپنی زندگی کا راستہ طے کرے۔
یہی تناظر ہمیں آج کے ڈیجیٹل دور میں اور بھی شدت سے نظر آتا ہے۔ سوشل میڈیا پر موٹیویشنل کلچر ایک وبا کی طرح پھیل چکا ہے۔ ہر دوسری ویڈیو میں کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا دکھائی دیتا ہے کہ محنت، عزم اور چند مثبت جملوں کے ذریعے آپ سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ویڈیوز، کالمز اور بلاگز وقتی لذت تو دیتے ہیں لیکن اندر کا خلا اور بڑھا دیتے ہیں۔ نوجوان ان خوابوں کے پیچھے دوڑتے ہیں اور جب حقیقت انہیں اپنے مقابل کھڑی نظر آتی ہے تو مایوسی اور ڈپریشن میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں شوپنہار کی فکر زیادہ بامعنی، وزنی اور جاندار لگتی ہے کیونکہ وہ ہمیں اصل حقیقت سے متعارف کراتا ہے اور جھوٹی تسلیوں کے دام میں گرفتار نہیں کرتا اور کہتا ہے جیسے بقول شاعر:
حقیقت ہمیشہ حقیقت رہے گی
کبھی بھی نہ اس کا فسانہ بنے گا
درحقیقت موٹیویشنل اسپیکرز کے سب سے بڑے سامعین وہ لوگ ہیں جو جذباتی طور پر کمزور اور فکری طور پر سطحی ہوتے ہیں۔ یہ وہی طبقہ ہے جو تلخ حقیقتوں کا سامنا کرنے کے بجائے خوش کن جملوں اور وقتی جوش میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ ایسے لوگ منطق پسندی برداشت نہیں کر سکتے کیونکہ منطق خواب نہیں بیچتی بلکہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حقیقت دکھا دیتی ہے۔ اس لیے وہ ہر اس شخص کو ناپسند کرتے ہیں جو انہیں آئینہ دکھائے۔
شاعر مشرق علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں بھی امید اور حقیقت کے بیچ ایک فکری نکتہ اٹھاتا ہے:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
کیا واقعی انسان اپنی خودی کو اتنا بلند کر سکتا ہے کہ تقدیر بدل جائے؟ شوپنہار کے نزدیک یہ بات محض شاعرانہ تخیل ہے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ تقدیر، خواہش کے جال میں قید ہے اور انسان کی سب سے بڑی جیت یہ ہے کہ وہ ان خواہشوں کے فریب کو پہچان لے۔ یہاں مرزا غالب کا یہ شعر شوپنہار کی فکر کی تائید کرتا نظر آتا ہے:
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
یہی وہ کیفیت ہے جسے شوپنہار فلسفے کی زبان میں بیان کرتا ہے کہ خواہشوں کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔
قاری اگر دیانتداری سے غور کرے تو دیکھے گا کہ موٹیویشنل تقاریر کے بعد بھی انسان وہی رہتا ہے، خواہشوں میں جکڑا ہوا، دکھ کے صحرا میں پیاسا۔ یہیں شوپنہار غالب آتا ہے کیونکہ وہ حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے، خواہ وہ کڑوی ہی کیوں نہ ہو۔
اب جائزہ لینا ہے کہ آرتھر شوپنہار کے فلسفہ کے سامنے موٹیویشنل اسپیکرز کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ان کی حیثیت محض خواب فروشوں کی سی ہے۔ وہ خوش کن جملے بول کر لمحاتی تسلی دیتے ہیں مگر انسان کی فطرت نہیں بدل سکتے۔ یہ سب مل کر لوگوں کو وقتی جوش تو دیتے ہیں، مگر حقیقت نہیں بدلتے۔ قاری اگر ایمانداری سے غور کرے تو دیکھے گا کہ موٹیویشنل تقاریر کو سماعت اور فالو کرنے کے بعد بھی انسان وہی رہتا ہے یعنی خواہشوں میں جکڑا ہوا اور دکھ کے صحرا میں پیاسا۔ یہیں شوپنہار غالب آتا ہے کیونکہ وہ حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے، خواہ وہ کڑوی ہی کیوں نہ ہو۔
ذرا گہرائی میں جا کر جائزہ لیا جائے تو موٹیویشنل اسپیکرز کی فوج ظفر موج بھی بالکل اسی طرح پیدا ہوئی ہے جیسے شعرا کی فوج۔ یعنی جو کچھ نہیں بن سکتا وہ یا تو شاعر بن جاتا ہے یا موٹیویشنل اسپیکر بن جاتا ہے۔
اگر مزید ڈونگھے پانیوں میں جا کر دیکھا جائے تو موٹیویشنل اسپیکرز بھی دراصل وہی کام کر رہے ہیں جو ہمارے ہاں مذھبی پنڈت کرتے ہیں۔ یعنی مولوی ہمیں صبر، شکر کی پٹیاں پڑھا کر آگے بڑھنے سے روکتا ہے۔ جبکہ موٹیویشنل اسپیکر ہماری ناکامیوں، خامیوں، کمزوریوں اور حسرتوں کا ذمہ دار ہمیں ٹھہراتے ہوئے ہم میں احساس کمتری و احساس نااہلی پیدا کرتے ہے کہ ہم خود کوشش نہیں کرتے، ہم بیکار ہیں اور گھر والوں کی مفت کی روٹیاں توڑتے ہیں۔ حالانکہ یہ موٹیویشنل اسپیکر کم عقلی ہے کہ وہ دستیاب وسائل، زمینی حالات، داخلی و خارجی ماحول کو مدنظر نہیں رکھتا بلکہ سارا قصور قارئین کا قرار دیتا ہے کہ یہ خود ہاتھ نہیں ہلاتے۔ گویا موٹیویشنل اسپیکرز بھی مولوی طبقہ کی طرح سرمایہ داروں کے کارندے ہیں جو غریب نوجوانوں میں احساس کمتری پیدا کر رہے ہیں تاکہ ساری عمر یہ خود کو ہی کوستے رہیں۔
حاصل بحث یہ کہ موٹیویشنل اسپیکرز خواہ کتنا ہی پُرجوش اور بلند آہنگ طریقہ استعمال کرکے خواب بیچیں، زندگی کی حقیقت ان خوابوں سے کہیں زیادہ تلخ اور پیچیدہ ہے۔ شوپنہار کا فلسفہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ دکھ اور خواہش انسان کی جبلت میں گندھے ہوئے ہیں اور ان سے فرار ممکن نہیں۔ انسان جب اپنی خواہشوں کو پہچان لیتا ہے اور ان کے فریب سے آزاد ہونے کی جستجو کرتا ہے تو حقیقت کی ایک کرخت مگر سچی تصویر اس کے سامنے آتی ہے۔ یہی وہ تصویر ہے جو شوپنہار کو سرخرو کرتی ہے اور خواب فروشوں کو رسوا۔ جیسا کہ میر نے کہا تھا:
درد منت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا، بُرا نہ ہوا

