Allah Ke Naam Par De Do Baba Aur Afsar Shahi
اللہ کے نام پر دے دو بابا اور افسر شاہی
ایک درجہ چہارم کا ملازم آفیسر کے آفس میں سالوں سے ڈیوٹی دے رہا ہے۔ ہر سال عمرہ بھی کرنے جاتا ہے، بظاہر نیک دکھائی دیتا ہے، نماز بھی پڑھتا ہے۔ لیکن درحقیقت کرخت قسم کا بندہ ہے، منہ پھٹ ہے۔ بولنے سے پہلے سوچنا اس نے کبھی سوچا ہی نہیں۔ نہ چھوٹا بڑا دیکھتا ہے اور نہ ہی جونئیر سینئر۔ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتا ہے۔ آفیسر کے دفتر میں کام کرنے کی وجہ سے تمام سٹاف کواپنی رعایا اور کیڑے مکوڑے سمجھتا ہے۔
جب کسی ذیلی دفتر میں بطور پیغام رساں آتا جاتاہے تو اس کی باڈی موومنٹ، لب و لہجہ، آواز کا اتار چڑھاؤ اور چہرے کے تاثرات ایسے ہوتے ہیں جیسے موصوف اپنے افسر کا بھی افسر ہو، چلتا اس سٹائل سے ہے جیسے جگا آ رہا ہو، دوران تخاطب سینئرز سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے اور اپنا درجہ چہارم ذہن میں نہیں رکھتا۔ اسی وجہ سے بہت سے ملازمین اس کو آتا دیکھ کر راستہ بدل لیتے ہیں۔ حالانکہ انسانیت کا تقاضا ہے کہ انسان جتنا اعلیٰ عہدے پر کام کرتا ہے یا اعلیٰ آفیسر کے ساتھ کام کرتا ہے، اس میں عجز و انکساریت کا مادہ مزید بڑھنا چاہیے۔
یہ ملازم اپنی نادانی، کم عقلی اور غرور و تکبر کی وجہ سے اپنے آفیسر کا امیج ذیلی سٹاف پر منفی ظاہر کرتا ہے۔ نتیجتاً ذیلی سٹاف اپنے چیف کو ضدی، سخت اور سنگدل سمجھ لیتے ہیں۔ حالانکہ اکثر ایسا نہیں ہوتا۔ اسی ملازم کی وجہ سے میری نگاہوں میں بھی ہمارا چیف سخت و کرخت، اکھڑ مزاج اور اندھ دھند حکم چلانے والا تھا۔ لیکن بعد ازاں جب مجھے چیف کے ساتھ چند ہفتے کام کرنے کا موقع ملا تب معلوم ہوا کہ ملازم نے ذیلی سٹاف پر چیف بارے جو منفی تاثر پھیلایا ہوا ہے اس میں رتی بھر بھی سچائی نہیں۔ بعد ازاں میں نے ذیلی سٹاف پر چیف بارے درست حقائق پہنچائے تب ملازمین نے اپنے ذہنوں سے چیف کا خوف نکالا اور انہیں اچھے انداز میں یاد کرنا شروع ہوئے۔
یہ ملازم جب تک خاموش رہے، یا عمرہ پر گیا رہے تو دفتر میں سکون رہتا ہے۔ میں حیران کہ درجہ چہارم کا ملازم اتنے عمرے کیسے کر لیتا ہے جبکہ عمرہ کرنا آج مہنگائی کے دور میں عام انسان کی پہنچ سے مزید دور ہوگیا ہے۔ کئی دوستوں سے اس بارے استفسار کیا تو اکثر نے کہا کہ سعودیہ جا کر نہ صرف عمرہ کا خرچہ نکال لیا جاتا ہے بلکہ آئندہ سال کے عمرہ کے خرچہ کا بھی بندوبست کر لیا جاتا ہے۔ پوچھا کیسے؟ جواب ملا کہ "اللہ کے نام پر دے دو بابا" کی گردان کرکے۔
جب میں نے اس گردان پر غور کیا تو مجھے اس میں کافی وزن لگا۔ چونکہ پردیس میں جاننے والا کوئی نہیں ہوتا اس لیے"اللہ کے نام پر دے دو بابا" کی گردان دھڑلے سے کی جا سکتی ہے۔ اس بات کو تقویت دو حقائق سے مل جاتی ہے۔ اول یہ کہ مسلم دنیا میں سب سے زیادہ پاکستانی عمرہ کرنے جاتے ہیں۔ اور دوم حال ہی میں سعودی عرب کی پولیس نے تین ہزار سے زائد بھکاری گرفتار کیے تھے جن میں ڈھائی ہزار بھکاری پاکستانی نکلے تھے۔
"اللہ کے نام پر دے دو بابا" کی گردان غیر ملک میں ہی ممکن ہو تی ہے۔ اپنے ملک و شہر میں شرم و حیا اور غیرت کا مادہ ایسا کرنے سے روکتا ہے کہ مبادا کوئی جاننے والا دیکھ نہ لے۔ لاہور میں اورنج لائن ٹرین کے اسٹیشن پر جائیں تو باہر بہت سے بائیکیا والے سواری کے انتظار میں کھڑے ہوتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے اپنے چہرے پر یا تو ماسک پہنا ہوتا ہے اور یا پھر بڑے رومال جسے صافہ بھی کہتے ہیں، کو اپنے چہرے اور سر پر لپیٹا ہوتا ہے تاکہ چہرہ چھپا رہے کہ کیا معلوم سواری جاننے والی نکل آئے۔ سمجھ سے باہر ہے کہ ایسے حلیہ میں ڈرائیور خود مشکوک آدمی دکھائی دیتا ہے، اس کی گاڑی پر سواری کیسے بیٹھ جاتی ہے۔
پاکستان میں نچلے درجے کے سٹاف کی بیوروکریسی ہر سرکاری و غیر سرکاری دفتر کا معاملہ ہے۔ افسر شاہی سے براہ راست رابطہ بھی تب تک ممکن نہیں ہوتا جب تک ان کے چپڑاسیوں سے اجازت مرحمت نہ لے لی جائے، جب تک ان کو "ٹپ" نہ دی جائے۔ جس طرح معروف ہے کہ وکیل نہیں بلکہ جج کرنے سے دال گلتی ہے، اسی طرح یہ بھی زبان زد عام ہے کہ تھرو پراپر چینل استعمال کرنے کی بجائے براہ راست ایسے چپڑاسیوں سے رابطہ کرکے منٹوں میں کام نکل جاتا ہے۔
تعجب یہ ہے کہ ایسا سٹاف سالوں سے ایک ہی دفتر میں براجمان رہتا ہے۔ ان کی ٹرانسفر کا کوئی تصور نہیں۔ آفیسرز بدلتے رہتے ہیں مگر ان کا خصوصی سٹاف ایک ہی دفتر میں اپنی ساری سروس مکمل کر لیتا ہے۔ کسی افسر نے درجہ چہارم کے ایسے سٹاف کی بیوروکریسی توڑنے بارے کبھی غور نہیں کیا جبکہ ماتحت دفاتر میں ٹرانسفر دھڑا دھڑ کرتے رہتے ہیں۔
انصاف اور قانون کا تقاضا تو یہی ہے کہ شروعات خود سے کی جائے، پھرہی ماتحت دفاتر میں ٹرانسفر پوسٹنگ کا اخلاقی جواز بنتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آفیسرز کے ساتھ براہ راست کام کرنے والوں کے تبادلہ کا دورانیہ بھی کم سے کم ہونا چاہیے تاکہ معاشرہ میں" افسر کا ٹاؤٹ" اصطلاح کا استعمال بند ہو سکے۔
ایک دیا کب روک سکا ہے رات کو آنے سے
لیکن دل کچھ سنبھلا تو اک دیا جلانے سے
جو پھولوں اور کانٹوں کی پہچان نہیں رکھتا
پھول نہیں رُکتے گھر اُس کا کبھی مہکانے سے